کورونا کا خوف پی ایس ایل پر بھی اثر انداز ہونے لگا
جب زندگی سہولت اور تسلسل سے گزر رہی ہوتی ہے تو ہم اسے روٹین کہہ کر یکسر بیزاری کا اظہار کر دیتے ہیں۔ لیکن جب فطرت اچانک اپنا رویہ بدلتی ہے تو ایک دم خوف ہر وجود میں سرایت کر جاتا ہے اور ‘روٹین’ کی بیزار زندگی کی لاتعداد نعمتوں پہ رشک آنے لگتا ہے۔
’دی ڈارک نائٹ‘ میں جوکر بیٹ مین سے کہتا ہے، ’جب لوگ موت کے قریب آخری لمحات میں ہوتے ہیں تب ان کے چہرے بتاتے ہیں کہ وہ اصل میں کون ہیں۔‘
سو، یہ موت نہیں، موت کا خوف ہوتا ہے جو اچھی بھلی لگی بندھی شخصیت کے چہرے پہ ہیجان اور اضطراب کا طوفان برپا کر جاتا ہے۔
کورونا وائرس بھی ایک ایسا ہی خوف ہے جو ایک شہر سے نکل کر کئی شہروں اور کئی سرحدوں کے پار پہنچ چکا ہے۔ ہر طرف سفری پابندیاں عائد ہو رہی ہیں، پروازیں معطل ہو رہی ہیں، ائیر پورٹس سکیورٹی سیل بنتے جا رہے ہیں اور خوف ہر دل میں دھڑک رہا ہے۔
یہ خوف اب کھیل کے میدان تک اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔ پچھلے دنوں بنگلہ دیش نے ایک فرد ایک ٹکٹ کی پالیسی اپنائی تا کہ ہجوم سے بچا جا سکے۔ آج سڈنی میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے بیچ میچ میں خالی کرسیاں کھلاڑیوں کا منہ چڑاتی رہیں اور جب ایک چھکے پہ گیند سٹینڈز میں جا گرا تو فیلڈرز خود باؤنڈری پھاند کر کرسیوں کے نیچے گیند ڈھونڈتے پائے گئے۔
اور اب کورونا وائرس کا خوف پی ایس ایل پہ بھی اثر انداز ہونے لگا ہے۔ کل شب وسیم خان نے اعلان کیا کہ کراچی میں بقیہ سبھی میچز بند دروازوں کے پیچھے کھیلے جائیں گے۔ اور آج یہ خبر نکلی کہ شیڈول میں ہول سیل تبدیلیاں کر کے فارمیٹ ہی بدل دیا گیا ہے۔
سو، اب کی بار پہلا موقع ہو گا کہ کوالیفائر اور ایلیمینٹرز ختم کر کے دو سیمی فائنل اور ایک فائنل پہ پی ایس ایل کا یہ سیزن اختتام پذیر ہو گا۔ یہ فیصلہ بڑے پیمانے پہ غیر ملکی کھلاڑیوں کی ہنگامی وطن واپسی کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ گو ان کھلاڑیوں کی وطن واپسی بنیادی طور پہ محض بارڈرز بند ہونے یا پروازیں معطل ہونے کے خدشے کی پیش بندی ہے مگر اس سے باقی ماندہ سیزن کے اہم ترین میچز کی کوالٹی بھی یقیناً متاثر ہو گی۔
ساتھ ہی یہ بدقسمتی بھی رہے گی کہ پہلی بار ملک میں پوری پی ایس ایل منعقد ہونے پہ نہال شائقین گراؤنڈز نہیں جا پائیں گے، نہایت کانٹے دار میچز بند دروازوں کے پیچھے کھیلے جائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ جو روٹ کے مجوزہ ماڈل کے تحت کھلاڑی ہاتھ ملانے سے بھی گریز کریں۔
غیر ملکی کھلاڑیوں کی وطن واپسی سے ملتان، کراچی، کوئٹہ وغیرہ تو متاثر ہوں گے ہی، سب سے بڑا خسارہ پشاور زلمی کو ہو گا جس کے پانچ اہم ترین کھلاڑی گھر لوٹ رہے ہیں۔ کارلوس براتھویٹ، ٹام بینٹن، لیام لیونگ سٹون، لیام ڈاسن اور لیوس گریگری سبھی پشاور کی اس سیزن کی فتوحات میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
اب جب کہ سیزن کا انتہائی اہم مرحلہ سر پہ ہے تو اب تک بہترین پرفارم کرتی ملتان سلطانز کے لیے بھی صورتِ حال پریشان کن ہو گی کہ جیمز ونس اور رائلی روسو چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ہمیں امید کرنی چاہئے کہ معین علی انھیں دستیاب رہیں گے۔ مگر ونس اور روسو دونوں ایسے کھلاڑی ہیں کہ تن تنہا میچ کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں اور اس مرحلے پہ انھیں کھونا ملتان کے پہلے ٹائٹل کی امیدوں کو ماند کر سکتا ہے۔
دیگر سکواڈز میں ایسی پریشان کن صورتِ حال پیدا ہونے سے لاہور کے لیے اپنے پہلے ٹائٹل تک پہنچنے کے امکانات نہایت روشن ہو گئے ہیں کیونکہ فی الوقت یہاں اطمینان ہے کہ پورا سکواڈ اپنے قدموں پہ جما ہے۔
اسلام آباد کا سکواڈ بھی اپنی جگہ موجود ہے مگر ان کے سیمی فائنلز تک رسائی کے امکانات ویسے ہی معدوم ہو چکے ہیں۔ اگرچہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے بھی تائمل ملز اور جیسن روئے واپس جا رہے ہیں مگر کوئٹہ کے لیے اس ٹورنامنٹ میں بہت پہلے ہی امیدوں کے دئیے بجھ چکے ہیں۔
فارمیٹ کی تبدیلی سے ایک بڑا فرق یہ بھی پڑے گا کہ بظاہر تو شیڈول سے صرف ایک میچ غائب ہو رہا ہے مگر کوالیفائر ختم ہونے سے کسی ٹیم کو بھی ناک آؤٹ سٹیجز میں دوسرا موقع نہیں ملے گا۔ پہلے سیزن میں ٹائٹل فاتح اسلام آباد یونائیٹڈ کوالیفائر ہارنے کے بعد الیمینیٹرز میں دوسرا موقع پا کر ٹورنامنٹ میں واپس آئی تھی۔
اس میں شبہ نہیں کہ پی ایس ایل کا حالیہ سیزن اب تک کا کامیاب ترین سیزن تھا اور اگر یہ اسی دھج پہ ختم ہوتا تو شائقین بھی خوش رہتے اور پی سی بی کی جیبیں بھی بھر جاتی۔ مگر شومئیِ قسمت کہ کورونا وائرس نے اس کامیاب ترین سیزن کا حسن گہنا دیا ہے۔
پی سی بی کو صرف کورونا کے خوف کی مد میں ہی لگ بھگ دس کروڑ کا خسارہ ہو جائے گا مگر کوئی کر بھی کیا سکتا ہے، بھلا کبھی فطرت سے بھی کوئی لڑ پایا ہے؟