قہقہے نہیں لگاؤ گے تو مر جاؤ گے!
سلویٰ اس وقت تین سال کی ہے، اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ پناہ گزیں ہے۔ اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ جنگ کیا ہوتی ہے۔ اسے بس یہ سکھایا گیا ہے کہ دھماکے کی آواز سن کر روتے نہیں ہنستے ہیں۔ کیونکہ دھماکہ ایک کھیل ہے اور کھیل ڈرنے کے لیے نہیں بلکہ انجوائے کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ جتنا شدید دھماکہ ہو اتنا ہی زور سے ہنسنا چاہیے۔
یہ کھیل سلویٰ کو اس کے والد عبداللہ المحمد نے دو برس پہلے چھوٹی عید پر سکھایا، جب گلی میں بچے عید کی خوشی میں پٹاخے چلا رہے تھے اور ایک برس کی سلویٰ ڈر رہی تھی۔
عبداللہ کو خیال آیا کہ یہاں تو ہر وقت طرح طرح کے دھماکوں کی آوازیں آتی رہتی ہیں، تو کیا سلویٰ مسلسل ڈرے گی اور نفسیاتی مریض بن جائے گی۔
چنانچہ عبداللہ نے اپنی بیٹی کے لیے ڈر اور خوشی کے معنی ہی بدل دیے یعنی دھماکے کا مطلب ہے بچوں کا کھیل اور کھیل کا مطلب ہے خوشی۔ جتنا بڑا دھماکہ اتنا بڑا قہقہہ۔
مگر اب سلویٰ تین سال کی ہو گئی ہے۔ اسے ہوائی جہاز کی آواز اور پٹاخے، بم اور میزائیل کے دھماکے کی آواز میں فرق کرنا آ گیا ہے۔ اس فرق نے اس کے اندر دوبارہ ہلکا ہلکا ڈر پیدا کر دیا ہے۔ مگر اسے اور اس کے باپ کو پچھلے دو برس میں ہنسنے کی اتنی عادت پڑ چکی ہے کہ دھماکہ سنتے ہی دونوں خود بخود ہنس پڑتے ہیں اور ایک دوسرے سے اپنا ڈر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔
جب دھماکہ کہیں بہت ہی قریب یا اس کی آواز ناقابلِ برداشت ہو تو ننھی سلویٰ سہم کے چپ ہو جاتی ہے۔ پھر اچانک اسے خیال آتا ہے ارے اس پر تو ہنسنا ہوتا ہے اور اسے یکدم قہقہہ لگانے کا سبق یاد آ جاتا ہے۔
سلویٰ کے والد کا کہنا ہے کہ شاید ایک آدھ برس میں سلویٰ کو یہ ڈرامہ پوری طرح سمجھ میں آ جائے گا۔ شاید اس کے بعد وہ قہقہے لگانا چھوڑ دے مگر جب تک ہم اسے اندرونی ٹوٹ پھوٹ سے بچا سکتے ہیں تب تک تو پوری کوشش کریں گے۔ ہم نو برس سے دنیا کو پیغام دے رہے ہیں کہ ہمیں بچا لو مگر اب ہم تھک چکے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کے لیے ایک زندگی کے سوا کچھ نہیں مانگ رہے۔ کیا یہ بہت بڑا مطالبہ ہے؟
سلویٰ اپنے والد والدہ کے ساتھ شام کے محاصرہ زدہ شہر ادلب میں تھی جب دو ہفتے پہلے اس کی قہقہے لگانے والی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔
ادلب آج بھی مسلسل روسی اور شامی فضائیہ کی بمباری اور محاصرے کی زد میں ہے۔ اب تک اس علاقے سے نو لاکھ افراد اگلی پناہ کی تلاش میں نکل چکے ہیں۔ معلوم نہیں سلویٰ اور اس کے والدین بھی اس ایک اور ہجرت کا حصہ ہیں یا ابھی تک ادلب میں موجود ہیں اور زندہ ہیں اور ہر دھماکے پر قہقہے لگا رہے ہیں۔
دھماکوں کو دلچسپ کھیل سمجھ کے قہقہے لگانے کی اس تربیتی ویڈیو سے پتہ چلتا ہے کہ آج کے دور میں المیہ اور طربیہ کے معنی بدل چکے ہیں۔ انسان کی بے بسی اور خود مختاری کی حدود دھندلا چکی ہیں، جبلت اور جبر کی حدود خلط ملط ہو گئی ہیں۔ زندگی میں موت کے انتظار کے سوا بھی بہت کچھ ہے پر شاید اب یہ بات بھی پرانی ہو رہی ہے۔
شاید کچھ عرصے پہلے تک انسان کے پاس خوش رہنے یا ڈرنے، ہنسنے یا رونے کا تھوڑا بہت اختیار تھا، شاید وہ بھی چھن گیا ہے۔ اب بس ایک ہی راستہ ہے۔ تین سالہ سلویٰ اور اس کے والد کی طرح ہر حال میں خوش رہنے کی اداکاری کرنا۔ اگر زندگی یہی ہے تو پھر موت کیا ہے؟
میرے دوست اور سینیر ساتھی شاہد ملک کو جب لگ بھگ دس برس بعد بی بی سی لندن سے لاہور ٹرانسفر کیا گیا تو سال بھر بعد میری ان سے لاہور میں ملاقات ہوئی۔ پوچھا ملک صاحب کیا آپ لاہور کے عادی ہو گئے ہیں یا ہو رہے ہیں؟
ملک صاحب نے فرمایا کہ بس شروع کا ایک ہفتہ لگا اس نتیجے پر پہنچنے میں کہ زرا سی بے حسی سیکھنی ہے، گاڑی کے شیشے بند رکھنے ہیں اور ہر بات پر ہنس پڑنا ہے۔ اس کے بعد سے زندگی بہت اعلیٰ ہو گئی ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ پچھلے ڈیڑھ برس سے بالخصوص ہم سب کے پاس سوائے قہقہوں کے انجکشن لگا کے ٹائم پاس کرنے کے کوئی آپشن ہی نہیں بچا۔
آج کا دن بھی عیش سے گزرا
سر سے پا تک بدن سلامت ہے (جون ایلیا)