منتخب تحریریں

ویل ڈن انکل سیربین

Share

ہر ذی نفس، خیال اور ادارے کی ایک طبعی عمر ہوتی ہے۔ کچھ حادثات میں ختم ہو جاتے ہیں اور کچھ ارتقا کے ہاتھوں معدوم ہو جاتے ہیں۔

گھڑ سوار قاصد کی جگہ ٹیلی گراف نے اور ڈھنڈورچی کی جگہ اخبار نے لی، اور پھر اخبار کا سوتیلا بھائی ریڈیو اور پھر ٹیلی ویژن پیدا ہوئے۔

ان میں سے شارٹ اور میڈیم ویو ریڈیو اب اپنی طبعی عمر پوری کر کے ڈیجیٹل پوتے پوتیاں چھوڑ کر رخصت ہو رہا ہے۔ ٹی وی کو انٹرنیٹ نے ایک کونے میں ڈال دیا اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز دیگر تمام اطلاعاتی میڈیمز کو اولڈ ایج ہومز میں پہنچا چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کی جگہ جلد یا بدیر کیا شے لے گی، اگلے 10 سے 15 برس میں پتا چل ہی جائے گا۔

اس تناظر میں جب میں اردو نشریات کے سرخیل ’سیربین‘ کے بارے میں سوچتا ہوں اور یہ سوچتا ہوں کہ 1968 سے سیربین کو کرہِ ارض کے دور دراز کونوں تک پہنچانے کی عادی ریڈیو کی صوتی لہریں یکم جنوری کو اسے نہ پا کر 51 برس سے پُر ہونے والے ایک مخصوص وقت کے خلا کو کیا سوچتے ہوئے بھریں گی؟

ویسے تو بی بی سی سے ہندوستانی سروس کے نام سے 10 منٹ کے خبرنامے کا آغاز 11 مئی 1940 کو جنگی پروپیگنڈے کی ضرورت کے تحت ہوا تھا، مگر اس کی افادیت کو دیکھتے ہوئے دوسری عالمی جنگ کے خاتمے اور پھر انڈیا کی تقسیم کے بعد بھی اس نشریے کو جاری رکھا گیا۔

بس اتنی تبدیلی آئی کہ سنہ 1949 میں اسے پاکستانی اور انڈین سروس کا نام دے دیا گیا اور پھر سنہ 1965 کی جنگ کے بعد اگلے برس پاکستانی سروس اردو سروس ہو گئی اور انڈین سروس ہندی سروس اور بنگالی زبان میں علیحدہ سے نشریات شروع ہوئیں۔

سنہ 1968 میں ایوب خان حکومت کے خلاف چلنے والی تحریک، مشرقی پاکستان میں بڑھتی ہوئی سیاسی بے چینی اور پاکستان میں ذرائع ابلاغ پر سرکاری کنٹرول کے ماحول نے حالاتِ حاضرہ کے 30 منٹ کے پروگرام سیربین کی پیدائش کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا۔

سیربین

سنہ 1970 کی انتخابی سرگرمیوں اور پھر سنہ 1971 کے طوفانی واقعات نے سیربین پاکستان کے ہر گھر میں ایک جانا پہچانا نام بن گیا۔

آنے والے برسوں میں یوں ہوا کہ پاکستان کے دور دراز علاقوں میں جب مسافر رات کو کھانا کھانے کے لیے کسی ڈھابے پر رکتے تو چٹائی پر ایک چھوٹا سا ٹرانزسٹر ریڈیو بھی رکھ دیا جاتا تاکہ مہمان سیربین سے محروم نہ رہ جائے۔

گھروں اور چوپالوں میں یہ پروگرام خانہ ساز تجزیہ کاروں کو اپنا ہنر دکھانے کے لیے ہر شب تازہ خبری خام مال فراہم کرتا۔

اور پھر سنہ 1977 آ گیا جب بھٹو حکومت کے خلاف پی این اے کی تحریک چلی۔ کہنے کو اس میں شامل نو جماعتوں کو نو ستارے کہا جاتا تھا لیکن اس تحریک کے دراصل گیارہ ستارے تھے۔ ایک نامہ نگار مارک ٹیلی اور دوسرے سیربین کے میزبان وقار احمد (مرحوم)۔

سنہ 1977 سے 1988 تک ضیا دور میں واحد خبری کھڑکی سیربین تھا۔ اگر یہ پروگرام نہ ہوتا تو شاید 1983 اور چھیاسی کی تحریکِ بحالیِ جمہوریت کو ضیا حکومت بہت اطمینان کے ساتھ سُرمہ بنا دیتی اور بیرونی دنیا کو کہیں بعد میں جا کے معلوم ہوتا کہ دراصل ہوا کیا تھا۔

سیربین نے سنہ 1971 کے بعد پاکستان کے اندر روزمرہ سیاسی رائے سازی میں جو اہم کردار ادا کیا اس کے سبب طرح طرح کا مزاج رکھنے والے سامعین کی تعداد میں بھی بے تحاشا اضافہ ہونا شروع ہوا۔ چنانچہ سیربین میں شاہین کلب، سائنس کلب، سب رس، کھیل کے میدان سے اور تجزیاتی پروگرام میزان کا بھی اضافہ ہوتا گیا۔ اور جرنیلی سڑک، کتب خانہ جیسی سیریز کسے بھول سکتی ہیں۔ ان سب آئیڈیاز کو جگہ دینے کے لیے نشریاتی دورانیہ بھی نصف گھنٹے سے بڑھ کر ایک گھنٹہ کرنا پڑا۔

ہاؤس
ندن کا بش ہاؤس جہاں سے کئی برس تک بی بی اردو سروس ریڈیو نشر کیا جاتا رہا

پھر صبح کی نشریات جہاں نما نے اپنا ایک حلقہِ سامعین پیدا کر لیا۔ اور جب سیربین بھی عوامی ضروریات کے مقابلے میں کم پڑ گیا تو شب نامہ بھی نشر ہونے لگا۔ سنہ 1998 میں ایک دور یہ آیا کہ لنچ ٹائم بلیٹن نیم روز سمیت اردو سروس کی لندن سے ایک دن میں چار نشریات ہوتی تھیں۔

اور پھر جیسا کہ ہوتا ہے، دور بدلا، نسل بدلی اور ٹیکنالوجی نے نئے ٹولز اور میڈیم عام کرنے شروع کیے۔ انٹرنیٹ نے تیزی سے فروغ پایا تو اس کے بطن سے بی بی سی اردو ویب سائٹ بھی پیدا ہوئی اور پھر ریڈیو اور ٹی وی بھی ڈیجیٹلاتے چلے گئے۔ ایف ایم نشریات کا زور ہوا ۔شارٹ ویوز اور میڈیم ویوز قصہِ پارینہ کے دھندلکوں میں گم ہوتی چلی گئیں۔

انڈیا اور پاکستان میں میڈیا کے پھیلاؤ نے سامعین و ناظرین کے رجہانات کو تبدیل کیا۔ سیربین جیسے پروگرام کی عادی نسل کی جگہ پوسٹ سیربین نسل لیتی چلی گئی۔ لہذا منطقی انجام یہی ہونا تھا کہ ایک سورج غروب ہو تو اس کی جگہ نیا سورج لے سکے۔

مجھے فخر ہے کہ جس سیربین نے ذوالفقار علی بخاری، بلراج ساہنی، وقار احمد، اطہر علی، یاور عباس، راشد اشرف، رضا علی عابدی، سارہ نقوی، آصف جیلانی، عارف وقار، شاہد ملک، ماہ پارہ صفدر، شفیع نقی جامعی، عبید صدیقی، سدھو بھائی، راشد الغفور، علی احمد خان اور محمد غیور سمیت بییسوں نام نسل در نسل گھر گھر پہنچائے۔ اس جھمگٹے میں کہیں میں بھی کسی چوتھی پانچویں رو میں کچھ عرصے کھڑا رہا۔ کیا یہ یاد سرمایہ باقی زندگی گزارنے کے لیے کچھ کم ہے؟

یہی سب کچھ تھا جس دم وہ یہاں تھا

چلے جانے پے اس کے جانے کیا نئیں ( جون ایلیا )