دنیابھرسے

فن لینڈ کی نیٹو رکنیت منظور لیکن سویڈن کی نظریں اب بھی ترکی پر، اردوغان کیا چاہتے ہیں؟

Share

ترکی کی پارلیمان کی منظوری کے بعد یورپی ملک فن لینڈ نیٹو (نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن) اتحاد کا 31واں رکن ملک بننے جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ ترکی نے کئی ماہ تک فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کی مخالفت کی جس کی وجہ سے یہ معاملہ تاخیر کا شکار ہوا۔ فن لینڈ نے گذشتہ سال نیٹو میں شمولیت کی درخواست دی تھی۔

دوسری جانب فن لینڈ کے ساتھ نیٹو میں شمولیت کی درخواست دینے والے سویڈن کے خلاف اب تک ترکی نے اپنے اعتراضات ختم نہیں کیے۔

اب نیٹو کے آئندہ اجلاس میں، جو جولائی میں لتھوینیا میں منعقد ہو گا، فن لینڈ کو باضابطہ طور پر نیٹو میں شامل کر لیا جائے گا۔

ترک صدر رجب طیپ اردوغان نے مارچ میں فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کی حمایت کر دی تھی۔ انھوں نے اس وقت ترکی کی سکیورٹی کے لیے فن لینڈ کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کو بھی سراہا تھا۔

تاہم انھوں نے سویڈن پر ایک بار پھر کرد شدت پسندوں کی حمایت کرنے کا الزام لگایا اور سٹاک ہوم مظاہروں کی اجازت دیے جانے پر اعتراض کیا۔

واضح رہے کہ نیٹو اتحاد میں شمولیت کے لیے تمام رکن ممالک کی رضامندی ضروری ہوتی ہے۔

فن لینڈ اور سویڈن نے، جو روایتی طور پر عسکری اعتبار سے نیوٹرل رہے ہیں، یوکرین پر روس کے حملے کے بعد اپنی غیر جانب داری ترک کرنے کافیصلہ کیا اور نیٹو میں شمولیت کی درخواست دی۔

روس دونوں ریاستوں کے نیٹو میں شامل ہونے کی سختی سے مخالفت کرتا ہے اور اس نے مغرب کے دفاعی فوجی اتحاد کی توسیع کے امکان کی وجہ سے یوکرین کی جنگ کو جائز قرار دیا ہے۔

ترکی

ترکی فن لینڈ اور سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کی کیوں مخالفت کر رہا تھا؟

ترکی 1952 سے نیٹو اتحاد کا حصہ ہے اور وہ ماضی میں نیٹو اتحاد میں توسیع کا حامی رہا ہے۔

ترکی نے 1999 اور 2004 میں نیٹو کی سابق سوویت یونین علاقوں کی جانب توسیع پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا تھا۔

تاہم ترک صدر رجب طیب اردوغان نے فن لینڈ اور سویڈن پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ کرد پارٹی پی کے کے اور کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹ (وائی جی پی) کی حمایت کرتے ہیں جنھیں ترکی دہشتگرد تنظیمیں گردانتا ہے۔

یورپی یونین، برطانیہ، اور امریکہ بھی پی کے کے کو دہشتگرد تنظیم تسلیم کرتے ہیں لیکن وہ پی کے کے سے منسلک وائی جی پی کے ساتھ شام میں نام نہاد دولت اسلامیہ کے خلاف مل کر کام کرتے ہیں۔

انقرہ کا موقف تھا کہ دونوں ملک کرد پارٹی سے منسلک ممبران کو پناہ فراہم کرتے ہیں۔

کرد

جب ترکی نے 2019 میں شمالی شام میں وائی پی جی کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا تو فن لینڈ اور سویڈن نے ترکی کو اسلحہ کی فروخت پر پابندی عائد کر دی۔

تاہم حال ہی میں تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کیے جس میں ترکی کے خدشات کو دور کیا گیا۔

نیٹو کے سربراہ جنز اسٹولٹنبرگ نے جون میں کہا تھا کہ سویڈن مشتبہ عسکریت پسندوں کو ترکی کے حوالے کرنے کی درخواستوں پر اپنا کام تیز کرنے پر راضی ہے۔ انھوں نے کہا کہ دونوں شمالی یورپی ممالک ترکی کو ہتھیاروں کی فروخت پر عائد پابندیاں بھی اٹھا لیں گے۔

نیٹو کا قیام کیسے عمل میں آیا تھا؟

نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) اتحاد امریکہ اور کینیڈا کے علاوہ دس یورپی ممالک کی جانب سے دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں بنایا گیا تھا۔ اس اتحاد کا بنیادی مقصد اس وقت کے سوویت یونین سے نمٹنا تھا۔

جنگ کے ایک فاتح کے طور پر ابھرنے کے بعد، سوویت فوج کی ایک بڑی تعداد مشرقی یورپ میں موجود رہی تھی اور ماسکو نے مشرقی جرمنی سمیت کئی ممالک پر کافی اثر و رسوخ قائم کر لیا تھا۔

نیٹو

جرمنی کے دارالحکومت برلن پر دوسری جنگ عظیم کی فاتح افواج نے قبضہ کر لیا تھا اور سنہ 1948 کے وسط میں سوویت رہنما جوزف سٹالن نے مغربی برلن کی ناکہ بندی شروع کر دی تھی، جو اس وقت مشترکہ طور پر امریکی، برطانوی اور فرانسیسی کنٹرول میں تھا۔

شہر میں محاذ آرائی سے کامیابی سے گریز کیا گیا لیکن اس بحران نے سوویت طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد کی تشکیل میں تیزی پیدا کر دی تھی۔ اور سنہ 1949 میں امریکہ اور 11 دیگر ممالک (برطانیہ، فرانس، اٹلی، کینیڈا، ناروے، بیلجیئم، ڈنمارک، نیدرلینڈز، پرتگال، آئس لینڈ اور لکسمبرگ) نے ایک سیاسی اور فوجی اتحاد تشکیل دیا۔

سنہ 1952 میں اس تنظیم میں یونان اور ترکی کو شامل کیا گیا جبکہ سنہ 1955 میں مغربی جرمنی بھی اس اتحاد میں شامل ہوا۔

سنہ 1999 کے بعد سے اس نے سابقہ مشرقی بلاک کے ممالک کا بھی خیر مقدم کیا اور اس کے ارکان کی مجموعی تعداد 29 ہو گئی۔ مونٹینیگرو جون 2017 میں اس کا حصہ بننے والا آخری ملک تھا۔