خلا میں تیرتے 23 کروڑ بے وزن اجسام
نومبر کا نصف آن پہنچا۔ آئندہ دو ہفتوں کی ٹھیک ٹھیک پیش بینی ممکن نہیں ۔ قیاس کے گھوڑے دوڑانے والے البتہ بہت ہیں۔ اگر کوئی اس جم غفیر سے نکل کر قیافہ آرائیوں کی دھول پر غور کرے تو کیا مضائقہ ہے۔ آئیے، پندرہویں صدی کے ڈچ مصور ہائیرونیمس بوش (Hieronymus Bosch) اور بیسویں صدی کے سلواڈور ڈالی (Salvador Dali) کی باتیں کرتے ہیں۔ ان دو مصوروں میں ممکنہ نکتہ اشتراک کا نصابی جواب تو یہ ہے کہ ڈالی نے اپنی تکنیک اور تصور فن میں بوش سے بہت استفادہ کیا۔ ہسپانوی مصور فرانسسکو گویا کی معروف پینٹنگ کا عنوان یاد کیجئے۔ ’جہاں عقل کو اونگھ آ جاتی ہے وہاں عفریت جنم لیتے ہیں‘۔ شعر ہو، مصوری یا موسیقی ہو، فن کی کٹھالی میں فنکار کی ذات، لاشعور کے زیرزمین دھارے، جاگتی آنکھ کے منظر، خارج کے سیاسی محرکات اور اجتماعی شعور کے بدلتے ہوئے رنگ باہم خلط ملط ہو کر ایک ایسے بیان کی صورت اختیار کر لیتے ہیں جس پر ایک نگہ تغافل بھی ڈالی جا سکتی ہے اور اگر رک کر غور کرنا چاہیں تو ہر گام پر خواب اور حقیقت کا اتصال دامن گیر ہوتا ہے۔
ہائیرونیمس بوش 1450 میں پیدا ہوا تو یورپ میں سو سالہ جنگ ختم ہونے کو تھی۔ گٹن برگ کا چھاپہ خانہ ایجاد ہو چکا تھا۔ نشاۃ ثانیہ کی آمد آمد تھی۔ ہسپانوی احتساب کی آزمائش ابھی باقی تھی۔ بوش نے قرون وسطیٰ کے اندھیرے کو اپنی مصوری کے علائم میں سمو لیا۔ ڈاکٹر انور سجاد نے ضیا آمریت کے تاریک برسوں میں بوش کی معروف پینٹنگ The Garden of Earthly Delights سے تحریک پا کر ’خوشیوں کا باغ‘ کے عنوان سے ایک ناولٹ تخلیق کیا تھا۔ بوش نے شاہ بلوط کی سہ تختی پر مذہبی علامتوں میں انسان کی تقدیر مصور کی تھی۔ بائیں ہاتھ کے تختے پر ہبوط آدم کا منظر ہے۔ درمیانی تختے پر نیم عریاں نقش و نگار سے ہماری ارضی حیات کی تصویر کشی ہے اور داہنی طرف تیسرے حصے میں نیم تاریک رنگوں میں جہنم کا نقشہ کھینچا ہے۔ فن کی پرواز کا کیا ٹھکانہ ہے۔ بوش سگمنڈ فرائیڈ یا تجریدی مصوری سے آشنا نہیں تھا۔ وہ تو اپنے من ساگر میں غوطہ زن ہو کر کائنات کی وہ تصویر کھینچ رہا تھا جو اس کے ہم عصر کلیسائی پیشوائوں کی فہم سے بھی بالا تھی۔ بوش کی موت کے چار سو برس بعد 1904 میں سلواڈور ڈالی نے اسپین میں جنم لیا۔
بوش کی طرح سلوڈور ڈالی کو بھی ایک ہنگامہ پرور زمانہ نصیب ہوا۔ کم عمری میں پہلی عالمی جنگ، انقلاب روس، عالمی وبا اور یورپ میں فسطائیت سے واسطہ پڑا۔ انیسویں صدی کی سائنسی رجائیت کے بالمقابل یہ عقل و خرد کی شکست کا منظر تھا جسے اس عہد کے تین بڑے فنکاروں کے ہاں دیکھا جا سکتا ہے، ایذرا پائونڈ، ٹی ایس ایلیٹ اور سلواڈور ڈالی۔ فلسفے میں برگساں اور تاریخ میں آسوالڈ سپینگلر عقل و خرد کی شکست کو فکری خدوخال بخش رہے تھے۔ ہمارے ہاں قدامت پسنددائیں بازو نے انہی فکری سرچشموں سے استفادہ کیا، تاہم وہ ایک الگ بحث ہے۔ ہمیں تو سلواڈور ڈالی کا ذکر کرنا ہے۔ ڈالی پیدائشی نراجیت پسند تھا۔ انحراف کی یہ رو بالآخر اسے ماورائے حقیقت پسندی (Surrealism)کی طرف لے گئی۔ ہم عصر خرد مخالف رجحان کے اتباع میں ڈالی بھی رجعت، لاشعور کی فسوں کاری اور سیاسی قدامت پسندی کا قائل تھا۔ ایک موقع پر کہا کہ ’’تمام رنگ دار قوموں کو غلام بنانا جائز ہے‘‘۔ تاریخ کا جبر دیکھئے کہ بادشاہت کے گن گانے والا سلواڈور ڈالی اسپین میں خانہ جنگی شروع ہوتے ہی فرانس چلا گیا۔ 1940 میں فرانس پر نازی جرمنی کا قبضہ ہوا تو امریکہ کی راہ لی۔ 1948 میں اسپین واپس آیا تو فرانکو آمریت کی حمایت اور کیتھولک عقیدے کی طرف واپسی کا اعلان کیا۔ 1975 میں فرانکو کی موت کے بعد بھی اسپین میں جمہوریت کی مخالفت کی۔ تاہم یہ اصول یاد رکھنا چاہئے کہ فنکار کی قدر پیمائی اس کے ہنر سے طے پاتی ہے۔ فنکار کی ذات کے واقعاتی حقائق ایک الگ دنیا ہیں۔ اس کے ہنر سے پھوٹنے والا معجزہ انسانیت کی اصل میراث ہے۔ 1931 میں ڈالی نے اپنا شاہکار ’’یادداشت کی ہٹ دھرمی‘‘ (The Persistence of Memory) تخلیق کیا۔ ڈالی نے لکھا ہے کہ اس کی بیوی اپنے دوستوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر چلی گئی۔ وہ گھر پر بیٹھا تھا کہ میز پر رکھے پنیر کے ٹکڑے پر نظر پڑی جو دھوپ کی تمازت میں پگھل رہا تھا۔ اس نے برش اٹھایا اور اگلے دو گھنٹوں میں یہ شاہکار تخلیق کر دیا۔ اس میں جیب میں رکھنے والی تیں گھڑیاں سیال کی صورت بدشکل ہو چکی ہیں۔ چوتھی گھڑی نے پگھلنے سے انکار کر دیا ہے اور اس پر چیونٹیاں حملہ آور ہیں۔ پس منظر میں سمندر کا ساکت ساحل ہے۔ شاہ بلوط کا ایک ٹنڈ منڈ درخت ہے۔ مصوری کے اس بظاہر سادہ نمونے میں تاریخ کا جبر، طاقت کا استبداد اور شعور انسانی کی شکست مجسم ہو گئی ہے۔
ہم نے دو مختلف زمانوں میں پیدا ہونے والے بوش اور ڈالی کا ذکر کیا مگر یہ سب کیوں یاد آیا۔ ہمارے ملک میں ایک ریاستی اہلکار کی تعیناتی نے قریب ایک برس سے 23 کروڑ عوام کو ادھ کٹی رسی سے معلق کر رکھا ہے۔ معیشت، بندوبست سرکار اور قوم کی سمت، ترے عہد میں دل زار کے سبھی اختیار چلے گئے۔ ہم سب خلا ئی تجربہ گاہ میں بے وزنی کے تجربے سے گزر رہے ہیں۔ ہماری رائے میں معنی ہے اور نہ کسی فیصلے میں ہمیں اختیار۔ سیاست دان، عدالت اور صحافت سب اپنا اعتبار کھو چکے ہیں۔ روزمرہ کا معمول اور حادثے کا تعطل ہمارے لئے اپنے امکان میں یکساں ہو چکے۔ میزان کے پلڑوں میں گیانی کی بشارت اور نجومی کی بدخبری کا اثر ایک جیسا ہے۔ ہم پر بے ریا خدائی کے بہت سے دور گزرے مگر افواہ کی طاقت اور خبر کی بے توقیری کا یہ عالم اس سے پہلے نہیں دیکھا۔ یہ ہوش کی شکست اور جنون کی نقب زنی کا موسم ہے۔
حکمراں نے کھینچ دی ہے کینوس پہ جو لکیر
سب سے کہہ دو اس کے اندر ہی اداکاری کریں