پی آئی اے کا سفر، تقویٰ اورکفایت ہمرکاب ۔۔۔
ذرا بیان اس سفر کا بھی ہوجائے کہ جب میں چند روز قبل کراچی سے پی آئی اے کےہوائی چھکڑے المعروف ایئر بس پہ لد کر اسلام آباد پہنچا تھا اور جب بھی کبھی اس سفر کا وہ ایک دلچسپ منظر یاد آتا ہے تو قہقہ سا نکل جاتا ہے کیونکہ میرے ساتھ بیٹھے شخص کو جب کھانا پیش کیا گیا اور اس نے سامنے کی نشست کی پشت میں لگی اپنی کھانے کی میز کو سیدھا کیا تو اسکے نیچے کے دو بریکٹوں میں سے ایک یعنی بائیں ہاتھ کی بریکٹ ٹوٹی پائی اور میز کی ٹرے لڑھکتی محسوس کی تو اس نےاس مسئلے کا فوری حل یہ نکالا کہ اسے نیچے سے جھٹ اپنی بڑی سی تندوری توند کا سہارا دیدیا تھا اور یوں اس مصالحانہ جگاڑ سے پی آئی اے ایک بڑے ‘ بحران’ سے بچ گئی تھی ۔۔ اور مجھے پہلی بار توند کا کوئی فائدہ بھی معلوم ہوا ۔۔۔ لیکن سب ہی مسافر تو مہیب توند کی دولت سے مالا مال نہیں ہواکرتے وہ اگرایسی سچویشن میں پھنستے تو بھلا کیا کرسکتے تھے سوائے اسکے کہ ٹوٹی میزبند واپس بند کرکے کھانے کو جھولی ہی میں بھر لیں اور جہاز ہی میں بیٹھے بیٹھے درگاہی لنگر کا مزہ پائیں
میں نےاس فلائٹ کو چھکڑے کا نام اس لیئے دیا کہ یہاں آدمی پہ آدمی چڑھا ہؤا تھا ( خدارا ذہن اور نیت کو صاف رکھیں) اور دائیں بائیں 3-3 نشستوں کے درمیان سے نکلتا راستہ اس قدر تنگ تھا کہ ذرا صحتمند آدمی اس میں سے گزرے تو باری باری اپنے دائیں بائیں کولہوں سے دونوں طرف کے کنارے کے مسافروں کودوستانہ سا تھپتھپائے بغیر آگے نہ جا پائے۔۔ اس تنگ رستے کو دیکھ کے کراچی کی رنچھوڑ لائن یا پرانے لاہور کی گلیاں بے طرح یاد آتی تھیں جہاں سے جنازہ بھی اتنا ترچھا کرکے گزارا جاتا ہے کہ لگتا ہے آخرت کے مسافر کی یہیں زمین پہ پلٹائی مقصود ہے ۔۔۔ – -میری فلائٹ میں شاید مسافروں کے دھیان بھٹکنے اور لوگوں کو گمراہی سے بچانے کے لیئے ایئر ہوسٹسوں کو کچن کےدروازے ہی پہ روکے رکھا گیا تھا اور کھانے پینے کی تقسیم کے لیئے اسٹیوارڈ کی وردی میں ملبوس ایک ایسے مکمل اور ایک ادھورے گنجے کو چھوڑا گیا تھا کہ جنہیں دیکھ کر ہی بھوک اڑجاتی تھی اور ممکن ہے کہ یہ روح فرسا نظارہ کسی ایسے ہی سوچے سمجھے کفایتی اقدام کا حصہ رہا ہو ۔۔۔اور شاید اسی لیئے کئی مسافروں نے کھانا لیا بھی نہیں ۔۔۔ انہی دو میں سے ایک اسٹیوارڈ نے سفر آغاز ہوتے ہی سیٹ بیلٹ باندھنے اور سیفٹی اقدامات کے بارے میں اک حفاظتی مجرا سا بھی پیش کیا لیکن مجال ہے کہ اس فرض شناس کی طرف کسی نے آنکھ اٹھا کر بھی جو ذرا دیکھا ہو ۔۔۔
حالانکہ لوگوں کی تسکین قلب کے لیئے پونے دوگھنٹے کا سفر ختم ہونے سے ذرا پہلے ایک ائرہوسٹس نما کوئی چہاڑ پہاڑ سی خاتون ذرا دیر کو اندر آئی بھی تھی لیکن اکثر لوگوں نے دل پکڑنے کے بجائے سر پکڑ لیئے کیونکہ اگر یہ فضائی بی بی کسی خرانٹ افسر کی اس سے بھی زیادہ خرانٹ پھپھو نہ معلوم ہورہی ہوتی تو بلاشبہ اسکی تازہ جنس کا تعین کرنا بھی دشوار تھا اور اس میں کیا شک ہے کہ ایسا غیرجانبدار جغرافیہ رکھنے والی کوئی بھی خاتون عموما خطرات سے مامون ہی رہتی ہے- یہاں پیش کیئے گئے کھانے کے معیار کا معاملہ بھی نہ پوچھیئے ، بس چکن پلاؤ پکاتے پکاتے درمیان میں کفایت شعاری کا جذبہ آلو چاول پکوادے تو ویسا ہی کچھ بنا کرتا ہے کہ جیسا ہمیں کھا مرنے کو تھما دیا گیا تھا البتہ حاتم طائی کی قبر پہ لات مارت ہوئے کھانے کے ساتھ ٹشوضرور رکھا گیا تھا ۔۔۔ خدشہ ہے کہ آے پی آئی اور خسارے میں گئی تو یہ ٹشو بھی نہ ملے گا بس کوئی اسٹوارڈ ہی آکر ایک تولیئے سے سب کے منہ پونچھ دیا کرے گا۔۔۔