آئی ایم ایف معاہدے کیلئے سخت فیصلے ناگزیر، حکومت ہچکچاہٹ کا شکار
وفاقی حکومت کو عام انتخابات سے قبل مقبولیت میں کمی کا خدشہ ہے جو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کو حتمی شکل دینے میں تاخیر کا سبب بن رہا ہے، اگر اس پروگرام کو حتمی شکل دی جاتی ہے تو ملکی معیشت میں استحکام آسکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سرکاری اور سفارتی عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان ابھی تک ان 7 مطالبات پر بات چیت جاری ہے، آئی ایم ایف معاشی بحالی کے لیے مالی مدد کرنے سے پہلے چاہتا ہے کہ پاکستان ان شرائط پر عمل کرے۔
ان مطالبات میں بجلی پر سبسڈی واپس لینا، گیس کی قیمتوں میں اضافہ، لیٹر آف کریڈٹ کو بلاک نہ کرنا شامل ہے۔
عہدیدار کا کہنا ہے کہ حکومت کو خدشہ ہے کہ ان مطالبات پر عمل کرکے ضروری اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوجائے گا، انتخابات سے قبل اس حکومت کی مقبولیت میں بھی کمی ہوجائے گی۔
پاکستان پاور ریگولیٹر نے سوئی ناردرن گیس پائپ لائن لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) اور سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) کو پہلے ہی گیس کی قیمتیں 75 فیصد بڑھانے کی منظوری دے دی ہے، یہ منظوری وفاقی کابینہ کی جانب سے دی گئی تھی۔
دوسری جانب وفاقی حکومت قرض پروگرام کے نویں جائزے کا انتظار کر رہی ہے، جو پچھلی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے تھے، اس سے پاکستان کو فنڈز کی اگلی قسط جاری ہوگی جو ستمبر 2022 سے زیر التوا ہے۔
اگست 2022 میں آئی ایم ایف نے بیل آؤٹ پروگرام کے ساتویں اور آٹھویں جائزے کی منظوری دی تھی جس سے تحت پاکستان کو ایک ارب 10 کروڑ ڈالر سے زائد ملے تھے، اس پروگرام کے معاہدے پر 2019 میں دستخط ہوئے تھے۔
آئی ایم ایف عہدیدار نے پاکستان کے ساتھ کام جاری رکھنے کا اشارہ دیا ہے لیکن ملک کو پہلے بنیادی شرائط پوری کرنی ہے۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والے بات چیت سے باخبر عہدیدار نے بتایا کہ ’آئی ایم ایف بنیادی شرائط پوری کرنے کا مطالبہ کررہا ہے تاکہ وہ اپنی ٹیم پاکستان بھیج سکے لیکن وزیرخزانہ ایسا نہیں چاہتے۔
عہدیدار نے مزید بتایا کہ آئی ایم ایف توانائی کی قیمتوں میں اضافہ چاہتا ہے اور ان اصلاحات پر عمل کرنے کو یقینی بنانے کا مطالبہ کررہا ہے لیکن وزیرخزانہ اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹ رہی۔
ایک اور عہدیدار نے بتایا کہ اسلام آباد میں موجود حکام نے وزیراعظم شہباز شریف پر زور دیا ہے کہ وہ مداخلت کریں اس سے پہلے کہ زیادہ دیر ہوجائے، عہدیدار نے بتایا کہ اس پروگرام کو 4 ماہ پہلے حتمی شکل دی جاسکتی تھی۔
عہدیدار نے بتایا کہ وہ نگران حکومت سے ذاتی طور پر زیادہ توقع نہیں رکھتے کیونکہ اسحٰق ڈار شرح مبادلہ کو مارکیٹ کی سطح پر نہیں جانے دیں گے۔
اور اگر ہمارے پاس آئی ایم ایف پروگرام نہیں ہوگا صورتحال معمول پر نہیں آسکتی۔
اسلام آبادکے ایک اور عہدیدار نے بتایا کہ اگر پاکستان نگران حکومت کے آنے کا انتظار کرتا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کرے، تو یہ پاکستان کے لیے تباہ کن ہوگا۔