منتخب تحریریں

مولانا حسرت موہانی اور پرویز رشید !

Share

جب کبھی میں کسی دوست کے بارے میں لکھنے بیٹھتا ہوں، مجھے کبھی یاد نہیں آتا کہ اس سے پہلی ملاقات کب ہوئی تھی؟ کچھ کے بارے میں تو یہ تشویش بھی ہوتی ہے کہ کیوں ہوئی تھی ؟پرویز رشید کا معاملہ تو اس لحاظ سے بھی منفردہے کہ ان سے تعلق کو روایتی دوستی کا نام بھی نہیں دے سکتا ،ان کےساتھ نہ کبھی کوئی فلم دیکھی نہ سڑکوں پر آوارہ گردی کی نہ کبھی تندوتیز جملے کسے اور بے تکلفی بھی ایک حد سے آگے نہیں بڑھی ویسے پرویز مجھ سے متعارف اپنے کالج کے زمانے سے تھے۔ میں ان دنوں یونیورسٹی کا طالب علم تھا کلاسیں کم اٹینڈ کرتا اور اورینٹل کالج میں برگد کے درخت کے نیچے بیٹھ کر آتے جاتوں کی ہجو لکھتا جو آناً فاناً زبان زد خاص و عام ہو جاتی تھی۔ ان دنوں میں نے نوجوانوں کا ’’قومی ترانہ ‘‘ لکھا افسوس کہ نمونے کے طور پر بھی اس کا کوئی ایک مصرعہ بھی یہاں درج نہیں کر سکتا۔ پرویز رشید نے بتایا کہ پاکستان کے دوسرے شہروں کے علاوہ اس کی دھومیں راولپنڈی تک بھی پہنچیں جہاں یہ لوگ تو اس کی صورت میں یہ ’’ترانہ‘‘گایا کرتے تھے۔ یونیورسٹی سے رخصت کے بعد میرا ایک ڈرامہ ’’الہٰ دین کا جن‘‘ کے عنوان سے پی ٹی وی سے چلا جو پرویز رشید نے راولپنڈی میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھا اور وہ بتاتے ہیں کہ اس کا تاثر آج تک ان کے ذہن میں قائم و دائم ہے!

پھر یوں ہوا کہ بائیں بازو کا یہ اتھرا نوجوان میاں نواز شریف کے قریب آیا اور ان کی سیاست اور شخصیت سے متاثر ہوا۔ اللہ جانے مجھے یہ بات کہنی چاہئے کہ نہیں کہ بائیں بازو کے اس دانشور نے میاں صاحب کی شخصیت پر بھی بہت مثبت اثرات چھوڑے۔ وہ دن اور آج کا دن پرویز رشید ہر مشکل وقت میں میاں صاحب کے ساتھ رہے اور بہت تکلیفیں بھی اٹھائیں۔ میں پرویز رشید کی ’’زلفوں‘‘ کا اسیر ان کی صاف ستھری سیاست کے حوالے سے ہوا وہ بہت اہم وزارتوں سے منسلک رہے اور ان کے دامن پر کرپشن کا کوئی ہلکا سا داغ بھی موجود نہیں، کرپشن تو چھوڑیں موصوف نے اپنی عمر بھر کی کمائی بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا دی، ان کی اپنی فیکٹری تھی، سیاست کے جھمیلوں اور پاک صاف کردار کی وجہ سے اس کاروبار کو بڑھاوا دینے کی بجائے الٹا اس سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مجھے ان کی یہ ادائیں پسند ہیں مگر اس حد تک جانے کا قائل نہیں کہ ساری عمر کاروبار کرنے کے باوجود انسان اپنا گھر تک نہ بنا سکے اور کرائے کے گھر میں رہے۔ اتنی درویشی کی نذر کرنے والا ان دنوں کوئی نظر نہیں آتا۔ مولانا کے پاس جو کار ہے اس کی حالت دیکھ کر پطرس کا مضمون بائیسکل یاد آ جاتا ہے۔ پرویز رشید جب مرکزی وزیر اطلاعات تھے تو ایک دن میں ان کے ساتھ ان کے دفتر گیا۔ ان کے ایک ہاتھ میں بیگ اور ایک میں کوٹ تھا انہیں دیکھ کر ان کا نائب قاصد ان کی طرف بڑھا اور بریف کیس پکڑنے کی کوشش کی مگر انہوں نے منع کردیا۔اب ہم دفتر میں گئے تو شاندار جیسا وزراء کا ہوتا ہے مگر وہ وہاں بیٹھنے کی بجائے اس سے ملحقہ ایک چھوٹے سے کمرے میں چلے گئے جہاں ایک مختصر سی میز اور اس کے گرد تین کرسیاں تھیں۔ ہم وہاں بیٹھ کر گپ شپ کرتے رہے۔ میں نے پوچھا آپ اپنے دفتر میں کیوں نہیں بیٹھے؟ بولے میں وہاں کیوں بیٹھوں جہاں میں نے ہمیشہ نہیں بیٹھنا، یہاں بیٹھا ہوں جہاں وزارت کے بعد بھی بیٹھ سکتا ہوں۔ موصوف اپنے ملازموں سے اپنے جوتے پالش نہیں کراتے کہ اسے شرفِ انسانیت کے منافی سمجھتے ہیں کہ کوئی انسان کسی دوسرے کے جوتے پالش کرے چنانچہ پہلے بھی اور آج بھی وہ اپنے سارے کام خود انجام دیتے ہیں !

ایمانداری کی بھی ایک حد ہوتی ہے مگر اس حد تک جانے کی کیا ضرورت ہے کہ جب میں پی ٹی وی کا چیئرمین تھا، ان کی اہلیہ یعنی ہماری بھابی کبھی کبھار مجھے فون کرتیں کہ ان کے ایک ملازم یا کسی غریب جاننے والے کے بیٹے کو پی ٹی وی میں ڈرائیور یا نائب قاصد لگوا دیں کیونکہ پرویز رشید کی اصول بندی اس رستے میں بھی رکاوٹ کا باعث بنتی تھی اور میرا پرابلم یہ تھا کہ میں کسی کو ملازم نہیں رکھ سکتا تھا کیونکہ میں SIGNATORYنہیں تھا، اس قسم کے بلکہ ہر قسم کے اختیارات صرف ایم ڈی کے پاس تھے اور یوں میں اپنی بھابی سے بوجہ شرم بات کرنے سے جھجکتا تھا۔ پرویز رشید کو جب ہجرت کرکے لندن جانا پڑا تو اپنا پیٹ پالنے کے لئے گروسری کی ایک شاپ پر حساب کتاب لکھنے کی ملازمت کرتے رہے۔ پرویز رشید کی گفتگو بہت نپی تلی ہوتی ہے وہ محفل میں کم بولتے ہیں مگر جب بولتے ہیں تو پھر کسی دوسرے کے بولنے کی گنجائش کم کم ہی رہتی ہے۔ میں نے تحریک پاکستان کے جید رہنما اور صاحب طرز شاعر مولانا حسرت موہانی کی زندگی کا مطالعہ کیا ہے، مولانا سخت مذہبی تھے اس حد تک کہ میرے والد مرحوم مولانا بہاالحق قاسمی نے انگریز کے زمانے میں ان کے ساتھ جیل کاٹی ہےاور اباجی کے بقول وہ جیل میں بھی گیارہویں کا ختم دلاتے تھے اور دوسری طرف پکے بائیں بازو کے نظریات رکھتے تھے۔ پرویز رشید مجھے نظریاتی طور پر مولانا کے معنوی شاگرد بھی لگتے ہیں۔ کسی شہر میں مسلم لیگ کا ایک بڑا جلسہ تھا مولانا نے اس میں شرکت کرنا تھی ،مولانا تھرڈ کلاس کے ڈبے میں سفر کرتے تھے، وہ اسٹیشن پر اترے، موٹے شیشوں کی عینک ،بکھری ہوئی داڑھی اور بغل میں بوریا بستر دبائے ٹرین سے اترے اور جلسہ گاہ کی جانب چل دیے، رستے میں بھوک لگی۔ ایک تندور پر مزدور چوکیوں پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے مولانا بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے ۔دوسری طرف پورا شہر مولانا کے استقبال کیلئے ریلوے اسٹیشن پہنچا ہواتھا وہ فرسٹ کلاس کے ڈبے میں انہیں تلاش کرتے رہے جب نہ ملے تو سب نے واپسی کی راہ لی ان میں سے چند لوگوں کی نظر تندور پر بیٹھے مولانا پر پڑی، وہ ان کےپاس آئے اور کہا، حضرت آپ یہاں؟ آپ کے استقبال کو پورا شہر اسٹیشن پہنچا ہوا تھا۔ یہ سن کر مولانا نے معصومیت سے کہا، ’’ہاں بھئی میں نے بھی بہت رش دیکھا تھا میں سمجھا کہ کوئی بڑا آدمی آرہا ہے میں اٹھ کر ادھر آ گیا۔ بھوک لگی تو کھانا کھانے بیٹھ گیا۔‘‘

سوپرویز رشید بھی مولانا کے معنوی شاگرد ہیں۔ سینیٹ کے رُکن بھی تھے، مسلم لیگی بھی ہیں اور درویش بھی، گزشتہ دنوں مبینہ طور پر ایک سیاسی جماعت کے کسی کم ظرف حاسدنے ان کی ایک فیک ویڈیو بنائی، اللہ بھلا کرے اسد طور کا جس نے اس گھٹیا حرکت کا بھانڈا پھوڑ دیا۔جیو پرویز رشید!ہم تم سے پیار کرتے ہیں۔