جنوبی وزیرستان: ’کالے شیشوں والی گاڑیاں کُھلے عام گھوم رہی ہیں، بھتے کی پرچیاں مل رہی ہیں‘
’ایک خوف ہے، کالے شیشوں والی گاڑیاں کھلے عام گھوم رہی ہیں، لوگوں کو بھتے کی پرچیاں مل رہی ہیں، اغوا کیا جا رہا ہے، تھانوں اور چوکیوں پر حملے ہو رہے ہیں ، پولیس کچھ نہیں کر پا رہی ایسے میں ہم احتجاج نہ کریں تو کیا کریں ہم اور کچھ نہیں چاہتے صرف امن چاہتے ہیں۔‘
جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا میں پختون امن پاسون نامی تنظیم کے احتجاجی مظاہروں میں شریک مقامی افراد کی جانب سے صرف ایک ہی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ انھیں خطے میں ’نا سڑک چاہیے نہ کچھ اور، صرف امن چاہیے وہ ہی کافی ہے۔‘
صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے سوات میں احتجاجی مظاہروں کے بعد یہ سلسلہ اب قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں شروع ہو گیا ہے جہاں ایک ہفتے کے دوران یہ دوسرا بڑا احتجاج وانا میں کیا گیا ہے۔
خیبرپختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں سینکڑوں افراد سڑکوں پر نکلے اور دہشت گردی کی حالیہ لہر کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور علاقے میں امن و امان بحال کرے۔
خطے میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال کی وجہ سے تجارت بری طرح متاثر ہوئی ہے اور مقامی افراد کا کہنا ہے کہ سرمایہ دار اور وہ لوگ جو علاقے میں ترقیاتی منصوبوں پر کام کر رہے تھے وہ یہ علاقہ چھوڑ کر دیگر شہروں کی جانب جا رہے ہیں۔
یہ احتجاجی مظاہرے وانا میں پختون امن پاسون نامی سیاسی اتحاد کے تحت کیے گئے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے مقامی رہنما شامل ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما ایاز وزیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس میں اب تک علما اور مقامی قبائلی رہنما شامل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ علما اور قبائلی رہنماؤں کا اجلاس بدھ کو ہو گا جس میں وہ اپنا لائحہ عمل اختیار کریں گے جس کے بعد 20 نومبر سے امن پاسون کے زیر انتظام بھر پور مہم شروع کی جائے گی۔
خطے میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال
یہ ذکر ہے نو نومبر کا جب رات تقریباً ایک بج کر 30 منٹ پر تھانہ راغزئی پر نامعلوم مسلح افراد نے حملہ کر دیا تھا۔ یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ تھانے میں موجود اہلکاروں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا لیکن مقامی افراد کے مطابق پولیس اہلکاروں نے جوابی فائرنگ تو کی لیکن اس میں شدت پسندوں کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔
ایسی اطلاعات ہیں کہ اس حملے میں دو پولیس اہلکار ہلاک جبکہ دو اہلکار زخمی ہوئے ہیں جس کے بعد شدت پسندوں نے اعلان کیا تھا کہ باقی اہلکار ہتھیار ڈال دیں یا مرنے کے لیے تیار رہیں جس کے بعد پولیس اہلکاروں نے مبینہ طور پر ہتھیار ڈال دیے تھے۔
اس حملے کے بعد کی ویڈیو بھی شدت پسندوں نے جاری کی ہے جس میں زخمی اور ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس حملے میں شدت پسند تھانے میں کھڑی ایک فیلڈر گاڑی اور سرکاری اسلحہ بھی ساتھ لے گئے تھے جس کی تصویریں بھی جاری کی گئی ہیں۔ تھانہ راغزئی وانا شہر سے 15 کلومیٹر دور انگور اڈا روڈ پر واقع ہے۔
ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ راغزئی تھانے کو بند کر دیا گیا تھا اور بعدازاں ایک اورعمارت کرائے پر لے کر اس کو وہاں منتقل کیا گیا۔ مقامی افراد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ اس حملے کے بعد تھانہ اعظم ورسک میں پولیس اہلکاروں میں بھی تشویش بڑھ گئی اور وہاں سے پولیس اہلکاروں کے تھانہ چھوڑ کر چلے جانے کی اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں لیکن بعدازاں یہ بتایا گیا کہ تھانہ اعظم ورسک کے لیے مزید اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔
سرکاری ذرائع نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 11 نومبر کو پولیس چیک پوسٹ ٹھٹھی ثمر باغ سے پولیس اہلکار چیک پوسٹ چھوڑ کر سٹی تھانہ وانا چلے گئے تھے۔ ان میں ایک سب انسپکٹر اور 15 پولیس اہلکار شامل تھے۔
اس کے بعد پولیس چیک پوسٹ خان کوٹ زرمیلن سے بھی ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ اہلکار چیک پوسٹ بند کر کے چلے گئے تھے۔
پولیس کا کیا موقف ہے؟
اس بارے میں پولیس حکام سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی جس کے بعد ضلعی پولیس افسرعتیق اللہ وزیر نے مختصر سا جواب دیا کہ ’وزیرستان میں کوئی تھانہ بند نہیں کیا گیا ہے سب تھانے کھلے ہیں۔‘ ان سے جب پوچھا کہ ان تھانوں اور چوکیوں میں اہلکار نہیں ہے اور وہ خالی ہیں تو انھوں نے اس کا جواب نہیں دیا۔
ریجنل پولیس افسر سلیم مروت نے چند روز پہلے ہی ڈیرہ اسماعیل خان ریجن کا چارج سنبھالا ہے انھوں نے بھی مختصر جواب میں کہا کہ ’حالات ٹھیک ہیں کوئی ایسی بات نہیں ہے۔‘
’حکومت لاعلم نہیں ہو سکتی‘
اس بارے میں بی بی سی نے وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا محمود خان اور انسپکٹر جنرل پولیس معظم جاہ انصاری سے رابطے کی کوشش کی اور انھیں متعدد پیغامات بھی بھیجے گئے لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے بی بی سی کو بتایا کہ صوبائی حکومت امن کے قیام کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے اور اس بارے میں چند روز پہلے ایک اعلٰی سطح کا اجلاس وزیر اعلیٰ کی صدارت میں منعقد ہوا تھا جس میں پولیس کی استعداد کار بڑھانے پر زور دیا گیا تھا۔
انھوں نے دہشت گردی کے خلاف پولیس کی تربیت اور ان کی کارکردگی بڑھانے کے لیے اقدامات پر زور دیا ہے۔
بیرسٹر محمد علی سیف سے جب پوچھا گیا کہ جنوبی وزیرستان میں پولیس پر مسلسل حملے ہو رہے ہیں وہاں تھانے بند کرنے کی اطلاعات ہیں تو اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس کا بہتر جواب پولیس حکام ہی دے سکتے ہیں۔
ان سے جب کہا گیا کہ جنوبی وزیرستان میں پاکستان تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے مقامی قائدین احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں اور ان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ امن قائم کیا جائے کیا اس بارے میں صوبائی حکومت آگاہ ہے تو ان کا کہنا تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حکومت لاعلم ہو بلکہ صوبائی حکومت اس بارے میں کوششیں کر رہی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ صوبے میں دہشت گردی کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ سے ایسے واقعات پھر سے پیش آ رہے ہیں لیکن اس سے سکیورٹی فورسز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکار اور حکام غافل نہیں ہیں بلکہ بھرپور کارروائیاں کر رہے ہیں تاکہ ایسے عناصر کا قلع قمع کیا جا سکے۔
’پولیس اہلکاروں کے پاس مقابلے کے لیے وسائل اور اختیارات نہیں‘
پولیس اہلکاروں کی جانب سے چیک پوسٹ یا تھانہ چھوڑ کر چلے جانے پر بات کرتے ہوئے اے این پی رہنما ایاز وزیر نے کہا کہ جنوبی وزیرستان کے پولیس اہلکار بہادر نوجوان ہیں لیکن ان کے پاس اختیارات اور سہولتیں نہیں ہیں جس وجہ سے یہ لوگ شرپسندوں کا مقابلہ نہیں کر پاتے اور ان کا انحصار پولیس افسران پر ہے۔
ایاز وزیر نے بی بی سی کو بتایا کہ صرف اگر تھانہ اعظم ورسک کی مثال لیں تو وہاں آئے روز حملے ہو رہے ہیں اور اب تک اس تھانے پر متعدد حملوں میں چھ اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں اسی طرح رغزئی تھانے پر حملے میں دو اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہو گئے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ علاقے سے طارق رضوان نامی ایک ٹھیکیدار کو اغوا کیا گیا ہے اور آج چھ روز بعد بھی اس کا علم نہیں ہے کہ وہ کہاں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو بھتے کے پیغامات مل رہے ہیں، وانا شہر میں کالے شیشے والی گاڑیاں کھل عام گھوم رہی ہیں کچھ معلوم نہیں ہے کہ ان گاڑیوں میں کون لوگ سوار ہیں ایسا لگتا ہے کہ وانا بازار میں کالے شیشے والی گاڑیوں کا راج ہے۔
ایاز وزیر کا کہنا ہے کہ علاقے کے ڈاکٹر، اساتذہ اور دیگر سرمایہ دار لوگ یہاں سے دوسرے علاقوں کو چلے گئے ہیں۔ اب لوگوں کو صحت اور تعلیم کا مسئلہ در پیش ہے۔ لوگ اب شام کے بعد گھروں سے نہیں نکلتے، وانا بازار جو رات 10 بجے تک کھلا رہتا تھا اب وہ چار بجے بند ہو جاتا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے مقامی رہنما امان اللہ خان نے بی بی سی کو بتایا کہ انگور اڈے پر پہلے اچھا کاروبار ہوتا تھا لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ لوگ کھانے پینے کر ترس رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ طارق ٹھیکیدار کو اغوا کیا گیا ہے لیکن اب تک انتظامیہ اور پولیس حکام انھیں بازیاب کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
مقامی افراد کیا کہتے ہیں؟
وزیرستان میں خوف پایا جاتا ہے مقامی افراد کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد جیلوں سے قیدیوں کی رہائی میں ایک بڑی تعداد ایسے شدت پسندوں کی تھی جن کا تعلق وزیرستان اور دیگر قریبی علاقوں سے تھا جو اب واپس اپنے علاقوں کی طرف آئے ہیں یا وہ افغانستان میں رہ کر پاکستان میں آکر کارروائیاں کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سوات کے علاقے میں مٹہ میں جس طرح شدت پسند آئے اور ان کی ویڈیو سامنے آگئی تھی اور ان کی موجودگی کا علم ہو گیا تھا اسی طرح پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی یہ شرپسند پہنچے ہیں۔
وزیرستان امن پاسون کے قائدین کا کہنا تھا کہ جیسے سوات میں احتجاجی مظاہروں کے بعد شدت پسند اس علاقے سے چلے گئے ہیں اس طرح ان کا بھی مطالبہ ہے کہ وزیرستان سے بھی ان کو نکالا جائے۔
’جب امن نہیں ہے تو تجارت کہاں ہو گی‘
جنوبی وزیرستان کے شہر وانا کے مرکزی بازار میں لگ بھگ 12000 دکانیں ہیں اور اس علاقے میں لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت ہے یا پاکستان افغانستان سے ملحقہ سرحد کے قریب انگور اڈا کے مقام پر تجارتی سرگرمیاں ہیں۔
وزیرستان چیمبر آف کامرس کے رہنما مقرب خان نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیرستان میں جاری احتجاج میں شامل سب کا مطالبہ امن کا قیام ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب انگور اڈا پر امن تھا تو 300 سے 400 گاڑیاں روزانہ کی بنیاد پر دونوں ممالک کے درمیان چلتی تھیں اور اب صورتحال یہ ہے کہ ان گاڑیوں کی تعداد کم ہو کر 20 سے 30 تک رہ گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث تاجر برادری یہاں سے نقل مکانی کر رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب امن ہی نہیں ہے تو تجارت کہاں ہو گی۔‘