عمر اکمل پر اینٹی کرپشن قوانین کی خلاف ورزی کا الزام، 14 دن میں جواب طلب
پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے عمر اکمل کو بورڈ کے اینٹی کرپشن کوڈ کی 2 مرتبہ خلاف ورزی پر چارج کردیا۔
پی سی بی کی جانب سے عمر اکمل کو بورڈ اینٹی کرپشن کوڈ کے آرٹیکل 2.4.4 کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔
مذکورہ آرٹیکل کسی بھی فرد کی جانب سے کرپشن کی پیشکش کے بارے میں پی سی بی ویجلنس اینڈ سیکورٹی ڈیپارٹمنٹ کو (بغیر کسی غیر ضروری تاخیر سے) آگاہ نہ کرنے سے متعلق ہے۔تحریر جاری ہے
عمر اکمل کو نوٹس آف چارج 17 مارچ بروز منگل کو جاری کیا گیا اور ان کے پاس اس نوٹس کا جواب دینے کے لیے 14 دن کا وقت ہے جس کے تحت انہیں 31 مارچ تک نوٹس کا جواب دینا ہو گا۔
آرٹیکل 6.2 کے تحت آرٹیکل 4.2.2 کی خلاف ورزی کا جرم ثابت ہونے پر 6 ماہ سے تاحیات پابندی تک کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔
یاد رہے کہ 20 فروری کو پاکستان سپر لیگ کے پانچویں ایڈیشن کے افتتاحی میچ سے چند گھنٹے قبل پاکستان کرکٹ بورڈ نے اینٹی کرپشن قوانین کی خلاف ورزی کے سبب عمر اکمل کو معطل کردیا تھا۔
عمر اکمل کو پاکستان سپر لیگ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی نمائندگی کرنا تھی لیکن معطلی کے سبب ان کی لیگ سمیت ہر طرح کے کرکٹ مقابلوں میں شرکت پر پابندی عائدکردی گئی تھی۔
بورڈ کی جانب سے معطلی کے باوجود عمر اکمل کے بڑے بھائی اور وکٹ کیپر بلے باز کامران اکمل نے ان کا مکمل دفاع کیا تھا۔
انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اپنے بھائی کو جانتا ہوں، وہ کوئی بھی ایسا کام نہیں کر سکتے، وہ ابھی بھی اتنے ہی صاف شفاف ہیں جتنے آج سے 10 سال قبل تھے جب انہوں نے بین الاقوامی کرکٹ میں قدم رکھا تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ عمر اکمل نے اینٹی کرپشن یونٹ سے کسی بھی دوسرے کھلاڑی کے مقابلے میں بہت زیادہ تعاون کیا۔
یاد رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ پی سی بی کی جانب سے عمر اکمل کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہو بلکہ وہ اس سے قبل بھی کئی مرتبہ مشکلات کا سامنا کر چکے ہیں۔
معطلی سے چند دن قبل بھی عمر اکمل نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں تنازع کا شکار ہوئے تھے اور اس موقع پر ان کے بھائی کامران اکمل بھی ساتھ موجود تھے۔
عمر اکمل اور ان کے بھائی کو فٹنس ٹیسٹ کے لیے نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں طلب کیا گیا تھا جہاں رپورٹس کے مطابق انہوں نے عملے سے بدتمیزی کی تھی۔
رپورٹس کے مطابق ٹیسٹ کے دوران عمر اکمل آپے سے باہر ہوگئے تھے اور عملے سے بدتمیزی کی تھی جس کے بعد ان کی اگلے ڈومیسٹک ٹورنامنٹ میں شرکت پر پابندی کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔
تاہم اس واقعے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے قومی ٹیم کے بلے باز عمر اکمل اور نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے عملے کے درمیان سامنے آنے والے تنازع کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ واقعہ ‘غلط فہمی’ کی وجہ سے سامنے آیا۔
کرپشن اسکینڈل اور پی ایس ایل
یہ پہلا موقع نہیں کہ کرپشن اسکینڈل پاکستان سپر لیگ پر اثر انداز ہوا بلکہ 2017 میں کھیلے گئے لیگ کے دوسرے ایڈیشن کے افتتاحی میچ کے بعد ہی اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے پاکستان کرکٹ کے درودیوار کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
متحدہ عرب امارات میں منعقدہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے دوسرے ایڈیشن کے آغاز میں ہی اسپاٹ فکسنگ کے الزامات پر اسلام آباد یونائیٹڈ کے دو کھلاڑیوں شرجیل خان اور خالد لطیف کو پاکستان واپس بھیج دیا گیا تھا۔
بعد ازاں شاہ زیب حسن، ناصر جمشید اور فاسٹ باؤلر محمد عرفان کو بھی بکیز سے رابطے پر نوٹس جاری کرتے ہوئے پی ایس ایل سے باہر کر دیا گیا تھا۔
محمد عرفان نے پی سی بی کے اینٹی کرپشن کوڈ کی خلاف ورزی کا اعتراف کر لیا تھا جس کے بعد ان پر ہر قسم کی کرکٹ کھیلنے پر ایک سال کی پابندی عائد کردی گئی۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے انسداد کرپشن قوانین کی خلاف ورزی پر شرجیل خان پر 5 سال کی پابندی عائد کردی تھی۔
اس کے علاوہ ناصر جمشید کو اسپاٹ فکسنگ کیس میں مبینہ طور پر سہولت کار کا کردار ادا کرنے پر برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے بھی یوسف نامی بکی کے ساتھ گرفتار کیا تھا لیکن بعد میں انہیں ضمانت پر رہا کردیا تھا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے اینٹی کرپشن ٹریبونل نے اسپاٹ فکسنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کرکٹر ناصر جمشید پر 10 سال کی پابندی عائد کردی جبکہ رواں سال مذکورہ کیس میں برطانیہ کی نیشل کرائم ایجنسی نے ناصر جمشید کو 17 ماہ قید کی سزا سنائی تھی۔