کالم

ورزش اور اُس کے مسائل

Share

زندگی میں ڈسپلن بڑا ضروری ہے لیکن ڈسپلن ایک خاص حد سے بڑھ جائے تو پھر زندگی اُس کے نیچے کہیں دب کر رہ جاتی ہے۔ورزش اور واک وغیرہ کر نا ایک زبردست عمل ہے لیکن کچھ لوگوں کے حواس پر واک اس طرح سوار ہوجاتی ہے کہ انہیں کسی اور بیماری کی ضرورت نہیں رہتی۔اُن کی گفتگو کا آدھا حصہ واک کے فوائد گنوانے میں صرف ہوتا ہے اور باقی آدھا حصہ واک نہ کرنے کے نقصانات بتانے میں لگ جاتا ہے۔ میرے ایک دوست پچھلے کئی سالوں سے واک کے عادی ہیں۔عادی کیا جنونی ہیں۔ادھر اُن کی واک کا ٹائم ہوا اور ُادھر اُن پر دورے کی کیفیت طاری۔۔۔ آس پاس ایک بھونچال سا آجاتا ہے۔۔ ۔۔ اُس وقت وہ اپنی چیزیں یوں سمیٹ اور کام یوں نمٹا رہے ہوتے ہیں کہ کچھ بھی سیدھا نہیں پڑتا۔میں نے زندگی میں اُ نکا صرف ایک کام ٹھیک طرح سے ہوتے دیکھا ہے اور وہ ہے واک۔میں نے کئی دفعہ بڑا غور کیا کہ ان کی اس Chronic واک نے انہیں کیا فائدہ پہنچایا ہے۔اور مجھے ہمیشہ بڑی مایوسی ہوئی۔ یعنی اُن کا بے ہنگم بڑھا ہوا پیٹ اور ناک پر ٹھہرا غصہ تو ذرا بھی کم نہیں ہوا ۔ نجانے وہ اس واک سے کیا فائدہ لینا چاہ رہے ہیں۔۔ ایک دن فرما رہے تھے کہ پچھلے چالیس سالوں میں صرف دو دن واک سے ناغہ ہوا ہے۔۔ ایک اُن کی شادی اور دوسرے باپ کے جنازے والے دن۔۔اور ان دونوں افسوسناک مواقع کی پریشانی اپنی جگہ لیکن ان کی وجہ سے اُن کی واک کا جوناغہ ہوا اور اس بنا پر جو شدید پشیمانی انہیں لاحق ہوئی اسے وہ کئی سالوں سے بھلا نہیں پائے تھے۔ میرے خیال میں واک کرنا بڑی اچھی بات ہے اور یہ بہت ضروری بھی ہے لیکن شاید اس قدر بھی نہیں کہ اس میں ناغہ کرنے کے لیے بندے کو کم از کم باپ کے جنازے جیسا موقع درکارہو۔کبھی کبھا راس سے نسبتاً کم اہم موقعے پر بھی ناغہ شاغہ ہو سکتا ہے۔ میں نے کئی دفعہ انہیں اپنے دوست احباب اور دیگر جاننے والوں کے انتہائی ضروری کاموں کو اپنی واک کی وجہ سے ٹالتے دیکھا ہے۔دوسری طرف آپ ذرا غور کیجئے کہ یہ صاحب جو پچھلے تیس چالیس سالوں سے شام کی واک فرما رہے ہیں اور اس پر اس اہتمام اور تسلسل کے ساتھ عمل پیرا ہیں تو ان صاحب نے کتنے عزیز رشتہ داروں کی شادیوں اور جنازوں وغیرہ سے معذرت کی ہو گی کتنے دوست احباب کی ضروری محفلوں کو پسِ پُشت ڈالا ہو گا۔ پھر ان موصوف نے بیوی بچوں کے ساتھ کتنے اہم، خوشگوار اور یادگار مواقع اپنی عدم موجودگی کے سبب ضائع کئے ہوں گے۔ اس ضمن میں خوش آئند بات یہ ہے کہ معاشرے میں ایسے حضرات کی تعداد کافی کم ہے۔ ورزش کی کئی قسمیں ہیں۔ بعض لوگوں کی رائے میں یہ ضروری نہیں کہ جس کسی کو ورزش کرنا مقصود ہو اُسے اپنے اعضاء کو باقاعدہ اور قابل ذکر حرکت دینا بھی درکار ہو تا ہے ۔ورزش کے کئی درجے ہیں۔۔مرشدی جناب قاسمی صاحب کا ایک کردار ورزش کی نئی اقسام کی بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ سگریٹ پیتے ہوئے اس کی راکھ پھینکنے سے لے کر کش لگانے تک کئی اعضاء کی ”اچھی خاصی“ ورزش ہوتی ہے۔دوسری طرف کئی لوگ ورزش شروع کر نے کے لیے باقاعدہ پورا ایک ماحول مانگتے ہیں۔۔نئے جوگر نئی جرابیں اور نیا خوبصورت ٹریک سوٹ۔۔یہ سب کچھ حاصل ہو گیا لیکن صاحب ہیں کہ ورزش پھر بھی شروع نہیں کر رہے۔اب دوستوں کے حلقے کا انتظار ہے دوست بھی مل گئے تو اب کسی خاص موسم یا کسی خاص گیم کے موسم کا نتظار شروع۔۔غرض سب کچھ شروع ہو جاتا ہے سوائے اُن کی ورزش کے۔۔پھر ورزش کرنے والوں کی ایک اورقسم ہے جو بڑی منفرد اور دلچسپ ہے۔۔یہ وہ لوگ ہیں جن پر ورزش کے ”دورے“ پڑتے ہیں۔یہ جب ورزش کرنا شروع کرتے ہیں تو بڑے دھواں دھار انداز میں اور پورے پروٹوکول کے ساتھ کرتے ہیں۔ ایسے میں ان کا تاریخی جوش اور ولولہ دیکھنے کے لائق ہو تا ہے۔ پورے محلے اور سارے خاندان میں پتہ چل جاتا ہے کہ فلاں صاحب نے ورزش شروع کر رکھی ہے۔ ان دنوں یہ سارا سارا دن ورزش کے قصّے۔۔ فوائد اور اپنی کمٹمنٹ کے معیار کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔اس وقت یہ بات ان کی سمجھ سے باہر ہوتی ہے کہ کوئی بندہ ورزش نہ کر کے بھی انسانوں کی طرح رہ سکتا ہے۔ اور پھر کوئی بس ایک آدھ ہفتہ ہی گزرتا ہے کہ ان کا جذبہ یک دم ماند پڑ جاتا ہے۔۔تما م جوش و ولولہ ہوا ہو جاتا ہے۔اُن کے خیالات یکسر تبدیل ہوجاتے ہیں۔۔ ورزش انہیں دنیا کی فضول ترین چیز لگنا شروع ہو جاتی ہے۔ اور پھر اگلے دو چار سال یہ اس کے خیال کو بھی پاس نہیں پھٹکنے دیتے۔ ورزش نہ کرنے کا نقصان شاید اتنا بڑا نہ ہو جتنا یہ سوچتے رہنے سے ہوتا ہے کہ باقی لوگ ورزش کرتے ہیں اور میں نہیں کرتا۔

ورزش یا واک وغیرہ کرنے اور کرتے رہنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے بلکہ بعض لوگ تو اسے باقاعدہ فائدہ مند بھی خیال کرتے ہیں ہاں البتہ اس کے لئے احتیاط اور اعتدال کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ واک کے لئے ٹائمنگ نہایت اہم ہے۔ کوشش کریں واک وغیرہ کسی ایسے وقت پر نہ کی جائے جب آپ کی نیند خراب ہونے کا اندیشہ ہو۔ ایسے وقت پر بھی نہ کی جائے جب فیملی ٹائم ہو۔ دن میں کچھ وقت دوست احباب کے لئے مخصوص ہوتا ہے لہذا اس دوران بھی ورزش یا واک وغیرہ سے گریز کرنا چاہیئے۔ دوسرے الفاظ میں کھانے پینے، سونے اور ملنے ملانے کے اوقات میں اس سے پرہیز ضروری ہے۔ دوسری طرف فارغ اوقات میں بھی واک وغیرہ سے اجتناب کرنا چاہیئے کیونکہ فارغ اوقات کا بہر طور اس سے بہتر کوئی اور مصرف ہو سکتا ہے لہذا اسے اختیا ر کرنا چاہیئے۔ورزش کے بارے میں بعض حکماء اور ماہرین کی رائے ہے کہ دفتری اوقات میں ورزش یا واک وغیرہ پر عمل کیا جائے تو اس کا دگنافائدہ ہو تا ہے۔ اس کے علاوہ گھر میں سسرال کی آمد یا بیگم کی ناراضی کے دوران بھی واک خاطر خواہ فائدہ دیتی ہے لیکن ان دونوں صورتوں میں مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ واک نے بہرطور ختم ہونا ہوتا ہے۔