پاکستانفیچرز

’خوش قسمتی‘ کی علامت کروڑوں روپے مالیت والی ’سوا‘ مچھلی، جس نے کراچی کے ماہی گیروں کو لکھ پتی بنا دیا

Share

کراچی کے ماہی گیروں نے 18 کروڑ روپے مالیت کی 10 ٹن ’سوا‘ مچھلی کا شکار کیا ہے۔ اس قیمتی مچھلی کے شکار سے 25 ماہی گیر راتوں رات لکھ پتی بن گئے ہیں۔

بحیرہ عرب میں ماہی گیروں نے مچھلی سے بھری ہوئی لانچ کی تصویر بھی شیئر کی، جس میں ان کے چہرے پر خوشی صاف نظر آ رہی ہے۔

حکومت سندھ کے ماہی گیروں کے فلاح کے ادارے فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے چیئرمین زاہد بھٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ سوا مچھلی کے چھوٹے بڑے ایک ہزار دانے اور وزن 10 ٹن تھا۔

مہران شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ مچھلی سر کریک کے قریب حجامڑو کریک سے شکار کی گئی تھی۔ ان کے بقول ایکسپورٹ پروسیسنگ والی کمپنیاں مچھلی کی خریدار ہوتی ہیں جو اس کو بیرون ملک فروخت کرتی ہیں۔

لیکن زاہد بھٹی کے مؤقف کے برعکس ماہی گیروں کی تنظیم پاکستان فشر فوک کے رہنما مہران شاہ کا کہنا ہے کہ انھیں ’سوا‘ مچھلی کا شکار کرنے والے ماہی گیروں نے بتایا تھا کہ انھیں 80 کروڑ کی پیشکش ہوئی اور مچھلی کے دانے 1500 سے بھی زیادہ تھے۔

زاہد بھٹی کے مطابق یہ مچھلی ایک لانچ میں پکڑی گئی تھی، جس میں 25 ماہی گیر سوار تھے۔

مہران شاہ کے مطابق جو بھی شکار ہوتا ہے اس کا نصف لانچ کا مالک رکھتا ہے اور اس کے بعد اس کے تیل، اس میں سوار ماہی گیروں کے راشن سمیت دیگر خرچہ نکال کر جو رقم بچتی ہے اس میں سے ہر ماہی گیر کو حصہ ملتا ہے اور ’سوا‘ مچھلی کے شکار کی صورت میں یہ شیئر لاکھوں روپے بن جاتا ہے۔

سوا مچھلی
،تصویر کا کیپشن(فائل فوٹو)

سوّا مچھلی اتنی قیمتی کیوں؟

ماحول کی بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے معاون محمد معظم کے مطابق ’سوا‘ مچھلی کروکر نسل سے تعلق رکھتی ہے۔

اس کو سندھی میں ’سوّا‘ اور بلوچی میں ’کر‘ کہا جاتا ہے جبکہ اس کا سائنسی نام ارگائیروسومس جیپونیکس ہے۔

اس کا سائز ڈیڑھ میٹر تک ہو سکتا ہے جبکہ وزن 30 سے 40 کلو بھی ہو سکتا ہے۔ یہ پورا سال ہی پکڑی جاتی ہے لیکن نومبر سے مارچ تک اس کی دستیابی آسان ہو جاتی ہے کیونکہ یہ بریڈنگ سیزن ہے۔

مچھلی کی برآمد سے وابستہ اخلاق عابدی کا کہنا ہے کہ یہ ہانگ کانگ ایکسپورٹ کی جاتی ہے اور انھوں نے سن رکھا ہے کہ اس میں ایک قسم کا دھاگہ نکلتا ہے جو آپریشن میں لگائے جانے والے ٹانکے بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے معاون محمد معظم کے مطابق سوا مچھلی کے مہنگے ہونے کی وجہ اس میں موجود ایئر بلیڈر ہے جسے مقامی زبان میں ’پوٹا‘ کہتے ہیں۔

اس کے ذریعے یہ پانی میں اوپر نیچے آتی جاتی ہے۔ یہ بلیڈر تمام مچھلیوں میں ہوتے ہیں لیکن کروکر میں تھوڑے موٹے اور تندرست ہوتے ہیں۔

’پوٹے کی چینی روایتی کھانوں میں بڑی اہمیت ہے۔ اس کے علاوہ یہ شان و شوکت کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔ جس طرح ہمارے یہاں لوگ گھروں میں سونا رکھتے ہیں، چینی اس سوکھے پوٹے کو اپنے گھر میں رکھتے ہیں۔‘

’فرض کر لیں کہ ہمیں جب ضرورت پڑتی ہے تو ہم سونا فروخت کر دیتے ہیں۔ اس طرح چینی بوقت ضرورت اس کو فروخت کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے سوا مچھلی کی قیمت بہت زیادہ ہوجاتی ہے۔‘

چین کی بعض روایتی ادویات میں بھی سوّا کے پوٹے کے استعمال کا حوالہ ملتا ہے جس میں جوڑوں کے درد اور جنسی کمزوریاں شامل ہیں۔

غیر سرکاری تنظیم گرین پیس ایشیا کے مطابق ہانگ کانگ میں اس بلیڈر کی قیمت دو لاکھ ہانگ کانگ ڈالر ہے۔ ایک تحقیقی مقالے کے مطابق خاص مواقع پر اسے کھانوں میں استعمال کیا جاتا ہے اور بعض اوقات بطور کرنسی بھی اس کا لین دین ہوتا ہے۔

سنہ 2008 میں عالمی مالی بحران کے دوران لوگوں نے اس بلیڈر میں سرمایہ کاری کی تھی۔

واضح رہے کہ چین میں بعض مچھلیوں کی اقسام کو خوش قسمتی کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔ مچھلیوں کا جوڑا بدھ مت کی آٹھ علامات میں بھی شامل ہے۔

چین کے نئے سال کی علامات میں مقبول ایک علامت میں ایک بچے نے بڑی گولڈ فش اور کنول کا پھول اٹھا رکھا ہے۔

پاکستان میں سوّا کہاں پائی جاتی ہے؟

پاکستان میں سوّا سندھ اور بلوچستان کی سمندری حدود میں پائی جاتی ہے۔ ساحلی علاقے، کھاڑیاں اور کھلا سمندر اس کی آماجگاہ ہے۔

ٹھٹہ کے صحافی غلام حسین خواجہ کے مطابق اس مچھلی کی تلاش میں کئی بار کاجھر کریک سے پاکستانی ماہی گیر انڈین نیوی کے ہاتھوں گرفتار ہو چکے ہیں۔

کاجھر کریک سر کریک کے قریب واقع ہے جو پاکستان اور انڈیا کے درمیان متنازع علاقہ سمجھا جاتا ہے۔

محمد معظم کے مطابق سوّا کی خوراک میں جانور اور چھوٹی مچھلیاں شامل ہیں۔ یہ غول کے ساتھ رہتی ہے اور کبھی کبھار ان کا پورا غول ہی جال میں آجاتا ہے۔