اپنی ’آزادی برقرار‘ رکھنے کے خواہشمند مصطفی نواز کھوکھر کن اختلافات کے باعث مستعفی ہوئے؟
’میری ٹویٹس سب کے سامنے ہیں۔ اب جبکہ میں سینیٹ کی رکنیت چھوڑ چکا ہوں تو کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتا جو مزید خفگی کی وجہ بنے۔ اچھے نوٹ پر بات ختم کرنا چاہتا ہوں۔‘
یہ کہنا ہے پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کا جنھوں نے جمعرات کو سینیٹ کی رکنیت سے استعفی دیتے ہوئے پارٹی کو بھی خیر آباد کہا۔ مصطفی نواز کھوکھر کا دعویٰ ہے کہ ان کے اس فیصلے کی وجہ پارٹی قیادت کی ان کے سیاسی بیانات سے ناراضی ہے اور اسی لیے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا گیا۔
واضح رہے کہ مصطفی نواز کھوکھر کا یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب تحریک انصاف کی جانب سے خفیہ اداروں پر تشدد کروانے، مبینہ ویڈیوز اور سیاست دانوں کی نجی گفتگو لیک کروانے کے الزامات کا ایک سلسلہ جاری ہے جس کی تازہ ترین مثال سینیٹر اعظم سواتی کی جانب سے ان کی اہلیہ کو مبینہ طور پر ایک ذاتی ویڈیو بھجوانے کا الزام لگایا گیا۔
ایف آئی اے کی جانب سے اس ویڈیو کو جعلی قرار دیا گیا تاہم مصطفی نواز کھوکھر ان چند سیاست دانوں میں شامل تھے جنھوں نے یہ معاملہ سامنے آتے ہی اعظم سواتی کی حمایت میں بیان دیا کہ ’اعظم سواتی صاحب کا یہ کلپ چیئرمین سینیٹ اور تمام پارلیمان کے منہ پر طمانچہ ہے۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ہماری انٹیلیجینس والے اس حد تک جائیں گے اور ہماری دینی، معاشرتی اخلاقیات کی اس طرح دھجیاں بکھیر دیں گے۔‘
اس ٹویٹ کے تین دن بعد مصطفی نواز کھوکھر نے اعلان کیا کہ پارٹی قیادت کی جانب سے ہدایات پر وہ مستعفی ہو رہے ہیں اور بحیثیت سیاسی ورکر وہ ’عوامی مفاد کے معاملات پر اپنی رائے کے اظہار کے حق سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔‘
جمعرات کو جب ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا تو مصطفی نواز کھوکھر ایک مہمان کے ساتھ بیٹھے تھے۔
میں نے ان سے سوال کیا کہ رکنیت چھوڑنے کی کیا وجہ بنی؟
باوجود اس بات کے کہ وہ اب بظاہر پیپلز پارٹی کا حصہ نہیں رہے، وہ اس معاملے پر مزید کوئی بات نہیں کرنا چاہتے تھے۔
انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’میری ٹویٹس سب کے سامنے ہیں۔ اور اب جبکہ میں سینیٹ کی رکنیت چھوڑ چکا ہوں تو کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتا جو مزید خفگی کی وجہ بنے۔اچھے نوٹ پر بات ختم کرنا چاہتا ہوں۔‘
بی بی سی نے پاکستان پیپلز پارٹی کے متعدد رہنماؤں سے اس معاملے پر بات کرنے کی کوشش کی مگر ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر کی یہ ٹویٹس اپنی جگہ لیکن پاکستان پیپلز پارٹی اور ان کے دیگر جاننے والے کہتے ہیں کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ان کے پارٹی قیادت سے اختلافات ہوئے ہیں۔
اور ان کا اپنے استعفے کے متن میں یہ کہنا کہ انھوں نے ’سینیٹر فاروق ایچ نائیک کی ہدایت پر استعفی پیش کیا ہے‘، اس بات کا امکان ہے کہ اُن پر پارٹی کی سینیئر قیادت کی طرف سے استعفیٰ دینے کا دباؤ بڑھ رہا تھا۔
زیادہ تر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں بےشک جمہوری نظام کے لیے کوشاں ہوں لیکن ان تمام تر سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر جمہوری نظام رائج نہیں ہے۔ اور اس رویے کی مثالیں موجود ہیں جہاں سیاسی رہنماؤں کو کسی کانفرنس میں، یا سوشل میڈیا پر، یا پھر کسی ٹی وی چینل پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بات کرنے پر نوٹس جاری کر دیا گیا ہے یا پھر رکنیت سے مستعفی ہونے کی ‘ہدایت’ دی گئی ہے۔
اس پر تھوڑا آگے جا کر بات کرتے ہیں لیکن پہلے اس سوال کا جواب جان لیتے ہیں کہ مصطفیٰ نواز کھوکھر کے پیپلز پارٹی کے ساتھ کن باتوں پر اختلافات رہے ہیں؟
مصطفیٰ نواز کھوکھر کے پیپلز پارٹی کے ساتھ کن باتوں پر اختلافات رہے ہیں؟
نومبر 2020 میں مصطفیٰ نواز کھوکھر بلاول بھٹو کے ترجمان تھے۔ اور اس وقت وہ سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کے سربراہ بھی تھے۔ اس دوران انسانی حقوق کمیٹی میں وہ لاپتہ افراد کے معاملے پر بھی بات کرتے رہے۔
صحافی اعزاز سید کہتے ہیں کہ ان تمام تر معاملات کی شکایتیں پی پی پی کے سینیئر ارکان کے پاس آتی تھیں۔
’اسی دوران بلاول اور مصطفیٰ نواز کے درمیان قول و فعل کا تضاد بھی صاف ظاہر ہونے لگ گیا۔ جہاں بلاول انسانی حقوق کے کسی معاملے پر کوئی بیان دیتے، ان کے ترجمان کا بیان ان سے خاصا مختلف اور زور دار ہوتا۔‘
’پاکستان پیپلز پارٹی ایسی سیاست کرنا چاہتی تھی جس سے انھیں کسی قسم کی مشکل پیش نہ آئے۔ لیکن مصطفیٰ نواز کھوکھر ان معاملات پر بات کرنا چاہتے تھے جس پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔‘
بہت جلد مصطفیٰ نواز کھوکھر نے اس عہدے کو چھوڑ دیا۔
اعزاز سید کے مطابق ’جب سنہ 2018 میں پاکستان تحریکِ انصاف کی نئی حکومت منتخب ہوکر آئی تب پیپلز پارٹی کی پوری کوشش تھی کہ انسانی حقوق کی کمیٹی مسلم لیگ نواز اپنے پاس رکھ لے۔ مشاہد حسین سید کا نام لیا گیا، انھوں نے انکار کردیا، شیری رحمان نے بھی نہیں لی، تو آخر کار یہ کمیٹی پھر پی ٹی آئی کے سینیٹر ولید اقبال کے پاس گئی۔‘
ان کے مطابق ’مصطفیٰ نواز کھوکھر کا نام پیپلز پارٹی نے بھی نہیں دیا کیونکہ انھیں پتا تھا کہ یہ ایسی باتیں کرے گا جو اسٹیبلیشمنٹ کو ناگوار گزریں گی۔‘
’مصطفی نواز کھوکھر اپنے خاندان سے الگ ہیں‘
مصطفیٰ نواز کھوکھر کی جب بات کی جاتی ہے تو زیادہ تر لوگ انھیں ’اپنے خاندان سے الگ‘ شخص بتاتے ہیں۔
مصطفیٰ نواز حاجی نواز کھوکھر کے بیٹے ہیں۔ حاجی نواز کھوکھر 1985 میں پاکستان کی اسمبلی میں شامل ہوئے تھے اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر بھی رہ چکے ہیں۔
حاجی نواز کھوکھر بزنس مین ہونے کے ساتھ ساتھ تمام عمر پی پی پی کے حمایتی رہے۔
حاجی نواز کے بھائی امتیاز علی کھوکھر جو اسلام آباد اور گرد و نواح میں تاجی کھوکھر کے نام سے مشہور تھے اور ایک متنازع شخصیت رہے۔ ان کے خلاف مختلف مقدمات درج ہوئے جن میں زمینوں پر قبضوں سے لے کر اقدام قتل تک کے الزامات شامل تھے۔
مصطفیٰ نواز کھوکھر کے والد اور چچا تاجی کھوکھر کا جنوری 2021 میں ایک ہی ہفتے میں انتقال ہوا تھا جس کی وجہ کورونا بتائی گئی تھی۔
صحافی حامد میر نے مصطفیٰ نواز کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مصطفیٰ نواز کھوکھر کو آپ ان کے خاندان سے الگ دیکھیں۔ ان کی پڑھائی برطانیہ میں ہوئی، جہاں سے انھوں نے انسانی حقوق میں سپشیلائیزیشن (تخصیص) کی اور پھر پاکستان آئے۔‘
مصطفیٰ نواز کھوکھر نے سنہ 2002 کے عام انتخابات میں اسلام آباد کے این اے 49 کے دیہی علاقے سے انتخابات میں حصہ لیا لیکن وہ ہار گئے۔ اسی نشست سے پی پی پی کے رکن نئیر بخاری جیت گئے جو بعد میں چیئرمین سینیٹ بھی رہے۔
اعزاز سید نے بتایا کہ سنہ 2008 میں مصطفیٰ نواز کھوکھر پیپلز پارٹی کی حکومت میں بطور انسانی حقوق کے ایڈوائزر کے طور پر شامل ہوئے۔
اسی دوران انھوں نے جبری طور پر گمشدہ افراد کے معاملے کو بھی اٹھایا۔ ’آج کی طرح ان معاملات پر اس وقت بھی کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ لیکن مصطفی نواز کھوکھر اس پر پارٹی پالیسی کے برعکس بات کیا کرتے تھے۔‘
صحافی عمر چیمہ کے مطابق ’مصطفیٰ نواز کھوکھر نے اسی دور میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجینس کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل احمد شجاع پاشا کو لاپتہ افراد کے معاملے پر خط لکھا تھا۔‘ اپنے یوٹیوب چینل پر انھوں نے کہا کہ ’یہ خاص طور سے ایک ایسا معاملہ ہے جس پر کوئی بات کرنا نہیں چاہتا۔‘
مصطفیٰ نواز کے لیے سیاسی راستے کیا ہیں؟
اس متعلق جب بی بی سی نے مصطفیٰ نواز سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ اس وقت وہ کسی جماعت میں جانا نہیں چاہتے۔
مصطفی نواز کھوکھر کے حالیہ بیانات کے بعد ان کو پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے کافی سراہا گیا جس کے بعد ایسی قیاس آرائیاں ہوئیں کہ وہ پی ٹی آئی میں شامل ہو سکتے ہیں۔
تاہم خود مصطفی نواز کا کہنا ہے کہ وہ اپنی آزادی برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے۔
صحافی حامد میر نے کہا کہ مصطفیٰ نواز ’پی ٹی آئی پر خاصی تنقید کر چکے ہیں جس کے نتیجے میں وہ بمشکل ہی اس جماعت کو اپنے لیے چنیں گے۔‘ لیکن آخرکار یہ پاکستان ہے اور یہاں کچھ بھی ہوتا ہے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ مصطفی نواز کا خاندان دیہی علاقوں میں جانا جاتا ہے۔ ’اس وقت مصطفیٰ نواز کو نہیں بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کو ان کی ضرورت ہے۔ ان تمام تر سیاسی جماعتوں میں یکساں اصول ہیں جو بالکل جمہوری نہیں۔ پارٹی پالیسی ہر چیز پر غالب ہو جاتی ہے۔ اور بطور رکن آپ کو انھیں ماننا پڑتا ہے ورنہ نوٹس جاری ہو جاتا ہے۔‘
اس کی مثال حالیہ دنوں میں ہونے والے چند واقعات سے ملتی ہے جہاں مسلم لیگ نواز کے جاوید لطیف کو جماعت کی جانب سے موجودہ حکومت میں کسی وزارت کا چارج نہیں دیا گیا۔ یا پھر سابق وفاقی وزیر برائے قانون اعظم نذیر تارڑ جنھوں نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے انعقاد میں اپنا کردار ادا کرنے کے بعد اپنی رکنیت ’ذاتی وجوہات‘ کی بنا پر چھوڑ دی۔
تجزیہ کاروں کی جانب سے عندیہ یہی دیا جا رہا ہے کہ اگر اگلے چھ ماہ میں الیکشن ہوتے ہیں تو مصطفیٰ نواز بطور آزاد امیدوار لڑیں اور جیت کی صورت میں کسی پارٹی میں شمولیت اختیار کر سکتے ہیں۔