پاکستان

’کیا خوبصورت طریقہ، پہلے آڈیوز پر ججز کی تضحیک، پھر کہا اب آڈیوز کے سچے ہونے کی تحقیق کروا لیتے ہیں‘

Share

سپریم کورٹ میں آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں کمیشن کی تشکیل کے خلاف مختلف درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ کیا خوبصورت طریقہ ہے اور عدلیہ کے ساتھ کیا انصاف کیا ہے، پہلے ان آڈیوز پر ججز کی تضحیک کی پھر کہا اب ان آڈیوز کے سچے ہونے کی تحقیق کروا لیتے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل کو چیلنج کرنے والی چار درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے، جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔

چئیرمین پی ٹی آئی، صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری سیکریٹری مقتدر شبیر اور ایڈوکیٹ حنیف راہی نے کمشین کی تشکیل کے خلاف درخواستیں دائر کر رکھی ہیں جبکہ حنیف راہی نے کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی درخواست بھی دائر کر رکھی ہے۔

وفاقی حکومت نے بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کی شمولیت پر اعتراض اٹھا رکھا ہے۔

آج سماعت شروع ہونے کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ججز کسی صورت پارٹی نہیں بن سکتے۔

حنیف راہی ایڈوکیٹ نے دلائل دیے کہ میری تو ہین عدالت کی درخواست پر ابھی تک نمبر نہیں لگا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ توہین کا معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہوتا ہے۔

چیف جسٹس عطا عمر بندیال نے مزید کہا کہ آپ کی درخواست پر اعتراضات ہیں تو دور کریں، آپ یہ بھی سمجھیں کہ کس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی چاہتے ہیں، جج کو توہین عدالت کی درخواست فریق نہیں بنایا جا سکتا۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آگئے، انہوں نے حکومت کی جانب سے بینچ پر اٹھائے گیے اعتراضات پڑھ شروع کر دیے۔

اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کس پوائنٹ پر بات کرنا چاہیں گے؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ ایک چیز مس کر رہے ہیں، چیف جسٹس پاکستان ایک آئینی عہدہ ہے، مفروضے کی بنیاد پر چیف جسٹس کا چارج کوئی اور نہیں استعمال کر سکتا۔

چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ اس کیس میں چیف جسٹس دستیاب تھے، جنہیں کمیشن کے قیام پر آگاہ نہیں کیا گیا، چیف جسٹس کے علم میں نہیں تھا اور کمیشن بنا دیا گیا، ان نکات پر آپ دلائل دیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ عدالتی فیصلوں کے حوالے پڑھنے سے پہلے قانون کو سمجھیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں پہلے بینچ کی تشکیل پر دلائل دوں گا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا آپ اس پوائنٹ پر جا رہے ہیں کہ ہم میں سے تین ججز متنازع ہیں؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بتایا کہ اگر اس پر جاتے ہیں تو آپ کو بتانا ہوگا کہ آپ نے کس بنیاد پر فرض کر لیا کہ ہم میں سے تین کا کنفلکٹ ہے، میں چاہوں گا آپ دوسروں سے زیادہ اہم ایشو پر فوکس کریں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دوسرا اور اہم ایشو عدلیہ کی آزادی کا ہے۔

اٹارنی جنرل نے آڈیو لیکس کمیشن کے ٹی او آرز پڑھ کر سنا دئیے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لیک آڈیوز میں ایک چیف جسٹس کی ساس سے متعلق ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا آپ کا اس وقت کیس یہ ہے کہ آڈیوز بادی النظر میں درست ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اس معاملے پر ابھی صرف کمیشن بنایا ہے، حقائق جاننے کے لیے ہی تو کمیشن بنایا گیا ہے۔

وفاق کو علم نہیں کہ آڈیوز مصدقہ ہیں یا نہیں؟ سینئر کابینہ ممبر نے پریس کانفرنس بھی کر دی، جسٹس منیب اختر

جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ کیا وفاق کو علم نہیں کہ آڈیوز مصدقہ ہیں یا نہیں؟ سینئر کابینہ ممبر نے تو اس پر پریس کانفرنس بھی کر دی۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ کیا یہ درست نہیں کہ وزیر داخلہ ان آڈیوز پر پریس کانفرنس کر چکے؟ پریس کانفرنس میں کچھ آڈیوز چلا بھی دی گئیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا قانونی طور پر درست ہے، جسے آڈیوز کی حقیقت کا نہیں پتہ وہ بینچ پر اعتراض اٹھائے، میں آپ کی درخواست کے قابل سماعت ہونے کا پوچھ رہا ہوں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ وزیر داخلہ نے پریس کانفرنس کیوں کی، کیا ایسی لاپرواہی کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے؟

ایسے بیان کے بعد تو اس وزیر کو ہٹا دیا جاتا یا وہ مستعفی ہوجاتا، جسٹس منیب اختر

جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ ایسے بیان کے بعد تو اس وزیر کو ہٹا دیا جاتا یا وہ مستعفی ہوجاتا جس پر اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ کیا ایک وزیر کا بیان پوری حکومت کا بیان لیا جا سکتا ہے؟ میرے علم میں نہیں اگر پریس کانفرنس کسی نے کی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اتنے اہم ایشو پر کابینہ کا اجتماعی ذمہ داری سامنے آنی چاہیے تھی، وزیر اگر چائے پینے کا کہے تو الگ بات، یہاں بیان اہم ایشو پر دیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت یہ دیکھے کہ وزیر داخلہ کا بیان 9 مئی سے پہلے کا ہے یا بعد کا،

چیف جسٹس عطا عمر بندیال نے کہا کہ ٹوئٹر ہینڈل کا پتا کریں کہ وہ ملک یا بیرون ملک سے آپریٹ ہو رہا ہے، کیا حکومت نے اپنے وسائل استعمال کر کے پتا کیا کہ آڈیوز ریکارڈ کہاں سے اور کیسے ہو رہی ہیں؟

چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل سے اہم سوالات اٹھاتے ہوئے کہاکہ کون یہ سب کر رہا ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ واہ کیا خوبصورت طریقہ ہے اور عدلیہ کے ساتھ کیا انصاف کیا ہے، پہلے ان آڈیوز پر ججز کی تضحیک کی پھر کہا اب ان آڈیوز کے سچے ہونے کی تحقیق کروا لیتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ تو بڑا آسان ہوجائے گا کسی بھی جج کو کیس سے ہٹانا ہے تو اس کے نام لے کر آڈیو بنا دو، کیس سے الگ ہونے کے پیھچے قانونی جواز ہوتے ہیں۔

جسٹس منیب اختر کا مزید کہنا تھا کہ یہ آپشن اس لیے نہیں ہوتا کوئی بھی آکر کہہ دے جج صاحب فلاں فلاں کیس نہ سنیں، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی حکومت اسی لیے اس معاملے کو انجام تک پہنچانا چاہتی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ ہے کہ آڈیوز کس نے پلانٹ کی ہیں، کیا حکومت نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ یہ کون کر رہا ہے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ حکومت کمیشن کے ذریعے اس معاملے کو بھی دیکھے گی، کالز کیسے ریکارڈ کی گئیں، کمیشن کے ذریعے تمام عوامل کا جائزہ لیا جائے گا، ابھی تو یہ معاملہ انتہائی ابتدائی سطح پر ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے مطابق یہ مبینہ آڈیوز ہیں، وفاقی حکومت کا یہی بیان دیکھا جانا چاہیے، کابینہ کے علاوہ کسی وزیر کا ذاتی بیان حکومت کا بیان نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر وزیر خزانہ کچھ بیان دے تو وہ بھی حکومت کا نہ سمجھا جائے؟ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کوئی معاملہ اگر سپریم کورٹ کے تمام ججز سے متعلق نکل آئے پھر یہ نظریہ ضرورت پر عمل ہوسکتا ہے، اگر تمام ججز پر سوال ہو پھر بھی کہا جا سکتا ہے کہ اب کسی نے تو سننا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ بے نظیر کیس میں بینچ پر اعتراض نہیں ہوا، کیا اس کیس میں ججز نے ٹھیک فیصلہ نہیں کیا جن کی کالز ٹیپ ہوئیں؟

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کا کیس تعصب کا نہیں مفادات کے ٹکراؤ کا ہے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا یہ اعتراض صرف جوڈیشل کارروائی پر بنتا ہے یا انتظامی امور کی انجام دہی پر بھی ہے؟

جسٹس منیب اختر نے بتایا کہ بے نظیر بھٹو کیس سننے والے 7 میں سے 4 ججز کے فون ٹیپنگ کی گئی تھی، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اس کیس میں صدر کے اختیارات کا سوال تھا۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ کوئی بھی شخص اپنے کاذ کا خود جج نہیں ہوسکتا، ہماری اس سارے معاملے پر کوئی بدنیتی نہیں ہے، بینچ تبدیل ہونے سے کمیشن کے خلاف عدالت آئے درخواست گزاروں کا حق متاثر نہیں ہوگا۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ استدعا ہے کہ بینچ تبدیلی کی درخواست کو زیر غور لائیں، جس پر چیف جسٹس نے بتایا کہ آپ کا اعتراض دو اور ججز پر بھی ہے۔

اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ ہماری درخواست کا متن آپ کے سامنے ہے اس کا جائزہ لے لیں،

بینچ تبدیلی کی حکومتی درخواست پر اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہو گئے۔ . درخواست گزار عابد زبیری کے وکیل شعیب شاہین نے دلائل شروع کرتے ہوئے بتایا کہ آڈیوز کو درست سمجھ کر کہہ دیا گیا کہ عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی، کمیشن کے قیام کے ٹی او آرز میں آڈیو ٹیپ کرنے والے کا ذکر نہیں۔

شعیب شاہین نے مزید کہا کہ ساری آڈیوز پنجاب الیکشن سے متعلق سوموٹو کے بعد آنا شروع ہوئیں، یہ آڈیوز ریکارڈنگ کس نے کیں؟ تمام آڈیوز ایک ہی ہیکر کے ذریعے منظر عام پر لائی گئیں۔

وکیل شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا وفاقی حکومت الیکشن کیس میں ایک فریق ہے، وہی کمیشن بنا رہی ہے، ٹی او آرز میں آڈیوز ریکارڈ کرنے والے کا ذکر ہوتا پھر تو بات تھی۔

یہاں سوال ایگزیکٹو کی عدلیہ میں مداخلت کا ہے، شعیب شاہین

شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ یہاں عدالت کے سامنے ایک آئینی نوعیت کا معاملہ ہے، یہاں سوال ایگزیکٹو کی عدلیہ میں مداخلت کا ہے،

وکیل شعیب شاہین نے کہا کہ اس بینچ نے کسی کے حق میں یا خلاف فیصلہ نہیں دینا ایک تشریح کرنی ہے۔

خیال رہے کہ 26 مئی کو پانچ ججوں کے بینچ نے مبینہ آڈیو لیکس کی حقیقت کی تحقیقات کے لیے حکومت کی جانب سے مقرر کردہ تین ججوں کے کمیشن کی کارروائی کو روک دیا تھا۔

اس کے بعد 27 مئی کو آڈیو لیک کمیشن نے سپریم کورٹ کی سماعت کا نتیجہ آنے تک اپنی کارروائی ملتوی کر دی تھی۔

درخواستیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے صدر عابد زبیری، اس کے سیکریٹری مقتدر اختر شبیر، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور ایڈووکیٹ ریاض حنیف راہی نے دائر کی تھیں، جس میں عدالت سے آڈیو کمیشن کی تشکیل کو غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نئی درخواست میں عابد زبیری نے اپنے وکیل شعیب شاہین کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ کا 22 دسمبر 2021 کا ایک حکم نامہ پیش کیا، جس میں عدالت نے کہا تھا کہ کسی نیوز چینل کو ایسی کوئی آڈیو نشر یا نشر کرنے کا حق نہیں جسے چینل یا صحافی نے خود آڈیو یا ویڈیو کلپ کے موضوع کی پیشگی اجازت کے بغیر براہ راست ریکارڈ نہیں کیا ہو اور اس ’جاسوس معلومات‘ کو خبر نہیں سمجھا جانا چاہیے، خاص طور پر جب یہ رازداری کے حق کو متاثر کرتی ہو۔

اسی طرح ایک اور دستاویز سپریم کورٹ کا 5 اپریل 2022 کو دیا گیا فیصلہ تھا، جس میں اسے ریکارڈ پر لایا گیا تھا کہ عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے مذکورہ بالا حکم کے خلاف اپیل پر غور کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

اس کے علاوہ درخواست گزار نے 31 مئی 2023 کو دیا گیا اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک اور حکم بھی پیش کیا، جس میں عدالت نے آڈیو لیکس کے آڈٹ، انکوائری اور تحقیقات کے لیے قومی اسمبلی کے اسپیکر کی تشکیل دی گئی ایک خصوصی کمیٹی کے جاری کردہ سمن کو معطل کر دیا تھا جس میں مبینہ طور پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب ملوث تھے۔

حکم نامے میں جسٹس بابر ستار نے بیرسٹر اعتزاز احسن، مخدوم علی خان، میاں رضا ربانی اور محسن شاہنواز رانجھا کو عدالت کی معاونت کے لیے مقرر کیا تھا۔

ہائی کورٹ نے شہریوں کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو کو ریکارڈ کرنے کے لیے کسی قانونی فریم ورک کے بارے میں بھی حیرت کا اظہار کیا تھا۔

درخواست گزار کی جانب سے سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی جانے والی دستاویزات میں سے ایک لاہور ہائی کورٹ کا 2 جون 2023 کو سنایا گیا فیصلہ تھا، جس میں عدالت نے کہا تھا کہ ماخذ کی عدم موجودگی میں کسی بھی آڈیو یا ویڈیو کو ثبوت کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔

31 مئی کو ہونے والی آخری سماعت پر سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کی تشکیل نو کی درخواست کے بعد کیس کی سماعت آج تک کے لیے ملتوی کردی تھی۔

حکومت نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کے بینچ سے الگ ہونے کی درخواست کی تھی۔