علیدینا وسرام: یوگینڈا کے ’بے تاج بادشاہ‘ کہلائے جانے والے گجراتی کاروباری شخص
ایک نوجوان لڑکا کم عمری میں کسی نامعلوم شہر میں آتا ہے۔ یہاں کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے تجارت سکھاتا ہے۔ کچھ ہی وقت میں یہ لڑکا بڑا ہو کر ایک امیر تاجر بن جاتا ہے۔
وہ لڑکا اس نئے شہر میں اپنی برادری کے لیے مسیحا بن جاتا ہے اور ان کی خوشی اور غم میں مدد کرتا ہے۔ انھیں سہولیات فراہم کرتا ہے۔
پہلی نظر میں یہ 1970 کی بالی وڈ فلم کی کہانی لگتی ہے، لیکن اگر اس لڑکے کا نام علیدینا وسرام ہے تو یہ اس کی زندگی کی کہانی ہے۔
انڈین ریاست کچ میں پیدا ہونے والے علیدینا وسرام بہت چھوٹی عمر میں مشرقی افریقہ پہنچے تھے۔ انھوں نے اپنی تجارت کو موجودہ یوگینڈا، جمہوریہ کانگو، تنزانیہ، کینیا اور جنوبی سوڈان تک بڑھایا۔
وہ وہاں کام کرنے والے نچلے طبقے کے انگریز کارکنوں کے لیے بینک تھے۔ وہ ایک ریٹیل چین سٹور کے مالک، ہاتھی دانت کے ایک تاجر، ایک درآمد کنندہ، ایک کاٹن جن کے مالک تھے۔
علیدینا وسرام کو ’ہاتھی دانت کی تجارت کا بادشاہ‘ اور ’یوگینڈا کا بے تاج سلطان‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ آغا خان سوم نے انھیں ’وارث‘ کے خطاب سے نوازا تھا۔
وہ سوڈان میں رہنے والے ان ہندوستانی شہریوں میں بھی شامل تھے جنھیں حکومت ہند ’آپریشن کاویری‘ کے تحت سمندر اور فضائی راستے کے ذریعے ہندوستان واپس لائی تھی۔
ان میں گجرات کے علاقے راجکوٹ سے سوڈان جا کر آباد ہونے والے گجراتی بھی شامل تھے۔
اب جب ہزاروں گجراتی شہری افریقہ ہجرت کر کے وہاں خوشحال زندگی گزار رہے ہیں، مشرقی افریقہ میں پرچم بلند کرنے والے گجراتی تاجر کی زندگی پر ایک نظر۔
سات سمندر پار
علیدینا وسرام کی پیدائش سنہ 1851 میں کچ کے علاقے کیرا کے ایک کھوجا خاندان میں ہوئی۔ وہ صرف 12 سال کی عمر میں ایک مقامی جہاز میں سوار ہو کر ایک طویل سمندری سفر پر نکل پڑے۔ ایسا اس دور کے بہت سے بچوں کے ساتھ ہوا کرتا تھا۔
وہ سنہ 1863 میں باگامویا (آج کے) تنزانیہ کے علاقے میں پہنچے اور یہاں وہ سیوا حاجی پارو سے ملے جو اپنے تجارتی قافلے مشرقی افریقہ کے پسماندہ علاقوں میں بھیجتے تھے۔
یہاں علیدینا نے تجارت کا فن سیکھا۔ ابتدائی برسوں میں کپڑوں، اناج اور نمک کے بدلے شہد موم اور لونگ کی تجارت کرتے تھے۔
ڈیوڈ ہمبارا نے’کینوئن، کپٹلسٹ، دی سٹیٹ اینڈ ڈویلمپنٹ‘ نامی کتاب کے صفحہ 38 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ علیدینا نے 1877 میں باگامویا میں اپنا کاروبار کی ابتدا کی اور وقت کے ساتھ ساتھ دارالسلام، صدانی، ٹنڈے اور اُجیجی کے علاقوں میں اپنے کاروبار کی شاخیں کھول کر وسعت دی۔
1896 میں انھوں نے زینزیبار میں اور اسی سال یوگینڈا میں شاخیں کھولیں۔ 1899 میں برٹش ایسٹ افریقہ میں ممباسا اور دیگر مقامات پر کاروبار کی شاخیں کھولی گئیں۔
انھوں نے ہاتھی دانت، بھیڑ اور بکری کی کھالوں ربڑ، موم، تل، مونگ پھلی، مسالہ جات اور دیگر مصنوعات برآمد کیں۔ انھوں نے ٹیکسٹائل، موتیوں کی مالا، کمبل، تانبا، پیتل اور لوہا درآمد کیا۔
اس کے علاوہ وہ یورپ سے ریشم، اونی کپڑے اور شراب درآمد کرتے تھے۔ وہ کمپالا میں سوڈا، ٹینری اور فرنیچر کے کارخانوں کے مالک تھے۔ وہ ممباسا میں واسارام جننگ اینڈ آئل فیکٹری کے مالک تھے۔ جبکہ انتابے میں بھی ان کے کارخانے تھے۔
علیدینا وسرام کی کمپنی زینزیبار حکومت کے بحری جہازوں اور برٹش ڈومینز میرین انشورنس کمپنی کی سرکاری ایجنٹ تھی۔ ان کے بحری جہاز وکٹوریہ جھیل میں کمپالا، جنجا، کسومو کے درمیان چلتے ہیں۔
ان کی کمپنی میں تقریباً 500 ہندوستانی کلرک کام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کارپینٹری اور چنائی کے کام کے لیے بڑی تعداد میں مقامی لوگوں کو ملازمت دی گئی تھی۔
ان کے دور میں زیادہ تر کھوجا برادری کے لوگ کام کرتے تھے لیکن ان کے علاوہ ہندو، مسلمان، مقامی حبشی وغیرہ بھی کام کرتے تھے اور علیدینا سب کے لیے یکساں طور پر قابل احترام تھے۔ انگریز بھی ان کی عزت کرتے تھے۔
19ویں صدی کے آخر میں، 1898 کے آس پاس، علیدینا کے صرف ممباسا میں کاروبار کی سالانہ آمدن تین لاکھ روپے تھا۔
ہینرچ بروڈ نے اپنی کتاب ’برٹش اینڈ جرمن ایسٹ افریقہ‘ میں ذکر کیا ہے کہ ان کی درآمدات کا حجم دو لاکھ روپے جبکہ برآمدات کا حجم ایک لاکھ روپے تھا۔
آج یہ رقم بھلے ہی معمولی معلوم ہو لیکن اس زمانے میں مشرقی افریقی مزدور کی اوسط اجرت دو سے تین روپے ماہانہ تھی۔ اس کے مقابلے میں کاروبار اور منافع کے حجم کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
’ہاتھی دانت کے کاروبار کے بادشاہ‘
اس وقت زیادہ تر تجارت اور سفر سمندر کے ذریعے ہی ہوتا تھا۔ اندروب افریقہ تک رسائی ممکن نہیں تھی۔ اب علیدینا نے اپنے استاد سیوا حاجی پارو سے الگ ہونے کے بعد اپنے تجارتی قافلوں کو افریقہ کے دور افتادہ اور اندرون علاقوں میں بھیجنا شروع کیا۔ اور انھیں خوراک مہیا کی۔
ڈاکٹر ولی جمال اپنی کتاب ’یوگینڈا ایشینز وی کنٹریبوٹیڈ‘ میں لکھتے ہیں کہ زیادہ تر سیاح براعظم افریقہ میں کھیتی باڑی کرنے یا شکار کرنے کے لیے یہاں آتے تھے۔
زیادہ تر غیر ملکی مسافر ہاتھیوں، چیتوں، شیروں کی ٹرافی ہنٹنگ کے لیے افریقہ آتے ہیں۔ علیدینا کی اس شکار کی ایک ضمنی چیز پر نظر پڑی۔ یہ ہاتھی دانت تھے۔ شاہی خاندانوں اور ہندوستان کے امیروں میں اس کی بہت مانگ تھی اور اس کی قیمت بھی زیادہ تھیں۔ اس تجارت میں اس نے اتنا منافع کمایا اور اس قدر مشہور ہوا کہ اسے ’آئیوری کنگ‘ یعنی ’ہاتھی دانت کا بادشاہ‘ کہا جانے لگا۔
انھوں نے 1897 میں سیوا حاجی پارو کی موت کے بعد کاروبار سنبھال لیا تھا، جنھوں نے اسے تجارت سکھائی تھی۔
آج کے مغربی یا ہندوستانی معیارات کے مطابق، اس طرح کے شکار اور ہاتھی دانت جیسی ضمنی مصنوعات کی تجارت کی سہولت فراہم کرنے پر بہت شور مچے گا، لیکن اس وقت ایسی سرگرمیوں میں صرف یورپی اور امریکی ہی ملوث تھے اور اسے مہم جوئی سمجھا جاتا تھا۔
ریلوے کے ساتھ ساتھ دکانوں کا آغاز
برطانوی، مشرقی افریقہ میں علیدینا کے اثر رسوخ سے بہت حد تک واقف تھے۔ 1902 میں فریڈرک جیکسن نامی ایک افسر نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ علیدینا نامی ایک ہندوستانی تاجر اتنا ہی تل اور گنے خریدنے کے لیے تیار ہے جتنا مقامی لوگ اگا سکتے ہیں۔
علیدینا وسرام نے سرکاری دفاتر کے قریب اپنی دکانیں لگا رکھی تھیں۔ وہاں سے یورپی کارکنوں کو فرنیچر، کرسیاں، میزیں، جنگل سفاری پر جانے کے لیے کپڑے اور ضروریات زندگی مل جاتی تھیں۔
ان ملازمین کو اکثر تین ماہ کی تنخواہ ملتی تھی، لیکن علیدینا کی فرم انھیں قرض پر سامان فراہم کرتی تھیں۔ سرکاری دفتر کے قریب ہونے کی وجہ سے آنے والے افسر ملازم کو مقامی پیداوار، نقل و حمل، مواصلات وغیرہ میں مدد ملتی تھی جو حکومت کے لیے فائدہ مند تھی۔
اس کے علاوہ، برطانوی حکام اپنے خط و کتابت میں نوٹ کرتے ہیں کہ کرایہ دار ہونے کے باوجود، انھوں نے کبھی زیادہ قیمتوں پر سامان فروخت نہیں کیا۔ جب 1901 میں ریلوے کا آغاز ہوا، تو علیدینا وسرام نے اپنی اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز باگامویا سے ممباسا منتقل کر دیا۔ جیسے جیسے لائن پھیلتی گئی، دکانیں اس کے متوازی شامل ہو گئیں۔ برطانویوں میں وہ ’دوکاوالا‘ (دکان والے) کے نام سے مشہور تھے۔
1902 میں سر چارلس ایلیٹ نے اس کے کاروباری ماڈل کے بارے میں لکھا کہ ’علیدینا وسرام نامی ایک شخص زیادہ تر چھوٹے تاجروں کو تجارتی سامان فراہم کرتا ہے۔ جو اسے ماہانہ اقساط ادا کرتے ہیں اور اس کے نام سے تجارت کرتے ہیں۔‘
مختلف جگہوں پر پھیلے ان دکانوں کا انتظام ان کے ہندوستانی معاونین کرتے ہیں۔ زیادہ تر کا تعلق ان کی اسماعیلیہ برادری سے ہے۔ انھیں مشرقی افریقہ کے اندرونی حصوں میں دکانوں کا بانی سمجھا جاتا ہے۔‘
اس انتظام کو آج کے فرنچائز سسٹم کے قریب سمجھا جا سکتا ہے۔ تاہم، دیگر معاشروں اور برادریوں کے لوگ بھی علیدینا کے لیے تجارت کرتے تھے۔ ان کی دکانوں میں ’دکان گھر‘ قسم کا انتظام تھا، جس میں رہائش اور دکان کو ملایا گیا تھا۔
جے ایس مانگٹ نے اپنی کتاب ’اے ہسٹری آف دی ایشینز ان ایسٹ افریقہ‘میں اس کا ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ زراعت میں بھی اس نے ہاتھ بٹایا۔
ڈاکٹر ولی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ انھوں نے 1904 میں کھیتی باڑی شروع کی اور جلد ہی دالیں، پھل، کپاس، ربڑ اور گنے اگانے والے سات بڑے فارموں کے مالک ہوگئے۔ اس میں تین ہزار سے زائد ملازمین کام کرتے تھے۔
پہلی عالمی جنگ کے دوران سفر میں ہلاکت
علیدی کی جائیداد کو جماعت خانے، مساجد، گرجا گھر اور لائبریریاں بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس کے علاوہ ان کے وفات کے بعد ان کے بیٹے نے ان کے نام پر ایک سکول تعمیر کیا۔ یوگینڈا میں ان کے نام پر ایک روڈ بھی تمعمیر کی گئی تھی لیکن اس کا نام ایدی امین کے دور میں تبدیل کر دیا گیا۔
ڈاکٹر ولی جمال کہتے ہیں کہ وہ یوگینڈا میں ’بادشاہت کے سلطان‘ کے طور پر بھی جانے جاتے تھے۔ کینیا اور یوگینڈا میں موجود 90 فیصد اسماعیلی اپنی خوشحالی کی وجہ انھیں قرار دیتے ہیں۔ انھیں اپنی برادری کے لیے کی گئی خدمات کے عوض آغا خان سوم کی جانب سے ’وارث‘ کا خطاب دیا گیا تھا۔
علیدی کے آخری سالوں میں انھوں نے ان علاقوں کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا جہاں ان کی برادری کے لوگ رہتے تھے۔ سنہ 1916 میں وہ کانگو پہنچے تو اس اثنا میں پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہو گیا جس میں مشرقی افریقہ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اس دوران انھیں بخار ہوا اور وہ اس سفر کے دوران ہی ہلاک ہو گئے۔
یوگینڈا کے بادشاہ اور گورنر ان کی تدفین کے وقت موجود تھے۔ تاجروں نے اس دوران اپنی دکانیں بند رکھیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے نے ایک سکول بنا کر اسے ان کے نام سے منسوب کیا۔ وہ اب بھی اسماعیلیوں، گجراتیوں اور وہاں رہنے والے انڈین نژاد شہریوں کے لیے فخر کا باعث سمجھے جاتے ہیں۔
گجراتیوں کو پانی فراہم کرنے والے
علیدینا وسرام کی وفات کے بعد نانجی کالی داس مہتا، منو مدھوانی اور سلیمان ویر جی مشرقی افریقہ میں سامنے نمایاں ہوئے۔ دوسری جانب انڈیا کی آزادی کے بعد بھی اکثر بڑے تاجروں نے مشرقی افریقہ میں کام کرتے ہوئے ترقی کی۔
یوگینڈا اس وقت گجراتیوں کا ایک گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ تاہم عیدی امین کے دور ان کے لیے بہت برا ثابت ہوا کیوں عیدی نے کہا کہ وہ یوگینڈا کو ’انڈیا کی جاگیر‘ نہیں بننے دیں گے۔
عیدی امین نے قوم کے سامنے دعویٰ کیا کہ ان کے خواب میں اللہ نے آ کر یہ حکم دیا ہے کہ ایشیائی لوگوں کو یوگینڈا سے نکال دیا جائے۔ اس انخلا کے لیے انھوں نے لوگوں 90 روز کا وقت دیا۔ اکثر گجراتیوں کو اپنے وطن لوٹنے کی آپشن دی گئی تھی، جن کے پاس برطانیہ کے پاسپورٹس تھے، انھوں نے برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا کا سفر کرنے کا فیصلہ کیا۔
عیدی کا دعویٰ تھا کہ ایشیائی کمیونٹی رشوت، غبن، حوالہ سکیم، ٹیکس فراڈ، سمگلنگ، فراڈ اور شہریت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
عیدی کے دورِ حکومت میں مقامی افراد کی ایشیائی لوگوں کے خلاف غصے کو ہوا ملی۔ اس غصے کی ایک وجہ ایشیائی لوگوں کا مقامی لوگوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا رویہ بھی تھا۔
اس بارے میں بی بی سی گجراتی سے بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی وپل کلیانی کا کہنا تھا کہ یوگینڈا میں رہنے والی گجراتی کمیونٹی تجارت کیا کرتی تھی۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی کاروباری لوگ کہیں جاتے ہیں تو وہاں مقامی آبادی کا استحصال ضرور ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یوگینڈا میں موجود گجراتی کمیونٹی انتہائی نسل پرست رویہ رکھتی تھی، وہ نسل اور رنگ کی بنیاد پر تفریق کرتے تھے۔ وہ ایک برتری کا رویہ روا رکھتے تھے اور مقامی افراد کو تضحیک کی نظر سے دیکھتے تھے۔
ایلا شاوٹ اور رابرٹ سٹیم اپنی کتاب ’ملٹی کلچرازم، پوسٹ کولونییئلٹی اور ٹرانس نیشنل میڈیا میں لکھتے ہیں کہ ’یوگینڈا میں رہنے والے اکثر انڈین گجراتی تھے۔ وہاں جتنے بھی ہندو تھے وہ دو ذاتوں میں تقسیم تھے۔ جبکہ مسلمان شعیہ اور سنی تقسیم کا شکار تھے۔
یہ انڈین یوگینڈا میں ترقی حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن وہ اس دوران امتیازی سلوک چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ وہ اپنی ذاتوں میں ہی شادیاں کرتے اور کبھی کسی مقامی سے شادی کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
مقامی افراد کے ساتھ گھلنے ملنے سے اجتناب نے یہ تاثر پیدا کر دیا تھا کہ یہ مقامی لوگوں کا استحصال کرنے آئے ہیں اور ان کی تجارت، شناخت اور تاریخ کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔
حالیہ عرصے میں یوگینڈا میں گجراتیوں اور انڈینز کی صورتحال بہتر ہوئی ہے لیکن ان کا اثر و رسوخ وہ نہیں ہے جو ایک زمانے میں ہوا کرتا تھا۔
ڈیوڈ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جس بھی ملک میں غیرمعمولی معاشی ترقی نظر آتی ہے وہاں نئی کاروباری شخصیات نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔
مشرقی افریقہ میں کاروباری شخصیات بہت کامیاب ہوئی ہیں۔ انھیں بھلا اس لیے دیا جاتا ہے کیونکہ ان کے بارے میں کوئی کتاب موجود نہیں ہے۔ تاہم علیدی وسرام اس حوالے سے ایک غیر معمولی مثال ہیں۔