گرمی کے انتظار میں
میں نے گزشتہ ہفتے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ پاکستان میں ہر تین میں سے ایک آدمی پیدائشی ڈاکٹر ہے اور علم طلب میں وہ دسترس رکھتا ہے کہ اگر بوعلی سینا‘ محمد ابن زکریا الرازی اور علی ابن ریان الطبری کی روح بھی اپنی کم مائیگی اور کم علمی پر شرمندہ ہو جائے۔ ان ڈاکٹروں میں تازہ ترین دریافت اپنے سابقہ وزیراعلیٰ خیبر پختوانخوا اور حالیہ وزیر دفاع جناب پرویز خٹک ہیں۔ انہوں نے کورونا وائرس کی اجتماعات میں تلفی کا جو نیا طریقہ دریافت کیا ہے‘ اگر وہ اسے عالمی سطح پر رجسٹرڈ کروا کر اس کے Intellectual Property Rights جس کا اردو ترجمہ انگریزی سے مشکل ہے ‘یعنی ”دانشورانہ املاک کے حقوق‘‘ حاصل کر لیں تو وزارت وغیرہ سے چھٹی کے بعد بھی اچھا خاصا ذریعہ آمدنی بن سکتا ہے۔
پاکستان بھر میں اجتماعات پر مکمل پابندی عائد کردی گئی ہے۔ میرے عزیزوں کی دو شادیاں اس پابندی کی نذر ہو چکی ہیں۔ ایک شادی باقاعدہ موخر کردی گئی ہے‘ جبکہ دوسری صرف اور صرف دونوں اطراف کے انتہائی قریبی عزیزوں کی شراکت سے مشروط کر کے کل ہی سرانجام پائی ہے۔ ایک شاعر نے بڑے دکھی لہجے میں فون کر کے مجھے اطلاع دی کہ سارے مشاعرے کینسل ہو گئے ہیں۔ میں نے اسے بتایا کہ اس دکھ میں‘ میں بذات ِخود تمہارا شریک ہوں۔ میرے تو اپنے دس بارہ مشاعرے کینسل ہو گئے ہیں‘ جن میں اوسلو‘ کوپن ہیگن‘ میلان‘ بارسلونا اور دو تین دیگر شہروں میں طے پا چکے تھے‘ لیکن اس کورونا وائرس کی وجہ سے یورپ میں خوف کی وہ فضا ہے کہ ہم یہاں ابھی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ میلان تو باقاعدہ لاک ڈائون ہو چکا ہے۔ اٹلی کے شہر وینس اور فلورنس میں آوارہ گردی کا پروگرام بھی کینسل ہو چکا ہے۔ پاکستان میں سارے تعلیمی ادارے بند کر دئیے گئے ہیں۔ اسد کے امتحانات بھی موخر کر دیے گئے ہیں اور وہ اسلام آباد سے ملتان آ چکا ہے۔ ملتان سے بین الاقوامی پروازوں کا آپریشن معطل ہے۔ میری ملتان سے فرینکفرٹ کی فلائٹ کینسل ہو چکی ہے۔ دو شادی ہال‘ حکومتی پابندی کی خلاف ورزی کے جرم میں سیل ہو گئے ہیں ‘لیکن اپنے پرویز خٹک صاحب نے ساری حکومتی پابندیوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے گزشتہ روز نوشہرہ میں ایک عدد بڑا جلسہ ”کھڑکایا‘‘ ہے ‘جس میں شرکا کی تعداد ہزاروں میں تھی۔
مجبوری کے عالم میں کیے جانے والے اجتماعات کیلئے بھی دنیا بھر میں ایڈوائزری پروٹوکول پر عمل کیا جا رہا ہے۔ لوگ ماسک استعمال کر رہے ہیں۔ دورانِ اجتماع ایک دوسرے سے کم از کم ایک میٹر کے فاصلے پر رہتے ہیں اور ہینڈسینی ٹائزر لازماً استعمال کر رہے ہیں‘ لیکن اپنے پرویز خٹک صاحب کے نوشہرہ والے جلسے میں ایسی کسی قسم کی احتیاط کی پابندی نہیں کی گئی اور راوی کا بیان ہے کہ جلسے کے اکثر شرکا نے ناصرف دونوں ہاتھوں سے دبا دبا کر ایک دوسرے سے مصافحہ کیا‘ بلکہ زوردار ”جپھیاں‘‘ بھی ڈالیں۔ اس جلسے کے بعد کورونا وائرس کی مکمل تلفی کیلئے ایک نہایت ہی جدید سائنسی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے آتش بازی کی گئی۔ اربوں کھربوں وائرس تو آتش بازی سے گھبرا کر کوئی کارروائی کرنے کے بجائے موقعہ واردات سے فرار ہو گئے اور جو احمق اور بیوقوف وائرس اپنی مذموم کارروائی میں مصروف تھے‘ وہ اس آتش بازی سے پیدا ہونے والی گرمی سے ہلاک ہو گئے۔
کورونا وائرس نے ابھی تک کسی سے اچھی طرح اپنا تفصیلی تعارف کروایا نہیں اور اس کے بارے میں بے شمار احتیاطی تدابیر اور قصے کہانیاں مارکیٹ میں عام ہو چکی ہیں۔ ایک تھیوری یہ ہے کہ یہ وائرس چھبیس‘ ستائیس ڈگری سینٹی گریڈ پر مر جاتا ہے۔ اب ‘بھائی لوگ اس انتظار میں ہیں کہ گرمی پڑے اور یہ ناہنجار وائرس اپنے انجام کو پہنچے۔ ایک بڑے سمجھدار اور معقول قسم کے نہایت ہی پڑھے لکھے‘ بلکہ زیادہ وضاحت کرتے ہوئے آپ کو بتا ہی دوں کہ موصوف پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں اور ان کی یہ ڈاکٹریٹ‘ حشرات ِالارض وغیرہ کی تلفی سے متعلق ہے۔ ان کی باتیں سنیں تو دل کو بڑی تسلی ہوئی کہ یہ وائرس کم از کم میرے جیسے عام تام اور لوئر مڈل کلاس کے افراد کیلئے قطعاً نقصان دہ یا خطرے کا باعث نہیں ہے۔ ہمارے اس دوست کا کہنا تھا کہ یہ وائرس امیروں اور نہایت ہی زیادہ حفاظتی حصار میں رہنے والوں کیلئے خطرہ ہے۔ حفاظتی حصار سے مراد خدانخواستہ پولیس یا ذاتی محافظوں کا حصار نہیں‘ بلکہ Hygenic‘یعنی حفظان ِصحت کی بہت ہی زیادہ پابندیوں کے حصار میں رہنے والوں کیلئے نقصان کا باعث ہے۔ ان لوگوں میں بہت ہی زیادہ احتیاطی تدابیر کے باعث قدرتی مدافعت کا نظام نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہوتا ہے۔ یہ وائرس بنیادی طور پر فلو کے وائرس کی ہی ایک ترقی یافتہ شکل ہے اور اب ‘اپنا رنگ دکھا رہا ہے۔ آپ دیکھیں اس کے اثرات یورپ پر زیادہ ہیں۔ جاپان‘ کوریا اور امریکا وغیرہ میں اس کی شدت اور شرح ِاموات زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں لوگ نزلے‘ زکام اور کھانسی وغیرہ کو بیماری ہی نہیں سمجھتے اور ہو جانے کی صورت میں نوے فیصد لوگ علاج ہی نہیں کراتے اور خود ہی چار چھ دن شوں شاں کر کے کھوں کھاں کر کے صحتمند ہو جاتے ہیں۔ اس سے ان کے اندر اس بیماری کی مدافعت بھی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ بیماری بھی ان کیلئے نقصان دہ نہیں رہ جاتی۔ ہم لوگ ‘جن Un-Hygenic حالات میں زندگی گزار رہے ہیں‘ ہمیں ایسے وائرس وغیرہ کوئی زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ ہمارے ان دوست ڈاکٹر صاحب کی باتیں کم از کم میرے دل کو تو لگتی ہیں کہ اب تک کا شماریاتی جائزہ میرے اس دوست کی باتوں کی مکمل تصدیق کرتا ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ اس وائرس نے کہاں کہاں زیادہ نقصان کیا ہے؟ کہاں کہاں اس کے حملے کی شدت ہے اور کس ملک میں شرح ِاموات زیادہ ہیں؟ ابھی تک افریقا وغیرہ میں اس کے اثرات اتنے کم ہیں کہ شماریاتی جائزے میں ان کا تذکرہ بھی نہیں ہو رہا۔
میرے وہ دوست کہنے لگے کہ شکر ہے یہ امیروں اور ترقی یافتہ ملکوں کی بیماری ہے اور اس پر رولا پڑ گیا ہے۔ اب‘ اس کا علاج اور ویکسین بھی ہنگامی بنیادوں پر تیار ہو جائے گی‘ اگر یہ غریب‘ غیر ترقی یافتہ اور پسماندہ ملکوں پر حملہ آور ہوتی تو اب تک دنیا کے کان پر جوں بھی نہیں رینگنی تھی۔ ان ملکوں کو لاک ڈائون کر دیا جاتا اور باقی دنیا چین سے بیٹھی رہتی ‘جیسے کشمیر گزشتہ دو سو چوبیس دن سے محاصرے میں ہے ۔کسی کو رتی برابر فکر نہیں‘ لے دے کر اسلام آباد میں سرینا ہوٹل کے پاس والے چوک پر ایک کلاک لگا ہوا ہے‘ جو اس محاصرے کے دنوں‘ گھنٹوں اور منٹوں کو شمار کر رہا ہے‘ باقی ہر طرف ”ٹھنڈ پروگرام‘‘ چل رہا ہے۔
ہم بھی مزے کے لوگ ہیں ۔کچھ کرنے کے بجائے مختلف قدرتی عوامل کے انتظار میں رہتے ہیں‘ یعنی اللہ کی مدد اور قدرت کی مہربانی پر انحصار کرتے ہیں۔ کرسٹینا لیمب نے بھی پاکستان میں جمہوری جدوجہد کے سفر پر مبنی شہرہ ٔآفاق کتاب لکھی تھی‘ اس کا نام “Waiting for ALLAH” رکھا تھا۔ ہم ہر معاملے میں نا صرف یہ کہ اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں‘ بلکہ سب کچھ اس قادر پر چھوڑ کر غیبی مدد کا انتظار کرتے ہیں۔ اب‘ ہم گرمی کا انتظار کر رہے ہیں۔ چولستان میں جب Locust ‘یعنی ٹڈی دل نے حملہ کیا تو ہمارے زرعی سائنسدانوں نے کہا کہ چند دن بعد سردی آنے والی ہے‘ جیسے ہی سردی آئے گی لوکسٹ مر جائے گا۔ سردی آئی اور گزر بھی گئی‘ لیکن ٹڈی دل ایسا آیا ہے کہ ابھی تک نہیں گیا۔ اب ‘جا کر کہیں چین سے دوائی پاکستان پہنچی ہے‘ جب ٹڈی دل نے بے شمار نقصان کر دیا ہے۔ اب‘ ہم کورونا وائرس کے خاتمے کیلئے گرمی کے منتظر ہیں‘ اسی گرمی کے فارمولے کو سامنے رکھ کر پرویز خٹک نے جلسے کے اختتام پر آتش بازی کروائی تا کہ اس سے پیدا ہونے والی گرمی سے کورونا وائرس تباہ و برباد ہو جائے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر یہ فارمولا کام کرتا ہے تو پھر کم از کم شادیوں کو اس شرط پر اس پابندی سے استثنا دے دیا جائے کہ وہ تقریب کے اختتام پر آتش بازی کریں۔ اس سے برات کے اجتماع کے باعث کورونا وائرس کی امکانی موجودگی بھی ختم ہو جائے گی اور اردگرد کے علاقوں میں موجود کورونا وائرس بھی تلف ہو جائے گا۔ آزمائش میں کیا حرج ہے؟ اب‘گرمی کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تو نہیں بیٹھا جا سکتا؟