گردِ سفر کے خالق فہیم اخترکا سفر نامہ
” محمد حسن”
کہا جاتا ہے کہ اگر آپ ماضی کو بالائے طاق رکھ کر سفر کا آغاز کرتے ہیں تو آپ کا سفر پُر سکون ، آرام دہ اور آسان ہو گا بلکہ منزل کی حصولی میں کامیابی بھی۔ اسی طرح اگر سفر کے حوالے سےدانشوروں کے تبصرہ پر غور کرے توسٹیون ایچی سن جوبرطانیہ کے اعلیٰ بلاگروں میں سے ایک ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف بھی، سفر کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ “آپ کو ہمیشہ زندگی میں اپنے سفر کو سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس یقین رکھیں کہ آپ صحیح سمت میں جا رہے ہیں۔”
برطانیہ کے لندن میں مقیم اردو ادب میں تنوع کردار کے حامل فہیم اختر جو یکساں طور پر شاعر،افسانہ نگار، مضمون نگار اوردنیا کے دیگر اردو اخباروں کے ایک مستقل کالم نگارہیں سےابھی کچھ دوسال قبل میری ملاقات فون پر ہوئی۔ کلکتہ کے بھیرب گنگولی کالج میں شعبئہ اردوکے پروفیسر طیب نعمانی نےان سےمیری ملاقات کروائی۔میری خوش بختی ہے کہ طیب نعمانی جیسے اردو اسکالر کے ساتھ میرے گہرے مراسم ہیں۔ پھر انکے ذریعہ دنیا کے مختلف ادبی شخصیتوں کے ساتھ ملاقات میرے لئےباعث فخر ہے۔ فہیم بھائی سے ملاقات کے بعد وقتاً فوقتاًفون پران سے اردو ادب کے حوالے سے گفتگوہوتی رہی۔ دوستی میں اعتماد و اعتبار کی جڑ مضبوط ہوئی تو پھرہم دونوں ادب کے ساتھ ساتھ سماج، سیاست اور نجی امور پر بھی گفتگو کرتے رہے۔
فہیم اختر یوں تو بہت ساری تنظیموں کے ساتھ جڑے ہیں لیکن انہوں نے اردو ادب کی خدمت کے لئے اپنےآنجہانی والد صوفی جمیل اختر کے نام سےمنسوب شہرِ نشاط میں ایک تنظیم قائم کی اور اس تنظیم کے ذریعہ بہت ساری ادبی خدمات انجام دئیے جارہے ہیں۔ میری تنظیمی صلاحیت کو سراہتے ہوئےانہوں نے مجھے اس تنظیم کی رکنیت کی پیش کش کی تو میں نے بھی اسے قبول کیا اوراس طرح فون پر تقریباً ہر روزان سے ملاقات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
کورونا جوکہ ایک عالمی وبا ہے نے پوری دنیا کی نظام زندگی کو مفلوج کردیا۔لوگوں کو گھروں سے کام کر نے کا عادی بنایا اور سیر و تفریح نیز لوگوں سے مادی طور پر ملنے ملانے کا سلسلہ ختم کردیا ۔ایک اطلاع کے مطابق پوری دنیا کے سیر و تفریح اور اس سے منسلک شعبے کو کروڑوں ڈالرز کے نقصان کا سامنا کرناپڑا۔ اسی تناظر میں فہیم اختر کوجنہیں ادب کے ساتھ ساتھ سیر و تفریخ کا شوق بھی ہے اپنے ہی شہر یعنی لندن میں محصور ہو کر رہنا پڑ ا۔ اس لئے کہ آئے دن کورونا کے حوالے سے نئی نئی پابندیاں اور نئے نئے طریقہ کار سے پوری دنیا کے لوگ سہمے نظر آئے ۔کچھ ایسی ہی کفیت فہیم صاحب کی بھی تھی۔
کورونا کی حالات قدر بہتر ہونے کے بعد جب آمد و رفت میں بہتری ہوئی اور اسی دوران فہیم اختر جو کہ لندن رائیل ہسپتال فار نیورو ڈس ابیلیٹی میں رجسٹرڈسوشل ور کرکی حیثیت سے بر سرِ روزگار ہیں کو دفتر کی طرف سے سالانہ چھٹیاں انجوائےکرنے کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے اس بات کا ذکر مجھ سے کیا۔ میں نے برجستہ انہیں اپنے غریب خانے میں دعوت دی اور کہا چونکہ ایمسٹرڈیم سیاحوں کےلئے ایک پر کشش سمت ہے تو وہ اپنی چھٹیاں اسی شہر میں گذاریں تاکہ ان سے میری دو بدو ملاقات بھی ہو۔ انہوں نے میری دعوت کوقبول کرتےہوئے ایمسٹرڈیم تشریف لے آئے۔
ایک خندہ پیشانی اور سادہ کردار کےحامل فہیم اختر بہت سارے تحفے تحائف کے ساتھ میرے یہاں پہنچے۔ ان تحائف میں سب سے انمول تحفہ ان کی کتاب گردِ سفر ہے۔ دیارِ غیر میں غالباً میرے پاس یہ پہلی اردو کتاب ہے جو وہ میرے لئے لندن سے لائے۔ گردِ ِ سفر کی ورق گردانی کے بعد اس کتاب پر اپنی تاثرات بیان کرنے کی سعی کی تاکہ قارئین کو گرد ِسفر کے پس منظر سے آگاہی ہو۔
فہیم اختر بھارت کے صوبہ مغربی بنگال کے شہر کلکتہ میں پیدا ہوئے جسے آج ہم کولکاتا کے نام سے جانتے ہیں۔ان کا تعلق ایک کشادہ اور خوشحال خاندان سے ہے لیکن بچپن میں ہی انہیں ایک بڑےسانحہ سے گذرنا پڑا ۔ جب ان کی عمر صرف نو سال کی تھی تو ان کے والداس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ بارہ بھائی بہنوں پر مشتمل خاندان میں ان کی والدہ اور بڑے بھائی نے خاندان کی باگ ڈور سنبھالی لیکن ایک سرپرست کی فقدان انہیں ہمیشہ ستائے رکھا۔ اگر ان کے والد زندہ ہوتے تو فہیم اختر شائد ڈاکٹر یا انجنیر کی ڈگری حاصل کرتے اور پھر ان ہی میں کسی شعبے سے وابستہ ہوتے لیکن ثانوی اور اعلیٰ ثانوی امتحانات پاس کرنے کے بعدان کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں تھا ۔ اس لئے انہوں نے خود ہی فیصلہ کیاکہ مولانا آزادکالج سے اردو میں بی اے کی ڈگری حاصل کی جائے۔بعد ازاں کلکتہ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی ۔اسی طرح طالب علمی کے زمانے سے ہی ان کا رجحان ادب کی طرف مائل ہوگیا اور ایک ڈاکٹر یا انجنیر نہیں بلکہ اردو ادب کی خدمات کے لئےخود کو وقف کردیا۔میں اس بات پر اس لئے زورعائد کرنا چاہتا ہوں تاکہ قارئین اس بات سے باخبر رہیں کہ فہیم اختر کی سرپرستی میں صوفی جمیل اخترلیٹریری سوسائٹی تقریباً ۱۶برسوں سے اردو ادب میں سنجیدگی کے ساتھ مسلسل خدمات انجام دینے والے ادبی شخصیات کی حوصلہ افزائی بلکہ ادب میں ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں اپنی تنظیم کی جانب سےسالانہ صوفی جمیل اخترمیموریل ایوارڈسے نوازتی آرہی ہیں ۔ اس ایوارڈ کا مقصد ادیبوں، شاعروں اورمحقق و مصنفوں کی حوصلہ افزائی ہے تاکہ اردوکے اِن جیالوں کی طرف سے ادب کومزید فروغ ملے۔ اس طرح شائد قسمت نے ان کے بچپن کی خواب میں لچک پیدا کیا اور ایک ڈاکٹر یاانجنیر کی حیثیت سے انسانی خدمات کے برعکس ایک ادیب و شاعر کی حیثیت سے انسانی و ادبی خدمات کو ترجیح دینے کے لئے اردوکی جانب ان کارخ موڑ دیا۔
ویسے توفہیم اختر اندرونِ ملک سفر کرتے رہےہیں لیکن تلاشِ معاش کی وجہ سے انہیں ایک بڑا فیصلہ کرناپڑا اور۱۹۹۳ میں وہ بھارت کو الوداع کہتے ہوئے لندن پہنچے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ لندن میں آنے کے بعد دیارِ غیر میں اپنی پہچان بنانے کے لئے اپنا رشتہ تعلیم سے جوڑے رکھا۔ انہوں نے لندن اوپن یونیورسٹی اور کنگسٹن یونیورسٹی سے شوسل ورک کی ڈ گریاں حاصل کیں نیز اس شعبے میں ہی برسرِروزگار ہیں۔سماجی خدمات کے اعتراف میں انہیں برطانیہ کا شہری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ انہوں نے یہ ایوارڈ برطانیہ کی آنجہانی ملکہ ایلیزابیتھ دوئم سے حاصل کیا ۔ ایک بھارتی ہونےکے ناطے ان کے لئے یہ ایک بڑے اعزاز کی بات تھی۔واضح رہے کہ فہیم
اختر ایک بھارتی نژاد برطانیوی شہری ہیں۔
ان تمام مصروفیات کے باوجود انہوں نے اپنا رشتہ اردو سے نہیں توڑا اوراسی دوران کئی اصناف میں اہم تخلیقات پیش کیں۔ ان میں۲۰۱۵ میں ایک گریزاں لمحہ (افسانوں کا مجموعہ)، ۲۰۱۸ میں لندن کی ڈائری (کالم کامجموعہ )، ۲۰۱۹میں فہیم اختر مقصد و حیات اور فہیم اختر کے افسانے، ۲۰۲۱میں دائرہ مکمل ہوتا ہے (رضا علی عابدی کی تحریروں کا انتخاب) شائع ہوئیں بلکہ درجنوں کتابیں زیورِ طباعت سے آراستہ ہورہی ہیں
گردِ سفر۲۰۲۱ میں شائع ہوئی۔معنوی اعتبار سے یہ ایک سفر نامہ ہے لیکن یہ کتاب صرف ملکوں میں سیر و سیاحت، کھانے پینے یا ماحول و منظر نامے تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کتاب میں اردو کے حوالے سے دنیاکے مختلف خطے میں جاری سرگرمیوں سے بھی قارئین استفادہ کر سکتے ہیں۔جس کی وجہ سے یہ کتاب دوسرے دیگر سفر ناموں سے منفرد ہے ۔ اس سفر نامہ میں بیشتر سفرکا ذکر اردو ادب کے حوالے سے ہے ان میں مختلف ملکوں میں منعقدہ ادبی و ثقافتی تقریبات کا بیان موجود ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کتاب میں آپ کو اردو ادب کی ایسی غیر معمولی اطلاعات ملیں گی جس سے قارئین حیرت زدہ ہوجائینگے۔ اس کتاب میں یورپ کا ملک جرمن کے شہر برلن میں اردو ادب کے حوالے سے سرگرمیاں سمیت لندن، مصر، ترکی اور بنگلہ دیش جیسے دیارِ غیر میں اردو کی آبیاری سے متعلق تفصیلی معلومات موجود ہیں۔ جس سے داغ دہلوی کا اس شعرکےسچ ہونے کی تصدیق بھی ہوتی ہے کہ:
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
مصنف نے بہت ہی باریک بینی سے علمی، ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے بارے میں اردو کے ان مداحوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ اردو کا پرچار ساری دنیا میں جاری و ساری ہے۔جنہیں اردو زبان کے مٹ جانے کا غم افسردہ کئے ہوئے ہے ان کے لئے یہ کتاب رہنمائی کا کام کر سکتی ہےکہ کس طرح اردو زبان سے نابلد اِس زبان کی آبیاری میں ہمہ تن کوشاں ہیں۔مارچ ۲۰۲۲میں بھارت کے معروف و مشہور شاعر و ادیب حسن کمال کو۱۵ واں سالانہ صوفی جمیل اخترمیموریل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس ایوارڈ کو حاصل کرتے ہوئے حسن کمال نے اپنے اظہارِ خیال میں کہا تھا کہ “اردومیرا دینِ ثانی ہے”۔ ان کی اس بات کی تصدیق بھی اس کتاب میں موجود ہے کہ لوگ کس طرح اس زبان کے پرچار میں جڑے ہیں ۔
اس کتاب کی ترتیب و تدوین کی ذمہ داری ممبئی میں مقیم شاعر، صحافی و پبلیشر امتیاز گھورکپوری نے نبھائی نیز انہوں نے پیشِ لفظ بھی قلم بند کئے۔جرمنی میں مقیم مشہور و معمر ادیب و شاعر عارف نقوی اس کتاب کے لئے ایک مضمون باعنوان “گردِ سفر کہوں یا آنکھ کا سُرمہ”میں فہیم صاحب کی تحریروں کی کامیابیوں کا راز بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ”فہیم اختر ہمہ وقت جاننے اور سیکھنے کی چاہ رکھتے ہیں کیونکہ فہیم صاحب اپنی گفتگو اور تحریر وں میں یکساں طور پر اس الفاظ کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں ۔ ان چیز وں کے اعتراف میں انہوں نے کبھی بھی بخالت کاسہارا نہیں لیاجوکہ ایک ادیب یا لکھاری کو کامیابیوں کی سمت لے جاتا ہے”۔ترکی کے سلجوق یونیورسٹی کے پروفیسرڈاکٹر خاقان قیومچی نے “گردِ سفر: فہیم اختر کے ادبی و ثقافتی سفر نامے” کےعنوان سے ایک مضمون تحریر کئے جو اس کتاب میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ جرمنی میں مقیم ادبی شخصیت سید انور ظہیر رہبر نے”سفر نامے کے سفر پر”، عین شمس یونیورسٹی، قاہرہ ،مصر کی مدرس ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی نے “نئے سفر کے لذتوں سے جسم و جاں کو سر کرو” ، ایران کی رسرچ اسکالر زینب سعیدی نے”گردِ سفر” اور دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد کاظم نے”سفر کے گرد کو محفوظ رکھنے والے : فہیم اختر”کے عنوان سے مضامین کے ذریعہ اس کتاب پر اپنی اپنی گراں قدر رائے کا اظہار کیا۔کتاب کے بیک کوور پرروس، ماسکو کی مصنفہ ڈاکٹر لدمیلا وسیلیوانے بھی مصنف اور ان کے سفرنامے پر فراخ دلی سے تبصرہ کیا ہے۔ لدمیلا نے فہیم صاحب کی کامیابیوں کے رازکاذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ”زندگی میں نظم و ضبط کے ساتھ ساتھ وقت کی پابندی “نے فہیم اختر کو دن دوگنی، رات چوگنی ترقی عطا کی۔واضح رہے کہ ان تمام قلم کاروں کے ساتھ مصنف فہیم اختر کی نجی ملاقات رہیں ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ فہیم اخترنے سفرکابھی احاطہ کیا ہے۔ جس کی وجہ ے سبھوں نے فہیم صاحب کو قریب سے دیکھا ہےاور ان لوگوں نے فہیم صاحب کی قوت اظہار کو بہت ہی بینی سے اپنے اپنےمضمون میں سراہا ہے۔ یہ سفر نامہ ۱۶۴صفحات پر مشتمل ہے۔ اس سفر نامہ کو کتاب پبلی کیشنز، ممبئی، بھارت نے شائع کیا۔
مجھے امید ہے کہ قارئین تک اس کتاب کی رسائی ہوگی اور وہ دنیائے اردو ادب میں ہونے والی سرگرمیوں سے مستفیض ہونگے۔ میں اس کتاب کی وصیع تشہیر کےلئے اپنے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔