گو شہ خاص

عدل کے ایوان اور عوام کی چوپال

Share

عدالتی فیصلے جب عدل کے ایوانوں سے نکل کر کھیتوں، کھلیانوں اور چوپالوں کا موضوع بنتے ہیں تو غریب و سادہ ومعصوم عوام، ریشمی عبائیں پہننے، کورٹ روم میں بیٹھنے اور کوئی مخصوص بینچ تشکیل دئیے بغیر، عدالتی فیصلے کا جائزہ لیتے اور اپنا دوٹوک فیصلہ صادر کردیتے ہیں۔ یہ فیصلہ کسی پی ایل ڈی کا حصہ تو نہیں بنتا البتہ لوحِ تاریخ پر رقم ہوجاتا ہے۔

جسٹس منیر کے ’ ’نظریہ ضرورت‘‘ کی کند چھری سے ذبح ہونے والی اسمبلی کا نوحہ آج تک جاری ہے۔ چار تین کی اکثریت سے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھادیاگیا۔ گویا عملاً صرف ایک جج نے تاریخ کے سینے میں فولادی میخ ٹھونک دی۔

مشرف دور کے بیشتر عدالتی فیصلے بے گوروکفن لاشوں کی طرح سرد خانوں کا رزق ہوگئے۔یوسف رضاگیلانی توہین عدلیہ کے مرتکب ٹھہرے اور وزیراعظم ہائوس سے نکال دئیے گئے۔ نظرثانی کی کسی رسمی اپیل کے بغیر ہی عوامی عدالت نے یہ سب فیصلے ردّ کردیے۔

نام نہاد پانامہ لیکس، رسوائے زمانہ جے آئی ٹی، وٹس ایپ کالز، ہیروں کی تلاش، دو، تین اور پانچ رکنی بینچ، ریفرنس دائر کرنے کا فرمان، احتساب عدالت کی نگرانی، جج کے کمرے سے نکلتا مُنہ چھپاتا اہلکار، سرینا کا شاپر، جج ارشد ملک کی اعترافی وڈیو، جسٹس شوکت صدیقی کو ترغیب اور دھونس، دو سال کی محنت کی دُہائی اور اِس ساری طلسمِ ہوش ربا کی زنبیل سے نکلا فیصلہ۔’’چونکہ تم نے اپنے بیٹے کی ایک تحلیل شدہ کمپنی سے خیالی تنخواہ نہیں لی اس لئے عمر بھر کے لئے نااہل ہو۔ وزیراعظم ہائوس سے نکل جائو۔‘‘ عدل کے چہرے کا بدنما داغ بن جانے والا یہ فیصلہ آج بھی منہ چھپائے پھرتا ہے۔ لیکن اس فیصلے نے جسدِ سیاست میں سرطان کے جو بیج بونا تھے بوگیا۔

معیشت جاں بہ لب ہے۔ آئی ایم ایف ہمیں بیلن میں گنے کی طرح پیل رہا ہے۔ من حیث القوم ہمیں جان کے لالے پڑے ہیں۔ کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ کل کا سورج ہمارے لئے کیا پیغام لے کر طلوع ہوگا۔28جولائی 2017کو، فیصلہ صادر ہونے سے پہلے تو یہ عالم نہ تھا۔

 معاشی ترقی کی شرحِ نمو چھ فی صد سے اوپر تھی۔ زرمبادلہ کے ذخائر خطرے کی حد سے باہر تھے۔ مہنگائی کی شرح جو آج پینتیس فی صد کو چھو رہی ہے، چار فی صد کے لگ بھگ تھی۔ اسٹاک ایکسچینج نئے ریکارڈ قائم کررہا تھا۔ توانائی کے بحران پر قابو پایا جاچکا تھا۔

دہشت گردی کے عفریت کو نکیل ڈل چکی تھی۔ ستر سالہ قومی تاریخ کے بائیس آئی ایم ایف پروگراموں میں سے واحد پروگرام کامیابی کے ساتھ پایۂِ تکمیل کو پہنچ چکا تھا۔ عالمی ادارے پاکستان کے حوالے سے مثبت اشارے دے رہے تھے۔ محض بُغضِ نواز اور حُبّ خان میں سب کچھ تلپٹ کردیاگیا۔

فیصلے ہوجاتے ہیں۔ تنقید اور اعتراضات کے باوجود تسلیم بھی کرلئے جاتے ہیں۔ ان پر عمل درآمد بھی ہوجاتا ہے۔ لیکن ان فیصلوں کے اثرات، شدید زلزلے کے بعد آنے والے ارتعاشِ مابعد (After Shocks) کی طرح دیر تک جاری رہتے ہیں۔ موجودہ سیاسی افراتفری اور انتشار کا سرچشمہ بھی ایک فیصلہ ہی ہے۔ مارچ 2022 میں عمران خان کے حکم پر صدر عارف علوی نے عدالت عظمیٰ میں ایک ریفرنس داغا جس میں پوچھا گیا پارٹی ہدایات کے منافی ووٹ دینے والے ارکان کے ووٹ شمار کئے جائیں گے یا نہیں؟

اس نہایت اہم سوال کے لئے فل کورٹ کے بجائے چیف جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل پانچ رُکنی بینچ تشکیل پایا۔ 17مئی 2022کو دو کے مقابلے میں تین ججوں (جسٹس عمرعطا بندیال،جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر) نے قرار دیا کہ ووٹ نہیں شمار ہوں گے۔

 جسٹس مظہر عالم خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں قرار دیا کہ ’’یہ آئین کی تعبیر نہیں،آئین کو ازسرنو لکھنے کے مترادف ہے۔‘‘ بہر حال ، دو کے مقابلے میں تین جج صاحبان کی رائے صائب ٹھہری۔ اسی رائے کی شاخِ شاداب پر مسلسل رنگا رنگ شگوفے پھوٹ رہے ہیں۔

لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد بات سپریم کورٹ آئی تو جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے حکم جاری کیا کہ 22جولائی کو ’’رَن آف‘‘ الیکشن ہوں گے۔ ان انتخابات میں چوہدری شجاعت حسین کے ایک خط کو بنیاد بنا کر ڈپٹی اسپیکر نے مسلم لیگ (ق) کے دَس ووٹ مسترد کرکے حمزہ کو کامیاب قرار دے دیا۔ پرویز الٰہی فوراً سپریم کورٹ پہنچے۔ بلا تاخیر جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل بینچ بنا۔ ’پی ڈی ایم ‘نے فل بینچ کا مطالبہ کیا جسے مسترد کردیاگیا۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے استدعا کی کہ پہلے صدارتی ریفرنس کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی درخواست سُن لی جائے۔ یہ استدعا بھی مسترد ٹھہری۔27جولائی کی شب،9بجے کے بعد متفقہ فیصلہ آیا کہ گورنر رات ساڑھے گیارہ بجے سے پہلے پہلے پرویزالٰہی سے حلف لے۔ نہ لے پائے تو صدر علوی یہ فریضہ سرانجام دیں۔ صدر طلوعِ سحر سے پہلے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگئے۔

گزشتہ ہفتے جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر کی حمایت سے نوے روز میں انتخابات کا ایک اور فیصلہ سامنے آیا ہے جس پر تنازعات کا ایک نیا پنڈورا باکس کھل گیا ہے۔ اب کے بھی فل کورٹ کی استدعا ناقابل قبول ٹھہری۔ میں اس فیصلے یا متعدد دوسرے فیصلوں کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتا لیکن دنیا بڑی منہ پھٹ ہے۔ عالمی اشاریے میں 140 ممالک کی فہرست میں فراہمی عدل وانصاف کے حوالے سے پاکستان 129ویں نمبر پر ہے۔ جنوبی ایشیا میں نیپال، سری لنکا، بھارت، بنگلہ دیش سب ہم سے اوپر ہیں۔ ہمارے بعد صرف ایک ملک ہے۔ افغانستان۔

غداری کا مقدمہ بھگتتے ہوئے،مولانا ابوالکلام آزاد نے مسندِ انصاف پر بیٹھے انگریز کرنل سے کہا تھا ، ’’تاریخِ عالم کی سب سے بڑی ناانصافیاں جنگ کے میدانوں کے بعد عدالت کے ایوانوں میں ہوئی ہیں۔‘‘ پاکستان کی موجودہ بے چہرگی میں یقیناً سیاستدانوں کا بھی کردار ہے لیکن ہمہ پہلو المیّے کے بڑے محرکات کا رشتہ سپہ سالارانِ مہم جُو اور منصفانِ مصلحت خُو سے جڑا ہے۔ اپنے اپنے ’’نظریہ ضرورت‘‘ نے آج ہمیں اس لق ودق صحرا کے بیچوں بیچ لاکھڑا کیا ہے۔