منتخب تحریریں

ٹرمپ کی بھارت میں اسلامی دہشت گردی کے تذکرے کے ساتھ پاکستان کی ’’تعریف‘‘

Share

سانپ کاڈسا رسی سے بھی خوف کھاتا ہے۔میری نسل کے پاکستانیوں کا امریکہ کے حوالے سے یہ ہی عالم ہے۔1971میں ملکی اور غیر ملکی اُمور پر غور کی عادت اپنائی تھی۔ اس برس ہمارے مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک چلی۔بھارت اس کی بھرپور فوجی معاونت میں مشغول ہوگیا۔بالآخر ہمارے خلاف باقاعدہ جنگ برپا کردی گئی۔اس جنگ کے آخری ایام میں پاکستانی میڈیا تواتر سے ہمیں یہ امید دلاتا رہا کہ ’’پاکستان کو بچانے‘‘امریکہ کا جدید ترین اسلحے سے لیس ’’ساتواں بحری بیڑہ‘‘ خلیج بنگال کی جانب بڑھ رہا ہے۔وہ جہاز تو پہنچ نہ پایا۔ 16دسمبر1971کے منحوس دن مگر مشرقی پاکستان ہم سے چھن گیا۔

امریکی صدر ٹرمپ نے گجرات کے شہر احمد آباد میں پیر کے روز بھارتیوں کے ایک ہجوم سے خطاب کیا۔ میں نے اس کی تقریر کے ہر لفظ کو نہایت توجہ سے سنا ہے۔اس کی تقریر کے بعد اپنے ذہن میں اٹھے سوالات کا جواب پانے کے لئے اس کی تقریر کے کئی حصے تین بار سنے۔امریکی وزارتِ خارجہ نے ٹویٹس کے ذریعے اس کی تقریر کے جو حصے دُنیا کے سامنے ہائی لائٹ کئے ہیں انہیں بھی غور سے پڑھا ہے۔صحافتی زندگی کے 20سے زیادہ برس خارجہ امور کے بارے میں متحرک رپورٹنگ کی نذر کئے ہیں۔1986میں امریکی اخباروں کی ایک تنظیم کی دعوت پر فلیچر سکول آف لاء اینڈ ڈپلومیسی میں سفارتی امور کو صحافتی زبان میں سمجھنے اور سمجھانے کا ہنر سیکھنے میں 6ماہ کا ایک طویل کورس بھی کیا ہے۔

میرا تجربہ اور مشقت اس دعویٰ کو تسلیم کرنے سے ڈھٹائی کی حد تک انکاری ہے کہ ٹرمپ نے اپنے خطاب کے دوران پاکستان کی ’’تعریف‘‘ کی ہے۔حقیقت فقط اتنی ہے کہ اس نے بھارتی عوام کو خوش کرنے کے لئے میرے ملک کو اس انداز میں تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جس کی وہ توقع باندھے ہوئے تھے۔

ہمارے وزیر اعظم کی طرح ٹرمپ بھی ’’پرچی کے بغیر‘‘ تقریر کے فرمانے کا عادی ہے۔احمد آباد میں خطاب کرتے ہوئے مگر وہ Prompterپر میسر متن سے ایک لمحے کو بھی نہ ہٹا۔ اس کی تقریر کا متن بہت مہارت سے تیار ہوا تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ پیر کے روز ہوئی تقریر فقط ٹرمپ کے ذاتی خیالات کا اظہار نہیں تھی۔اس کے ذریعے امریکی ریاست اور اسٹیبلشمنٹ نے جنوبی ایشیاء کے بارے میں اپنی ترجیحات واہداف کو واضح طورپر بیان کردیا ہے۔

پاکستان کی ’’تعریف‘‘ سے قبل سینہ پھلاکر بڑھک یہ لگائی جاتی ہے کہ Radicalاسلام کی بنیاد پر پھیلائی ’’دہشت گردی‘‘ کا امریکہ اور بھارت یکسوہوکر مقابلہ کریں گے۔ ان دو ممالک کی ’’مشترکہ اقدار (Shared Values)‘‘اور ترجیحات کا تفصیلی ذکر کرنے کے بعد ٹرمپ بھارت کو یقین دلاتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات اب بہت بہتر ہوگئے ہیں۔تعلقات میں ’’بہتری‘‘ اس لئے آئی کیونکہ پاکستان نے ٹرمپ انتظامیہ کی خواہش (دبائو) کی وجہ سے ’’اپنی سرزمین‘‘ پرموجود ’’دہشت گردوں‘‘ کو ختم کردیا ہے۔

سادہ ترین الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ٹرمپ مودی اور اس کے جنونی پرستاروں کو یقین دلارہا تھا کہ ’’میں ہوں ناں‘‘۔فکر نہ کرو۔ پاکستان ٹرمپ کی کوششوں کے باعث اب مبینہ دہشت گردی کا ’’سرپرست‘‘ نہیں رہا۔بھارت کو پاکستان سے اب ’’خیر‘‘ کی خبریں ہی آئیں گی۔ بالآخر ایسا ماحول پیدا ہوجائے گاجو جنوبی ایشیاء کے ممالک کو ایک دوسرے سے دوستانہ روابط بڑھانے کی ترغیب دے گا۔

عقل سے قطعی محروم کوئی شخص ہی یہ توقع باندھے ہوئے تھا کہ ٹرمپ احمد آباد کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف بدکلامی کی جرأت کرے گا۔آج سے چند ہی دن بعد 29فروری کو ٹرمپ بے چینی سے اس معاہدے کا انتظار کررہا ہوگاکہ جس کے ذریعے طالبان اسے امریکی افواج کی افغانستان سے ’’باعزت واپسی ‘‘کی امید دلائیں گے۔پاکستان نے متوقع معاہدے کو ممکن بنانے کے لئے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔متوقع معاہدے پر دستخط کے باوجود اس پر کامل درآمد کے لئے ڈیڑھ سے دو برس درکار ہوں گے۔ ان ایام میں بھی پاکستان کا کردار کلیدی ہوگا۔

احمد آباد میں محض اجتماع کو خوش کرنے کے لئے پاکستان کو ہذیانی بدکلامی کا نشانہ بناتے ہوئے ٹرمپ افغانستان کے حوالے سے کئی مہینوں سے لگائی گیم کو اپنے ہاتھوں تباہ کردیتا۔افغانستان پر 18برس سے مسلط جنگ کا ’’خاتمہ‘‘ ٹرمپ کی ترجیح رہا ہے۔29فروری 2020کے دن ہونے والا معاہدہ اسے نومبر2020کا صدارتی انتخاب جیتنے میں بے تحاشہ مدد فراہم کرے گا۔ٹرمپ پنجابی محاورے والا ’’گھر کا پکا‘‘ ہوتے ہوئے اپنی انتخابی مجبوریوں کی وجہ سے پاکستان کے خلاف بدکلامی سے اجتناب کومجبور تھا۔ اس کے اجتناب کو خدارا پاکستان کی ’’تعریف‘‘ بناکر نہ دکھائیں۔مجھ بدنصیب کو ایک اور ’’ساتویں بحری بیڑے‘‘ کے انتظار کی امید نہ دلائیں۔

امریکی صدر نے پاکستان کی جانب سے ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف لئے اقدامات کی محض ’’تعریف‘‘ ہی سے بھارتیوں کو مطمئن کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ دفاعی اعتبار سے اسے توانا تر بنانے کے لئے 3ارب ڈالر کی خطیر رقم کے عوض جدید ترین اسلحہ فراہم کرنے کی راہ بھی دکھائی ہے۔ایک ماہر سیلز مین کی طرح اس نے بھارت کو امریکی ڈرون طیارے خریدنے کو اُکسایا ہے۔ایسے دفاعی نظام کی جھلک بھی دکھلائی ہے جو دشمن ملک سے آئے میزائلوں کو فضا میں ہی بے اثر بنادیتا ہے۔فی الوقت ایسا نظام فقط اسرائیل کے ہاں نصب ہے۔

امریکی صدر کے خطاب کا کلیدی پیغام یہ بھی تھا کہ بھارتیو پاکستان کی فکر نہ کرو بلکہ چین کی طرف توجہ دو۔ امریکہ کے ساتھ مل کر اس کے عالمی پھیلائو کو روکنے کی تیاری کرو۔دُنیا کو بتادو کہ دو ’’جمہوری ممالک‘‘ امریکہ اور بھارت-باہم مل کر ایک ’’آمرانہ‘‘ یعنی چینی کمیونسٹ نظام کوویسے ہی ناکام بناسکتے ہیں جیسے 1990کی دہائی میں پاکستان جیسے اتحادیوں کے ساتھ مل کر امریکہ نے سوویت یونین کو دُنیا کے نقشہ سے مٹادیا تھا۔Big Gameکی جانب آئو۔امریکہ کے ساتھ مل کر بحرِ ہند میں چین کو پرپھیلانے نہ دو۔

احمد آباد میں اپنے خطاب کے ذریعے امریکی صدر نے بھارتیوں کی حقیقی معنوں میں حوصلہ شکنی کی ہوتی تو پیر ہی کے روز دلی کے مسلمان علاقوں میں وہ وحشیانہ غنڈہ گردی دیکھنے کو نہ ملتی جو کئی گھنٹوں تک جاری رہی۔اس کالم میں مسلمان عورتوں کی جانب سے شاہین باغ میں دئیے دھرنے کا بارہاذکر ہوا۔یہ باغ دلی کے شمال مشرقی علاقے میں ہے۔یہ علاقہ کسی زمانے میں دریائے جمنا سے ملحق ہوا کرتا تھا۔آبادی کے پھیلائو نے اسے انسانوں سے آباد کردیا ۔قدیم دلی سے مسلمان گھرانے یہاں کثیر تعداد میں منتقل ہوئے ہیں۔ جامعہ ملیہ بھی اسی علاقے میں ہے جہاں سے مسلمان بچیوں نے تاریخ ساز بہادری کے ساتھ شہریت والے قانون کے خلاف مزاحمت کا آغاز کیا تھا۔مسلم اور ہندواکثریتی محلے اس علاقے میں ’’جنگی بنیادوں‘‘ پر تقسیم ہوچکے ہیں۔بیروت والی کیفیت ہے جہاں مسلم اور مسیحی محلوں میں واضح تفریق فی الفور نظر آجاتی ہے۔

اتوار کے دن مودی سرکار کی انتہا پسند جماعت کے ایک سنگھی جنونی-کپل شرما-نے اس علاقے میں جلسے کئے اور ہندوآبادی کو ’’غداروں کو گولی مارو‘‘جیسے نعروں سے اشتعال دلایا۔ احمد آباد میں ٹرمپ کا جلسہ شروع ہونے سے تھوڑی دیر قبل ہندوانتہاپسندوں کے جتھوں نے غول کی صورت مسلمان محلوں کی جانب بڑھنا شروع کردیا۔پولیس خاموش تماشائی کی صورت لاتعلق رہی۔مسلمانوں نے خود حفاظتی کی راہ اختیار کی تو مسلمانوں کی دوکانوں اور مارکیٹوں کو جلادیا گیا۔

ٹرمپ کے احمد آباد والے جلسے سے مسحور ہوابھارتی میڈیا دلی میں ہندومسلم فساد کے ٹھوس انداز میں ابھرتے امکانات کونظرانداز کرتا رہا۔فقط سوشل میڈیا پر مسلمان اور سوشل سوسائٹی کے نمائندے ہی فریاد کرتے رہے۔بالآخر مین سٹریم بھارتی میڈیا پر ایک مسلمان نوجوان کی تصویر پھیلائی گئی۔اس کا نام شاہ رخ بتایا گیا۔اس نوجوان کی چھوٹی داڑھی بھی تھی۔وہ ایک دیوار کے عقب میں کھڑا ہاتھ میں پستول لئے گولیاں چلاتادکھایا گیا۔

دریں اثناء خبر یہ پھیلی کہ بظاہر مسلمانوں کے ’’بلوے‘‘ کی وجہ سے دلی پولیس کا ایک حوالدار ہلاک ہوگیا ہے۔متعصب میڈیا مینجمنٹ کے ذریعے پورے بھارت میں تاثر یہ پھیلانے کی کوشش ہوئی کہ غالباََ ٹرمپ کی بھارت آمد کی وجہ سے لگی ’’رونق‘‘ کو خراب کرنے ’’مسلمان بلوائی‘‘ اسلحہ کی مدد سے ہندومسلم فساد کا ماحول بنارہے ہیں۔یہ کہانی Establishکرنے کے بعد ہی پولیس کو حالات پر قابو پانے کے لئے متحرک کیا گیا۔ رات گئے تک اگرچہ گھروں میں محصور ہوئی مسلمان عورتیں اپنے تحفظ کی سوشل میڈیا کے ذریعے دُعائیں مانگتی رہیں۔

دلی کے شمال مشرقی علاقوں میں جو مناظر میری عاجزانہ رائے میں سوچ سمجھ کر ابھارے گئے ہیں ان کا واحد مقصد امریکی صدر ٹرمپ کو یہ باور کروانا ہے کہ بھارت ’’اسلامی دہشت گردوں‘‘ کی زد میں ہے۔مودی ان ’’دہشت گردوں‘‘ کوبھرپور ریاستی تشدد کے استعمال سے کچلنے کو مجبور ہے۔میں ہرگز حیران نہیں ہوں گا کہ آئندہ چند دنوں میں دلی کے شمال مشرقی علاقے سے بالآخر گرفتار ہوجانے والے شاہ رخ جیسے نوجوانوں کا تعلق پاکستان سے منسوب کسی ’’دہشت گرد تنظیم‘‘ سے جوڑنے کی کوششیں شروع ہوجائیں۔