منشیات کےعادی والدین کے ساتھ استحصال کے شکار بچپن سے کالج کی پروفیسر بننے تک کا سفر
میرا ہیروئین کی لت کا شکار والدین والے بچپن سے کالج کی پروفیسر بننے تک کا سفر کیسا تھا؟
کترینا او سلیوان کے پاس اپنی زندگی کو برباد کرنے کی تمام وجوہات موجود تھیں۔ ان کا خاندان غریب تھا، ان کے والدین، ہیروئن کے عادی تھے، ان کی یا ان کے بھائی کی پرواہ نہیں کرتے تھے، اور بہت چھوٹی عمر سے ہی انھوں نے ایسی مشکلات کا سامنا کیا جن پر قابو پانا دوسروں کے لیے ناممکن لگتا ہے۔
وہ نوعمری میں ہی حاملہ ہو گئی تھیں اور اپنے بیٹے جان کی سنگل مدر تھی۔ انھوں نے خود کو شراب کی لت کا عادی بنا لیا تھا اور وہ منشیات استعمال کرتی تھیں۔ اور وہ سمجھتی تھیں کہ ان کی زندگی کا مقصد صرف عوامی بیت الخلا صاف کرنے تک محدود ہی ہے۔
لیکن تبھی چند لوگوں ان کی زندگی میں مدد گار بن کر سامنے آئے اور انھیں اس تباہی کے گڑھے سے نکال کر کالج میں داخل کروا دیا۔ کترینا نے گریجویشن کی، نفسیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری مکمل کی اور کالج کی پروفیسر بن گئیں۔
ان کی کہانی سنیے انھی کی زبانی:
’میں انھیں واضح طور پر دیکھ سکتی تھی، وہ بھوتوں جیسے دکھائی دیتے تھے۔ پانچ سال کی عمر سے مجھے میرے والدین بھوت کی طرح دکھائی دیتے تھے۔ ان کی بے جان آنکھوں کے پیچھے کچھ نہیں تھا۔‘
مجھے اپنے والدین سے پیار تھا۔ اور ان کو اپنی آنکھوں کے سامنے اندر سے اور روحانی طور پر مرتے دیکھنا خوفناک تھا۔ میرے والد ایک زندہ دل، پڑھے لکھے، بذلہ سنج انسان تھے جنھوں نے اپنی زندگی برباد کر دی تھی۔
جب میں بہت چھوٹی تھی تو انھیں بستر پر خود کو نشے کی لت میں مبتلا دیکھنا بہت برا لگتا تھا۔
مجھے واضح طور پر یاد ہے کہ میں نے بیڈ روم کا دروازہ کھولا، ان کی پتلون نیچے تھی اور وہ خود کو نشے کا انجکشن لگا رہے تھے۔ میں نے انھیں بے سُد اور ٹوٹا ہوا پایا۔
میں نے زور سے ’ڈیڈی ڈیڈی‘ چیخنا شروع کر دیا اور میری آواز سن کر جان اور ان کے دوست دوڑتے ہوئے اوپر آئے۔ میں سہمی ہوئی تھی اور انھیں جگانے کی کوشش کر رہی تھی۔ میرے والد بے ہوش اور موت کے دہانے پر تھے۔
میں کمرے میں اس شخص کی لاش کے ساتھ موجود تھی جسے میں دنیا میں سب سے زیادہ پیار کرتی تھی۔
میرے والد کے دوست نے ایمبولینس کو بلایا اور مجھے اس وقت سب سے زیادہ تکلیف ہوئی جب ایمبولینس کا عملہ میرے والد کے ساتھ بُری طرح پیش آیا۔
ایمبولینس عملے کے دو افراد آئے تھے اور ہم یہ سمجھے تھے کہ وہ ان کی زندگی بچانے آئے ہیں لیکن وہ ان پر غصہ ہو رہے تھے۔ میں ان کی نظروں میں اپنے لیے نفرت دیکھ سکتی تھی کیوں کہ اس وقت میں گندی اور غلاظت میں ڈوبی ہوئی لڑکی تھی۔
ایسا ہی کچھ معاملہ میرے والد کا تھا۔ وہ میرے والد کو کوس رہے تھے۔ میں ان سے پوچھتی رہی کہ کیا میرے والد زندہ ہیں یا مر گئے ہیں لیکن انھوں نے مجھے ایسے نظر انداز کیا جیسے میں وہاں ہوں ہی نہیں۔
وہ واحد شحض تھے جو مجھے پیار کرتے تھے انھیں مجھ سے دور لے جایا جا رہا تھا۔ یہ بہت درد ناک تھا اور وہ لمحات ہیں جو عمر بھر مجھے تڑپاتے ہیں اور ان کی تکلیف کبھی نہیں جائے گی۔
میری بچپن کی یادوں میں، اپنی ماں یا والد کو ہیروئن پیتے دیکھنا معمول تھا۔ میں صبح اٹھتی تو گھر میں کھانا نہیں ہوتا تھا۔ الماری میں ایک روٹی اور کچھ چینی پڑی ہوتی تھی جس سے میں اپنے لیے چینی کا سینڈوچ بنالیتی یا چینی کی روٹی کھا لیتی۔
گھر میں لوگ سو رہے ہوتے تھے جو کل رات ہمارے گھر پر پارٹی کر رہے تھے۔ ان میں سے کچھ کو میں جانتی تھی اور کچھ کو نہیں۔ میں گھر میں شراب کے کین، سگریٹ اور منشیات کا استعمال دیکھتے ہوئی بڑی ہوئی۔
ایک مرتبہ میں ایک دوست کے ساتھ تھی تو میں نے ان کی والدہ کو اسے بلاتے، گلے لگاتے اور کھانا دیتے دیکھا۔ میں نے ان کی والدہ کو یہ تسلی کرتے ہوئے دیکھا کہ وہ ٹھیک ٹھاک ہے۔ مجھے یاد ہے کہ یہ دیکھ کر میں نے سوچا تھا کہ میری ماں ایسا نہیں کرتیں۔ ہمارے گھر میں دوپہر کا کھانا کیوں نہیں ہوتا؟ وہ مجھے گلے کیوں نہیں لگاتیں۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میری ماں مختلف تھی۔ میری ماں مجھ سے پیار نہیں کرتی تھیں۔ اور مجھے لگا یہ اس لیے ہے کہ مجھ میں کچھ کمی ہے۔
ہم نہاتے نہیں تھے اور یہ ہی مسئلہ تھا کیونکہ جب ہم سکول جاتے تو ہم سے بدبو آ رہی ہوتی۔ ہمارے پاس صاف کپڑے نہیں ہوتے تھے۔ میں اپنے دانت برش نہیں کرتی تھی۔ کبھی بال نہیں بناتی تھی اور روزانہ سکول گندے کپڑے پہن کر جاتی تھی۔ میرے انڈرویئر سے پیشاب کی بدبو آتی تھی اور بچے اس گندی بدبو کے باعث میرے ساتھ کھیلنا پسند نہیں کرتے تھے۔
ایک دفعہ گھر کے دروازے پر دستک ہوئی تو مجھے لگا میں مشکل میں ہوں۔
کیونکہ دروازے پر میرے سکول ٹیچر مسٹر پکرنگ تھے۔ انھوں نے پوچھا کیا تمھارے والد گھر پر ہیں؟ میں جانتی تھی کہ میرے والد گھر میں شراب کے نشے میں دھت ہیں۔ وہ لاؤنج میں بیٹھے شراب پی رہے تھے۔ میں نے انھیں بلایا اور جب وہ دروازے پر آئے تو میں چھپ گئی۔
میں نے اپنے ٹیچر کو والد سے کہتے سنا کہ ’میں آج پیرنٹس ٹیچر میٹنگ کے لیے آپ کا منتظر تھا۔ میں واقعی آپ کو بتانا چاہتا تھا کہ آپ کی بیٹی کتنی ذہین ہے۔ اس میں کتنی صلاحتیں ہیں۔ میرا خیال ہے آپ کو اس کی پڑھائی میں مدد نہ کرنے پر شرم آنی چاہیے۔‘
میں اپنے والد کی شرمندگی میں ادا کیے گئے الفاظ سن سکتی تھی۔
یہ وہ لمحہ تھا جب مجھے لگا میرے ٹیچر کچھ زیادہ ہی آگے نکل رہے ہیں کیونکہ وہ میرے گھر کے حالات کے بارے میں بہت کم جانتے تھے، کم ہی ہمارے گھر آتے تھے اور اس طرح میرے والد کو شرمندہ کر رہے تھے۔ مجھے ان سے بہت حوصلہ ملا لیکن گھر کے سب مسائل کے ساتھ میں سکول میں فیل ہونا شروع ہو گئی۔
میں ایک غصیلی بچی تھی۔ ایک باغی نو عمر، میں کسی کو اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ مجھے بتائے کہ میں نے کیا کرنا ہے۔
میں 13 برس کی عمر سے ہی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث تھی۔ سکول روزانہ جاتی تھی لیکن کبھی کبھی وہاں سے بھاگ جاتی تھی اور دکانوں کے گرد چکر لگاتی، شراب پیتی اور ویک اینڈ پر نشہ کرتی۔
میں نے یہ سارے غلط کام کیے، حالانکہ اسی وقت مجھے لگتا تھا کہ میں اچھا بننے کی کوشش کروں گی۔ 15 سال کی عمر میں، ان بُرے کاموں کے باوجود، میں اب بھی بھولی تھی۔ ایک دن میں ایک دوست کے ساتھ حمل کا ٹیسٹ کروانے گئی تو انھوں نے میرا بھی ٹیسٹ کیا۔
’کترینا یہ مثبت ہے‘، جو خاتون میرا خیال رکھتی تھی نے مجھے پریشانی میں بتایا۔ جب کہ مجھے لگا کہ مثبت ہونا کوئی اچھی بات ہے تو میں نے جواب دیا کہ ’یہ تو بہت شاندار ہے شکریہ۔‘
’نہیں نہیں یہ مثبت ہے‘۔
’جی شکریہ! میں خوش ہوں۔‘
’کترینا تم حاملہ ہو۔‘
’او خدایا، میں جانتی تھی کہ اس لمحے کے بعد میں اب دوبارہ کبھی سکول نہیں جا سکوں گی۔ بڑھے پیٹ کے ساتھ اساتذہ کا سامنا کرنا ممکن نہیں تھا۔‘
میں اب دوبارہ سکول نہیں جا سکتی۔
میں ایک فون بوتھ پر گئی اور اپنے بوائے فرینڈ کو فون کیا۔ میں نے انھیں بتایا کہ میں حاملہ ہوں اور اس کا جواب تھا ’کیا آپ مجھے بعد میں فون کر سکتی ہیں؟ میں تھک گیا ہوں۔‘
اور اس طرح، احساس تنہائی کے ساتھ میں بیٹھ گئی، پشت پیچھی کو لگائی اور کہا،’میں اب مزید جد و جہد نہیں کر سکتی، میں بہت دور نکل آئی ہوں۔‘
مجھے یاد ہے کہ ایک دن میں گھر آئی تو سب کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مجھے اندازہ بو گیا کہ کچھ غلط تھا کیونکہ میرے بھائی کی آنکھیں سرخ تھیں۔ میری ماں اور والد نے کہا کہ میں وہاں نہیں رہ سکتی ’ہم چاہتے ہیں کہ تم چلی جاؤ۔‘ اور انھوں نے مجھے باہر نکال دیا۔ میری زندگی کا وہ دور سب سے مشکل تھا۔
میں ایک پناہ گاہ میں رہنے گئی، جہاں کوئی مجھ سے ملنے نہیں آتا تھا۔ میں اکیلی تھی، مکمل طور پر اکیلی۔
ایک دن دروازے پر دستک ہوتی ہے، میں نے دیکھا ہوں یہ پکرنگ تھے، جو مجھے ایک بار پھر حیران کر رہے تھے۔
انھوں نے کہا ’میں آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوں، میں نے سب انتظام کر لیا ہے، آپ ہفتے میں دو دن سکول آسکتی ہیں اور آپ ہائی سکول مکمل کرنے کے لیے زبان، ادب اور ریاضی کی کلاسیں لے سکتی ہیں۔ بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک جگہ ہے، لہٰذا آپ یہ کر سکتی ہیں۔‘
میں نہ کرنا چاہتی تھی، میں سکول نہیں جا سکتی، میرا ایک بچہ ہے، لیکن ایسا لگتا تھا جیسے اس شخص نے مجھ پر یقین کیا، مجھے کوشش کرنی ہوگی کیونکہ وہ مجھ پر یقین رکھتا ہے۔ تو میں نے حامی بھر لی۔
میں نے یہ کر بھی لیا اگرچہ ہائی سکول کے بعد میں پہلے کی طرح غریب عورت بن گئی اور شراب نوشی، منشیات اور نشے کی لت میں مبتلا ہو گئی، لیکن میں اس حوصلے کو استعمال کرنے سے قاصر تھی جو پڑھائی نے مجھے اپنی زندگی کو تبدیل کرنے کے لیے دیا تھا۔
میں اپنی ماں جیسی نہیں بننا چاہتی تھی۔ میں بہتر ہونا چاہتی تھی۔ لہٰذا میرے بیٹےکے وجود نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ جذباتی طور پر اور زندگی میں کس طرح بہتری لائی جائے۔
اس وقت،میں ٹرین سٹیشن پر صفائی کا کام کرتی تھی۔ یہ سب سے گندی جگہ تھی جسے آپ اپنی زندگی میں دیکھ سکتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میں بیت الخلا کی صفائی کرتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ ’ کیا یہی زندگی ہے؟ ‘
میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتی تھی جس نے کچھ مختلف کیا ہو۔ میں اپنے جیسے کسی ایسے شخص کو نہیں جانتی تھی جو کالج گیا ہو۔ میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتی تھا جس سے میں تعلق رکھ سکوں۔
ڈبلن میں میری ملاقات ایک پرانی دوست سے ہوئی جو ٹرینیٹی کالج میں زیر تعلیم تھیں۔ وہ میرے جیسے غریب پس منظر رکھتی تھیں لہٰذا میں نے سوچا ’اگر وہ یہ کر سکتی ہے، تو میں بھی یہ کر سکتی ہوں‘۔
میں ٹرینیٹی کالج کی پرنسپل کے دفتر گئی، میں نے کہا ’کیرن میری دوست ہے اور اس نے مجھے بتایا کہ وہ یہاں پڑھ رہی ہے۔ مجھے پڑھنا پسند ہے اور میں اپنی زندگی کو تبدیل کرنا چاہتی ہوں۔‘
انھوں نے مجھے بٹھایا اور مجھے اپنی کہانی سنانے کو کہا۔ میں نہیں جانتی تھی کہ یہ ٹرینیٹی کالج میں داخلے کے لیے یہ میرا انٹرویو تھا۔
پھر سے کلاس روم میں واپس آکر میں نے محسوس کیا کہ میں صحیح راستے پر ہوں۔ میرے پاس صلاحیت ہے، حیرت انگیز صلاحیت ہے۔ انھیں صرف مجھے بااختیار بنانا تھا تا کہ میں اس کا استعمال کر سکوں۔ مجھے علاج کے لیے کورس کرنا پڑا، پھر میں نے نفسیات میں ڈگری حاصل کی، اعزازات کے ساتھ گریجویشن کی، اور بعد میں ڈاکٹریٹ مکمل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجھے میری یونیورسٹی نے وہاں پڑھانے کی دعوت دی۔
میں جو بھی لیکچر دیتی ہوں، میں اپنی کہانی سے شروع کرتی ہوں۔ میں انھیں بتاتی ہوں کہ میں کہاں سے آئی ہوں، میرا خاندان کیا ہے، اور میں کیسے بڑی ہوئی ہوں۔
میں مختلف محسوس کرتی ہوں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ مجھے اس حوالے سے بھی سچا ہونے کی ضرورت ہے کہ میں کون ہوں تا کہ لوگوں کے اس بات کو قابلِ یقین بناؤں کہ لوگ جان سکیں کہ میرے جیسے لوگ بھی دوسروں کی طرح ہی کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں۔