سردی کا بھوت!
مجھے لگتا ہے لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، کئی دنوں سےسردی کو سمجھا رہا ہوں کہ تم نے جتنی بدمعاشی دکھانی تھی دکھا بیٹھی ہو، اب بندے کی پتر بن جائو، اندازہ لگائیں اس مرتبہ سردی کے حوصلے کتنے بلند ہیں کہ کراچی والوں کے بھی منہ لگ رہی ہے ۔یہ بھلے مانس لوگ ٹمپریچر بیس میں بھی لوہے کی پیٹیوں میں سے لحاف نکال لیتے ہیں اور گھر سے نکلتے ہوئے سر، کان اور چہرہ اس طرح لپیٹ کر نکلتے ہیں کہ شیطانی ذہن ان کے اس حلیےسے دل ہی دل میں کتنی کہانیاں گھڑ لیتا ہے۔ باقی رہے ہمارے برفانی علاقے تو وہ اپنے گھروں کو اکثر خوب گرم کرکے ہی بیٹھے ہوں، ہمیں ان کے حصے کی سردی لاہور میں بیٹھ کر ہی محسوس ہوتی ہے۔
اور اب لاہور کی بھی سن لیں، گرمی نے برا حال کیا ہوا تھا اور لاہور والے آسمان کی طرف دیکھتے اور فریاد کرتے تھے کہ سورج آپے سے باہر ہو رہا ہے، اسے لگام دیں، بالآخر سنی گئی مگر ایسی سنی گئی کہ سورج غائب ہی ہو گیا اور اس کی جگہ کہر نے لے لی، ان دنوں لوگ ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں تو کپکپاہٹ کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی گفتگو سے جو مطلب نکالنا چاہیں نکال سکتے ہیں چنانچہ اس غلط شنوائی کےنتیجے میں گتھم گھتا ہونے کے بھی کچھ دلدوز واقعات ظہور پذیر ہو چکے ہیں، کل میں نے ایک دوست کو فون کیا ،فون کیا کیا، کپکپاہٹ کے عالم میں خود مجھے اپنی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی مگر اس بدگمان کو میری پوری بات سمجھ آ گئی اور وہ پرچہ کرانے تھانے پہنچ گیا۔
میں نے لاہور کی بہت سردیاں برداشت کی ہیں اور کبھی گلہ نہیں کیا، میں نے اس دفعہ بھی ایسی کوئی گستاخی نہیں کی مگر دونوں ہاتھ اگر جیب سے باہر ہوں تو دونوں ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں تم کہاں ہو، اسی اثنا میں ایک ہاتھ پتلون یا کوٹ کی جیب میں چلا جاتا ہے اور آواز دیتا ہے ’’میں جیب میں ہوں، اگر کوئی دوسری جیب ہے تو تم بھی اس میں پناہ لے لو‘‘۔جسم کے باقی جلی اور خفی اعضا کا بھی یہی حال ہے کہ انہیں تلاش کرنا پڑتا ہے، سردی بہت زیادہ ہو تو ان اعضا کی گمشدگی کا خوف دامن گیر ہو جاتا ہے، اوپر سے محکمۂ موسمیات والے ہیں، آگے پیچھے ان کی پیشگوئی کم کم صحیح ثابت ہوتی ہے مگر ان دنوں اس محکمے کے صاحبانِ کرامت کے ہاتھوں پر بیعت کرنے کو جی چاہتا ہے، یہ پیشگوئی 6ڈگری کی کرتے ہیں اور ٹمپریچر چار ڈگری ظاہر ہوتا ہے ۔
ایک دن یوں ہوا کہ سورج بار بار نکلنے کی کوشش کرتا مگر ہر بار منہ کی کھا کر بادلوں میں چھپ جاتا مگر اللہ کے کام ہیں، ایک دن سورج اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو گیا، کامیاب کیا ہوا پورے جلال کے ساتھ فضائوں میں بلند ہوا، یار لوگوں نےگرم کپڑے اتار دیئے اور سیر گاہوں میں جانگئے نما چیزیں پہن کر دندناتے نظر آئے مگر کچھ ہی دیر بعد سورج کا موڈ بدل گیا اور وہ سردی کے پاس پناہ لینے چلا گیا اور یہ سب پھنے خاںبھی پناہ گاہوں کی طرف دوڑ لگاتے نظر آئے، ان دنوں سب سے زیادہ ’’بیستی ‘‘ لیسکو والوں کی ہوئی، بجلی آتی تھی، بجلی جاتی تھی، کمروں میں ہیٹر جلتے تھے، پھر بجھ جاتے تھے، دو دن قبل تو بجلی پورے چوبیس گھنٹے بند رہی، اس کے نتیجے میں میں نے بہت معزز لوگوں کی زبانی بہت مرقع زبان میں لیسکو کی شان میں قصیدے سنے اور عوام الناس کی زبان سے کچھ نئے الفاظ سننے کو ملے، یہ الفاظ متعلقہ افسروں تک پہنچ جاتے تو ان میں سے جو عزت دار ہوتے وہ اپنی ملازمت پرسات حرف بھیجتے اور جنگلوں کی طرف نکل جاتے۔
چلئے صاحب ہمیں اطمینان رکھنا چاہئے کہ ان دنوں ہر طرف ونٹر سیل لگی ہوئی ہے جس کا مطلب ہے کہ جی کا جاناٹھہر گیا ہے، صبح گیا یا شام گیا ۔
پیشگی مبارک اور اس کے ساتھ پیشگی معذرت بھی کہ دکانوں پر سے گرم ملبوسات دھڑا دھڑ فروخت ہو رہے ہیں، اگر کپڑے بھی ختم ہو گئے اور سردی کے زور وشور میں بھی کمی نہ آئی تو خدارا مجھے بُرابھلا نہ کہیں، یہ اللّٰہ کے کام ہیں اور اللّٰہ کے کاموں میں کوئی دخل دے سکتا ہے؟