کرونا سے نمٹنے کی حکومتی خوداعتمادی
یہ رویہ درست ہے یا نہیں۔اس کے بارے میں کوئی رائے دینے کی مجھ میں تاب نہیں۔محض ایک رپورٹر ہوتے ہوئے اگرچہ یہ ’’اطلاع‘‘ دینے کو مجبور پاتا ہوں کہ وزیر اعظم کرونا کی وجہ سے اُٹھے بحران کا مقابلہ کرنے کے لئے اپوزیشن سے ’’مشاورت‘‘ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے وہ یہ طے کرچکے ہیں کہ مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی میں شامل لوگوں کی اکثریت ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ پر مشتمل ہے۔ وہ جیلوں میں ’’عام مجرموں‘‘ کی طرح بند کئے جانے کے مستحق ہیں۔پاکستان اور اس کے شہریوں کی بھلائی ان لوگوں کا دردِسر نہیں۔بجائے اپنے ’’کرتوتوں‘‘ پر شرمندہ ہونے کے اپوزیشن جماعتوں کے رہنما کسی ’’بحران‘‘ کے منتظر رہتے ہیں۔یہ نمودار ہوجائے تو ’’قومی یکجہتی‘‘ وغیرہ کے نام پر خود کو ’’معتبر‘‘ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں ’’بحرانوں‘‘ کے بہانے اپنی ساکھ بحال کرنے کے مواقع فراہم نہیں کر نا چاہئیں۔
مذکورہ بالا ’’اطلاع‘‘ دیتے ہوئے میں کوئی ’’اندر کی خبر‘‘ نہیں دے رہا۔عمران حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے عین ایک برس بعد 5اگست 2019کے روز بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے مقبوضہ کشمیر کی جداگانہ شناخت کو بے رحمی سے ختم کردیا تھا۔اس فیصلے کے خلاف ممکنہ احتجاج کو ناممکن بنانے کے لئے 80لاکھ کشمیریوں کو ویسے ہی لاک ڈائون کا سامنا کرنا پڑا جو کررونا وائرس کی وجہ سے ان دنوں کئی ممالک پر مسلط ہے۔مقبوضہ کشمیر پر نازل ہوالاک ڈائون اس حوالے سے مزید اذیت دہ تھا کہ اس کے دوران وہاں کے باسیوں کو موبائل فونز اور انٹرنیٹ کے ذریعے اپنے پیاروں سے رابطے کی اجازت بھی نہ تھی۔مقبوضہ وادی کے تلخ حقائق دُنیا کے سامنے لانا صحافیوں کے لئے ناممکن بنادیا گیا۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کی تنسیخ اور اس کے بعد مقبوضہ کشمیر کی دو حصوں میں تقسیم۔ان حصوں کا نئی دہلی سے براہِ راست کنٹرول ہماری ’’شہ رگ‘‘ کا گلا گھونٹنے کے مترادف تھا۔پاکستان کی ریاست اور عوام کو یکسوہوکر مودی سرکار کا مقابلہ کرنے کی ضرورت تھی۔ مطالبہ ہوا کہ عمران خان صاحب ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں کو مذاکرات کے لئے مدعو کریں۔کشمیر جیسے اہم،تاریخی اور حساس ترین معاملہ پر ’’قومی اتفاقِ رائے‘‘ پیدا کریں۔وزیر اعظم ٹس سے مس نہ ہوئے۔بہت دن گزرجانے کے بعد پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا۔ابھی یہ اجلاس جاری تھا کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر صاحب نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب شروع کردیا۔اس پریس کانفرنس میں شریف خاندان کو ٹی ٹی وغیرہ کے ذریعے بھاری بھر کم رقوم وصول ہونے کی داستان طشت ازبام ہوئی۔محترمہ مریم نواز اس کی وجہ سے ایک اور مقدمہ میں گرفتار ہوئیں۔حمزہ شہباز شریف کے لئے مزید سوالات تیار ہوئے۔ موصوف ابھی تک جیل میں ہیں۔
عمران خان صاحب کو کامل یقین تھا کہ اپوزیشن کی معاونت کے بغیروہ ازخود عالمی ضمیر کو کشمیر کے حوالے سے جھنجھوڑ ڈالیں گے۔ستمبر2019میں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ’’تاریخی‘‘ خطاب کیا۔اپنے ’’دوست‘‘ ٹرمپ سے نیویارک کے بعد سوئٹزرلینڈ کے شہر Davosمیں بھی ملے۔آرٹیکل 370کی تنسیخ مگر اپنی جگہ برقرار ہے۔لداخ اور جموںوکشمیر بدستور نئی دلی کے براہِ راست کنٹرول میں جکڑی Union Territoriesہیں۔پسند کریں یا نہیں مقبوضہ کشمیر کے ساتھ رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوچکا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب سے ریٹائر ہونے سے چند ہی ہفتے قبل جناب آصف سعید کھوسہ صاحب نے آرمی چیف کی میعاد ملازمت میں توسیع پر سوالات اُٹھاکر بھی ایک ’’بحران‘‘ کھڑا کیا تھا۔پارلیمان کو اس ضمن میں نئی قانون سازی کا حکم ہوا۔ عمران حکومت کو سینٹ میں اکثریت حاصل نہ تھی۔مطلوبہ قانون سازی لہذا ناممکن نظر آرہی تھی۔سیاسی حوالے سے اس نازک ترین موقعہ پربھی عمران خان صاحب نے اپوزیشن جماعتوں سے براہِ راست رابطے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ان کی اپنائی بے اعتنائی کے باوجود اپوزیشن جماعتوں نے مطلوبہ قانون کی منظوری میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ حکومت کی جانب سے اس ضمن میں تیار کردہ قانون تاریخی ریکارڈ بناتی عجلت سے منظور ہوا۔ یہ قانون جب قومی اسمبلی سے منظور ہوا تو وزیر اعظم نے اپوزیشن کے تعاون کو سراہنے کے لئے شکریے کے دو بول بھی ادا نہ کئے۔بغیر کچھ کہے ایوان سے باہر چلے گئے۔
حالیہ سیاسی تاریخ کی مذکورہ بالا دوٹھوس نظیروں کے ہوتے ہوئے ڈھٹائی کی حد تک خوش گماں شخص ہی یہ امید باندھ سکتا تھا کہ عمران خان صاحب کرونا کی وجہ سے اُبھرے بحران کا مقابلہ کرنے کے لئے اپوزیشن جماعتوں سے تعاون کی درخواست کریں گے۔اپوزیشن راہنما مگر ’’مان نہ مان-میں تیرا مہمان‘‘ والا رویہ اختیار کئے رہے۔بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان صاحب کے لئے “Selected”کی ترکیب ایجاد کی تھی۔کرونا پھیلنے کے بعد مگر انہوں نے عمران صاحب کو نہایت احترام سے اپنا وزیر اعظم تسلیم کیا۔ان سے درخواست کی کہ وزیر اعظم ہونے کے علاوہ وفاقی وزیر صحت ہوتے ہوئے وہ کرونا کے خلاف مدافعت کی کمان سنبھالیں۔
نظر بظاہر کرونا کی مدافعت میں اپنا حصہ ڈالنے پاکستان مسلم لیگ (نون) کے صدر جو قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف بھی ہوتے ہیں لندن سے ’’اچانک‘‘ وطن لوٹنے کو مجبور ہوئے۔میرے کئی خوش گماں دوستوں نے فرض کرلیا کہ شہباز صاحب سے منسوب ’’انتظامی صلاحیتیں‘‘ کرونا کے خلاف برپا جنگ میں بروئے کار لائی جائیں گی۔ شہباز شریف یا بلاول بھٹو زرداری سے وزیر اعظم نے براہِ راست رابطے کا مگر تردد ہی نہ کیا۔
قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر صاحب نے ازخود پارلیمان میں موجود اپوزیشن جماعتوں سے رابطے کئے۔انہیں ایک کانفرنس میں مدعو کیا اور چند وزراء کو اس امر پر آمادہ کرلیا کہ وہ وزیر اعظم کو ان کی بلائی کانفرنس سے ویڈیو خطاب پر قائل کریں۔عمران خان صاحب نے بدھ کے روز وہ خطاب فرمادیا۔ اپوزیشن راہنمائوں کے خیالات سننے کے لئے مگر ان کے پاس وقت نہیں تھا۔ شہباز صاحب نے اسے اپنی ’’بے عزتی‘‘ شمار کیا۔بلاول بھٹو زرداری بھی ہکا بکا ہوئے ویڈیو کانفرنس سے غائب ہوگئے۔ حکومت اور اپوزیشن کے مابین بھرپور مشاورت کے ذریعے کرونا کا مقابلہ کرنے کے لئے ’’قومی پالیسی‘‘ تشکیل دینے کے امکانات معدوم ہوگئے۔
بد ھ کے دن یہ امکانات معدوم ہوجانے کے بعد ٹی وی سکرینوں کے ذریعے قوم کی راہنمائی فرمانے والے خواتین وحضرات کو اپنا دھندا چلانے کا لیکن ایک اور سودا مل گیا۔نہایت لگن سے اب یہ طے کرنے کی کوشش ہورہی ہے کہ بدھ کے روز ہوئی کانفرنس میں ’’بدمزگی‘‘ کا ’’حقیقی ذمہ دار‘‘ کون ہے۔ذمہ داری کا تعین کرتی ان کاوشوں پر بخدا میرا دل پہلے تو بہت جلا۔ جلد ہی مگر قرار آگیا۔ ’’ٹاک شوز‘‘ کی دوکان چلانے کے چند تقاضے ہوتے ہیں۔دس برس تک میں نے بھی ایسی ہی ایک دوکان چلائی تھی۔ ناکام رہا۔ پنجابی محاورے والی گدھی کی طرح اپنے اصل مقام یعنی پرنٹ صحافت میں لوٹ آیا ہوں۔میری پُرخلوص باتیں بھی لہذا ’’انگور کھٹے ہیں‘‘ شمار ہوں گی۔
اپنی ’’اوقات‘‘ کا کشادہ دلی سے اعتراف کرتے ہوئے یہ کہنے کو مجبور ہوں کہ آپ پسند کریں یا نہیں عمران خان صاحب دل کی اتھاہ گہرائیوں سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی حکومت کرونا وائرس کی وجہ سے اُبھرے بحران کا کماحقہ مقابلہ کررہی ہے۔وہ پُراعتماد ہیں کہ ان کی جانب سے اپنائی حکمت عملی ہر حوالے سے بارآور ثابت ہورہی ہے۔اس میں کوئی جھول نہیں۔ڈاکٹر ظفر مرزا صاحب جیسے ماہر کے ہوتے ہوئے انہیں صحتِ عامہ کے ضمن میں کسی اور سے مشاورت کی ضرورت نہیں۔کرونا کی وجہ سے جو معاشی مشکلات رونما ہوں گی ان کا حل ڈھونڈنے کو ڈاکٹر حفیظ شیخ کی صورت ان کے پاس ایک ایسا ’’ماہر‘‘ موجود ہے جن کی صلاحیتوں کی آئی ایم ایف بھی معترف ہے۔ظفر مرزا اور حفیظ شیخ کے ہوتے ہوئے انہیں ایسے سیاست دانوں سے مشورے طلب کرنے کی ضرورت نہیں جو اپنے دورِ اقتدار میں قومی خزانہ کو ’’بے دریغ لوٹتے رہے‘‘۔
عمران خان صاحب کی خوداعتمادی سے اختلاف کا حق ہم سب کو حاصل ہے۔حقیقت مگر یہ ہے کہ میں اور آپ فیصلہ سازی کا حق واختیار نہیں رکھتے۔کرونا کے خلاف جنگ کے حتمی کمان دار وزیر اعظم عمران خان صاحب ہی ہیں۔ انہیں کامل یقین ہے کہ انہوں نے کرونا کے مقابلے کے لئے ایک جارح پالیسی تیار کرلی ہے۔وہ اس پر عملدرآمد کے خواہاں ہیں۔اپنے قیمتی وقت کو روایتی ’’مشاورت‘‘ میں ضائع کرنے کو تیار نہیں۔ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ سے مشاورت کرتے ہوئے وہ انہیں ’’معتبر‘‘ کیوں بنائیں؟۔ ربّ کریم سے فی الوقت صرف یہ فریاد ہی کی جاسکتی ہے کہ عمران خان صاحب کی کرونا وائرس کے حوالے سے اپنائی حکمت عملی باورآور ثابت ہو۔