غزل
“نازیہ انور”
ہر اندھیرے کو اب تو بنا روشنی
پھر بنے گی تری ہمنوا روشنی
زندگی کے حوادث کی دھن خود بنا
اور ہر ساز میں پھر ملا روشنی
مشکلوں کو ذرا اور مشکل بنا
ہر اندھیرے کی ہے انتہا روشنی
زخم پر مسکرا زخم کے راستے
ہو گی اندر ترے بے بہا روشنی
پاپیادہ کیا طے سفر رات بھر
اور بنتی گئ رہنما روشنی
داستانِ شب ہجر متروک کر
شعر کا استعارہ بنا روشنی
جب اندھیروں میں ہم نے پکارا اسے
ہم کو آئی نظر جا بجا روشنی
پھر تو سارے تخاطب ہی مدھم ہوئے
تم نے جس دن سے ہم کو کہا روشنی
میرے شعروں میں شامل ہوئی تو بنی
تیری آواز خوشبو، وفا روشنی
اس کے ہمراہ چلتے ہوئے نازیہ
ہم کو ہر اک اندھیرا لگا روشنی
آپ کی نازیہ نے ہر اک شعر میں
آپکی چاہتوں کو لکھا روشنی