فنگر پرنٹس یا چہرے کی شناخت کے مقابلے میں اپنی ہتھیلی کو استعمال کرنے کے 4 فوائد
ایمازون نے حال ہی میں فزیکل سٹورز میں ادائیگی کے ایک نئے نظام کا اعلان کیا ہے جو سکینر پر آپ کے ہاتھ سے ایک سادہ حرکت پر مشتمل ہے۔
یہ آلہ ہاتھ کی ہتھیلی کی ایک انفراریڈ تصویر کھینچتا ہے، صارف کو ان کی رگوں کے مخصوص پیٹرن سے پہچانتا ہے اور تقریباً ایک سیکنڈ میں ان کی ادائیگی پر کارروائی کرتا ہے۔
بعد میں ایمازون سٹور نیٹ ورک میں توسیع کے لیے اس پروڈکٹ کو سیئٹل (USA) میں دو سٹورز میں آزمایا جائے گا۔
لیکن جیف بیزوز کی کمپنی اس بائیو میٹرک ٹیکنالوجی کو لاگو کرنے والی پہلی کمپنی نہیں یہ مشرقی ایشیا میں برسوں سے مقبول ہو رہی ہے۔
جنوبی کوریا کے بڑے ہوائی اڈے مسافروں کی ہتھیلیاں سکین کر کے وقت بچاتے ہیں، اور جاپان میں مقامی حکومتیں اپنے رہائشیوں کو محفوظ طریقے سے شناخت کرنے کے لیے اس نظام کو نافذ کرتی ہیں۔
مارکیٹ ریسرچ کنسلٹنسی آئی مارک کی طرف سے شائع کردہ ایک مطالعہ کے مطابق، ’پام بائیو میٹرکس‘ کے نام سے جانی جانے والی ٹیکنالوجی نے 2022 میں ایک ارب بلین ڈالر سے زائد کمائے اور 2028 تک اس کا تخمینہ 3.72 ارب ڈالر تک پہنچنے کا اامکان ہے۔
بایومیٹرکس پہلے سے ہی ہماری زندگی کا حصہ ہے، جب بھی ہم اپنے سمارٹ فون کو ان لاک کرتے ہیں ہم اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہیں، حالانکہ یہ ابھی تک دیگر آلات اور سہولیات جیسے کہ سپر مارکیٹوں، ریستوراں، رہائشی کمپلیکس، ہوٹلوں یا ہوائی اڈوں پر 100 فیصد لاگو نہیں ہوئی ہے۔
ماہرین کے مطابق ہاتھ کی ہتھیلی کی بائیو میٹرکس کے دیگر شعبوں تک کی مکمل توسیع ایک نیا اور ٹھوس متبادل ہوگا۔
ہم اس کے کچھ ایسے فوائد کی وضاحت کرتے ہیں جو آج کل سب سے زیادہ استعمال ہونے والے طریقوں جیسے فنگر پرنٹس یا چہرے کی شناخت کے مقابلے میں حاصل ہو سکتے ہیں۔
بہتر سکیورٹی
فنگر پرنٹ کی جعل سازی یا چہرے کی شناخت کے نظام کو بے وقوف بنانا آسان نہیں ہے، لیکن یہ ناممکن بھی نہیں ہے۔
فنگر پرنٹس کے معاملے میں، لیٹیکس کے سانچوں سے لے کر تھری ڈی پرنٹنگ تک کامیابی کے مختلف درجات کے ساتھ بہت سی کوششیں کی گئی ہیں، اور تصویروں کو بھی چہرے کی شناخت کے نظام کو روکنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔
کسی شخص کے ہاتھ کے اندر موجود رگوں کے پیٹرن کو نقل کرنا زیادہ مشکل ہے۔
ساؤتھمپٹن یونیورسٹی کی فیکلٹی آف الیکٹرانکس اینڈ کمپیوٹنگ سے تعلق رکھنے والے محقق باسل ہالک نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ پیٹرن ہر ایک انگلی اور ہر فرد کے لیے مختلف ہوتے ہیں اور چونکہ یہ جلد کی سطح کے نیچے چھپے ہوتے ہیں، اس لیے انھیں نقل کرنا انتہائی مشکل ہے۔‘
مثال کے طور پر، دروازے کے ہینڈل پر ایک اچھی طرح سے لگے ہوئے فنگر پرنٹ کو ماہرین نکال سکتے ہیں اور اسے ایک سانچے میں نقل کیا جا سکتا ہے، جو کہ ہتھیلی کی شناخت کے معاملے میں ناممکن ہے، جس کی رگیں جلد کے نیچے ہوتی ہیں اور ٹشو کی متعدد تہوں سے محفوظ رہتی ہیں۔
یہاں تک کہ اگر کوئی ماہر مجرم کسی شخص کے ہاتھ میں موجود رگ کے نمونے پر درست ڈیٹا تک رسائی حاصل کر لیتا ہے اور اسے لائف سائز ماڈل پر نقل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو سکینر کو شاید پتہ چل جائے گا کہ یہ کوئی حقیقی عضو نہیں ہے کیونکہ اس میں خون کی روانی کی کمی ہے۔
اس طرح، اس ٹیکنالوجی کو ان حالات میں ایک امید افزا متبادل سمجھا جاتا ہے جن میں درست اور قابل اعتماد شناخت کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے کہ ممنوعہ علاقوں تک رسائی یا ادائیگی کی تصدیق کے لیے۔
اس نئی ٹیکنالوجی کے ماہرین اور محافظ اس بات کو بھی یقینی بناتے ہیں کہ یہ صارفین کی رازداری کی بہتر حفاظت کرتی ہے۔ فنگر پرنٹس اور سب سے بڑھ کر، چہرے کی شناخت کے برعکس، یہ ایک پوشیدہ پیٹرن کے ذریعے شناخت کرتی ہے۔ ۔
ہالک کہتے ہیں کہ ’آپ کسی شخص کی ہتھیلی کی تصویر دیکھ کر اس کی شناخت کا تعین نہیں کر سکتے۔‘
مستقل مزاجی
ہماری انگلیوں کے نشان زندگی بھر مختلف نہیں ہوتے۔
لیکن وہ عمر بڑھنے، جلد کی حالتوں یا بعض جسمانی سرگرمیوں کی وجہ سے بگڑ سکتے ہیں، جس کی وجہ سے انھیں پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے اور شناخت کرنے والے ناکام ہو جاتے ہیں۔
چہرے کی شناخت کے معاملے میں، ظاہری شکل میں تبدیلیاں جن کا تجربہ ایک شخص کو زندگی بھر ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، پلاسٹک سرجری کے طریقہ کار، داڑھی یا ٹیٹو بھی تصدیق کو پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔
یہ معاملہ ہتھیلی کی شناخت کے نظام کے ساتھ نہیں ہے، جن کی رگوں کے نمونے انتہائی پیچیدہ اور ہر فرد کے لیے منفرد ہوتے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر وہ جسم کے بیرونی عوامل سے تبدیل نہیں ہوتے ہیں۔
’شناخت کنندگان کی دوسری شکلوں کے مقابلے میں، بائیو میٹرک تصدیق کی یہ شکل جسمانی خصوصیات پر مبنی ہے جو زندگی بھر مستقل رہتی ہیں،۔‘
درستگی
بہت زیادہ درستگی ہتھیلی کی رگوں کو پہچاننے والی ٹیکنالوجی کا ایک اور بڑا فائدہ ہے۔
انگلیوں کے نشانات گندے ہاتھ یا غلط انداز سے انگلیاں رکھنے کی وجہ سے اکثر شناخت میں ناکامی کا باعث بنتے ہیں۔
اس کے علاوہ چشمے، ماسک اور دیگر چیزوں کا استعمال چہرے کی شناخت کو مشکل بنا دیتا ہے۔
انفراریڈ شعاعوں کا استعمال کرتے ہوئے، ہاتھ کی رگوں کی شناخت کرنے والے سکینر زیادہ درستگی کو یقینی بناتے ہیں اور غلط مثبت یا منفی سے بچتے ہیں۔
جاپانی کمپنی فجیستو نے اپریل میں ایک مطالعہ شائع کیا جس میں وہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اس کے ہتھیلی کی شناخت کے نظام کی غلط نتائج کی شرح 10 کروڑ میں صرف 8 رہی۔
فنگر پرنٹ کا پتہ لگانے اور چہرے کی شناخت کے نظام کے معاملے میں، یہ تناسب آلات کے معیار اور دیگر عوامل کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں، لیکن ان میں سے اکثر میں غلطی کی شرح 0.1 فیصد اور ایک فیصد کے درمیان ہوتی ہے، جو فجیستو کے پیش کردہ اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے اور جس کی بی بی سی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا۔
حفظان صحت
کووڈ 19 وبا کے بعد ذاتی حفظان صحت کے بارے میں دنیا کا تصور بدل دیا ہے۔
بہت سے لوگوں کو خدشہ ہوتا ہے کہ روزانہ کی کارروائیاں جیسے سیڑھوں پر لگی باڑ، لفٹ کا بٹن دبانا یا دروازے کے ہینڈل کو موڑنا کو وائرس اور بیکٹیریا کی منتقلی کی وجہ بن سکتا ہے۔
اس لحاظ سے ہاتھ کی ہتھیلی کی رگوں کی پہچان کو بائیو میٹرک شناخت میں انگلیوں کے نشانات کے لیے ایک حفظان صحت کا متبادل سمجھا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس سے بعض اداروں اور کارپوریشنوں کو اس ٹیکنالوجی کا انتخاب کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے، مثال کے طور پر ہسپتال جہاں متعدی بیماری سے بچنے کے لیے حفظان صحت کے سخت پروٹوکولز ہوتے ہیں یا وہ کمپنیاں جہاں خوراک کا کام کیا جاتا ہے۔
ناقدین کیا کہتے ہیں؟
اگرچہ اس کے فائدے بیان کرنے والوں کمی نہیں لیکن اس نئی ٹیکنالوجی کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔
جب ایمازون نے اپنے پام پر مبنی ادائیگی کے نئے نظام کا اعلان کیا تو صارف کی رازداری کی وکالت کرنے والی تنظیم بگ برادر واچ نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔
ایمازون کے سی ای او سلکی کارلو نے کہا، ’ایمازون ناگوار اور ڈسٹوپین ٹیکنالوجیز کے ساتھ مارکیٹ پر قبضہ جاری رکھے ہوئے ہے جو ایسے مسائل کو حل کرتی ہیں جو ہیں ہی نہیں۔‘
’کسی کو بھی سامان یا خدمات کی خریداری کے لیے بائیو میٹرکس فراہم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بائیو میٹرک ادائیگی اور گھریلو نگرانی کے آلات کو معیاری بنانے کی ایمازون کی کوشش ایک ایسی دنیا کی تعمیر کو خطرے میں ڈالتی ہے جہاں ہمیں ٹریک اور ریکارڈ کرنا آسان ہو، جو لامحالہ شہریوں کو بے اختیار کر دے گا‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ بلاشبہ، ایک زیادہ جدید ترین ٹیکنالوجی ہونے کی وجہ سے جو ابھی تک وسیع پیمانے پر استعمال نہیں ہوئی یہ مہنگی ہے۔
ان میں سے بہت سے لوگ اس بات پر بھروسہ کرتے ہیں کہ بایومیٹرکس کی یہ شاخ ترقی کرتی رہے گی اور مختلف صنعتیں اسے آہستہ آہستہ اپنائیں گی۔
آنے والے سالوں میں ہم جان لیں گے کہ آیا یہ موجودہ شناختی طریقوں کے حقیقی متبادل کے طور پر مستحکم ہے یا نہیں۔