بٹ صاحب کا ولیمہ!
بٹ صاحب قبلہ معاملاتِ شکم میں میرے استاد تھے۔ میں نے اس سلسلے کی ساری تعلیم انہی سے حاصل کی۔ جب میں نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اس وقت بٹ صاحب کی عمر چالیس بیالیس کے لگ بھگ تھی مگر ماشااللہ 60،65کے لگتے تھے۔ ابتدائی تربیت کے دوران انہوں نے میری ڈیوٹی اخبارات میں قل، چہلم، دسواں، ولیمہ اور بارات وغیرہ کے علاوہ ادبی، سماجی اور غیرسماجی تقریبات پر نظر رکھنے کی ہدایت کی جن میں کھانے، چائے وغیرہ کا اہتمام بھی کیا گیا ہو۔ میں نشان زدہ اخبارات ان کی خدمت میں پیش کر دیتا تھا اور یہ فیصلہ انہوں نے کرنا ہوتا تھا کہ کس شادی کی تقریب میں شرکت کی جائے اور کس کے قلوں کو رونق بخشی جائے تاہم ان کے فیصلے کا انحصار اس ظن و تخمین پر ہوتا تھا کہ بسیار خوری اور اس کے بعد میزبان سے بچ نکلنے کے امکانات کہاں زیادہ ہیں اور میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ بٹ صاحب نے اس ضمن میں کبھی غلط فیصلہ نہیں کیا۔
بٹ صاحب قبلہ بارات اور ولیمے پر عموماً قل اور چہلم کی تقریبات کو ترجیح دیتے تھے، اس کی وہ دو وجوہ بیان کرتے تھے اولاً یہ کہ وہ مشرقی آدمی ہیں اور مشرقی شخص کسی کی خوشی میں شریک ہونے سے تو رہ سکتا ہے مگر غمی پر کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ کرنا مشرقی روایات کے منافی ہے۔ دوسری وجہ بٹ صاحب یہ بتایا کرتے تھے کہ شادی بیاہ کی تقریبات میں پکڑے جانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ اس کے شرکاء مدعو کئے گئے ہوتے ہیں جبکہ قلوں اور چہلم میں شرکت کے لئے کسی دعوت نامے کی ضرورت نہیں ہوتی نیز بٹ صاحب بالکل اجنبی لوگوں کے غم میں شرکت اور مرحوم کی روح کو زیادہ سے زیادہ ثواب پہنچانے کے لئے اس موقع پر تیار کئے گئے، کھانے زیادہ سے زیادہ کھانے کو احسن گردانتے تھے۔
بٹ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ان کی نظروں میں اس بسیار خور کی کوئی حیثیت مرتبہ یا مقام نہیں جسے زندگی میں کم از کم دو تین دفعہ ہیضہ نہ ہوا، بٹ صاحب کو چھ سات دفعہ ہیضہ ہوا تھا اس کے علاوہ وہ شوگر کے مریض تھے شوگر کے حوالے سے انہیں خاصی تشویش رہتی تھی چنانچہ شادی بیاہ یا چہلم وغیرہ سے پیٹ بھر کر کھانا کھانے کے بعد وہ گھر جاکر پرہیزی کھانا بھی کھاتے تھے۔ بٹ صاحب کو ورثے میں دو مکان ملے تھے جو کھانے اور پرہیزی کھانے میں خرچ ہو گئے۔ بٹ صاحب جب تھک جاتے تھے تو کھانے سے ہاتھ کھینچ لیتے تھے تاہم ورزش باقاعدگی سے کرتے تھے، کھانے کے بعد طبیعت کی خرابی کے باعث بستر پر لیٹ کر بےچینی سے کروٹیں لینا ان کی اہم ورزش تھی، دن میں متعدد مرتبہ ہاتھوں کی ورزش بھی کرتے تھے یہ ورزش دو تین سو دفعہ لقمہ منہ تک لے جانے کی صورت میں تھی ایک دفعہ وہ یہ ورزش دو تین دن تک نہ کر سکے جن کا انہیں عمر بھر ملال رہا۔
قبلہ بٹ صاحب علاج بالغذا کے قائل تھے انہوں نے اس ضمن میں اپنے مجرب نسخے پیک کئے، افادہ کے لئے عام کئے گئے ہوتے تھے مثلاً نزلہ، زکام کی صورت میں وہ ایک کلو بکرے کے گوشت کا قیمہ دیسی گھی میں بھون کر کھانے کا مشورہ دیتے تھے۔ گردوں کی تکلیف میں گائے کے گوشت سے تیار کئے گئے، کبابوں کو اکسیر گردانتے تھے۔ بدہضمی کے دوران وہ خوراک کی تعداد دوگنی کرنے پر زور دیتے تھے ان کا کہنا تھا کہ زہر کا علاج زہر ہی سے ممکن ہے۔ایک دفعہ شہر میں کسی شادی بیاہ یا قل اور چہلم وغیرہ کی تقریب کا سراغ نہ مل سکا تو مجبوراً ایک ریسلنگ کی تقریب میں تشریف لے گئے جس کے اختتام پر پُرتکلف چائے کا اہتمام کیا گیا تھا، اسٹیج پر نوجوانوں میں بھاری وزن اٹھانے کا مقابلہ شروع ہوا تو بٹ صاحب نے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کرکے انگڑائی لیتے ہوئے باآواز بلند کہا میرا آئٹم ابھی نہیں آیا دوسرے تیسرے اور چوتھے آئٹم پر بھی انہوں نے اسی طرح انگڑائی لیتے ہوئے باآواز بلند ارشاد فرمایا، میرا آئٹم ابھی نہیں آیا اس پر سارا ہال اسی پہلوان نما شخص کے آئٹم کا انتظار کرنے لگا لوگوں کا خیال تھا کہ ان مقابلوں کا سب سے اہم مقابلہ ان پہلوان صاحب کا آئٹم ہوگا اس دوران سارے مقابلے ختم ہو گئے اور اسٹیج سیکرٹری نے لوگوں کو چائے کی دعوت دی تو بٹ صاحب نے دونوں ہاتھ فضا میں لہراتے ہوئے کہا میرا آئٹم آ گیا جے! اس روز قبلہ صاحب کی بہت پٹائی ہوئی مگر وہ ہمیشہ اسے جان کا صدقہ قرار دیتے تھے۔
بٹ صاحب کے قریبی دوست ان کے حوالے سے بہت سے واقعات بھی سناتے ہیں مثلاً ان کے ایک قریبی دوست کا کہنا ہے کہ جس روز ان کی شادی تھی اس روز انہوں نے کھانے کا باقاعدہ ریکارڈ قائم کیا۔ آدھی رات تک کھاتے رہے بالآخر دوستوں اور اہلِ خانہ کے اصرار پر حجلہ عروسی میں گئے تو ان کی دلہن گھونگھٹ اوڑھے ان کے انتظار میں بیٹھی تھی انہوں نے اسے مخاطب کیا اور کہا ’’سوہنیو! ابھی تک جاگ رہے ہو اب سو جائو صبح ولیمہ بھی کھانا ہے‘‘۔