کورونا وائرس: پاکستان میں آن لائن ذرائع سے تدریسی عمل جاری مگر طلبا کو مسائل کا سامنا
کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال معاشی اور سماجی خطرہ بن کر پوری دنیا کو مکمل طور پر اپنے شکنجے میں لے چکی ہے۔ سماجی رابطوں میں کمی کو یقینی بنانے کے لیے کیے جانے والے اقدامات لوگوں کے تحفظ کے لیے تو ضروری ہیں مگر اس سے معیشت، معمولات زندگی کے بعد سب سے زیادہ طلبا کا تعلیمی سال متاثر ہو رہا ہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ابتدائی طور پر کیے جانے والے اقدامات میں تعلیمی اداروں کو پانچ اپریل تک بند رکھنا بھی شامل تھا۔
اس ضمن میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے اعلان کیا تھا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے ملک میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی آن لائن کلاسز شروع کرائی جائیں گی تاکہ طالب علموں کی تعلیم کا حرج ہونے سے بچایا جا سکے۔
چھوٹے شہروں اور دور دراز کے علاقوں سے طالب علموں کی ایک بڑی تعداد شہروں کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہے۔ ہاسٹلز میں رہنے والے ان طلبا کو جامعات کی بندش کے بعد اپنے آبائی علاقوں کو جانا پڑا۔
پاکستان کی یونیورسٹیوں کے پاس آن لائن کلاسز کا مربوط نظام نہ ہونے کے باعث انٹرنیٹ پر پہلے سے موجود ذرائع جن میں گوگل پلس، زوم، یوٹیوب سمیت سوشل میڈیا ایپلیکیشنز کا سہارا لیا جا رہا ہے۔
آن لائن کلاسز کے اجرا کے بعد پاکستان کے طول و عرض میں رہنے والے طالب علم انٹرنیٹ سروس کے نہ ہونے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کی شکایت کرتے نظر آ رہے ہیں۔
گذشتہ روز وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کی جانب سے بتایا گیا کہ ملک بھر کے نجی و سرکاری تعلیمی اداروں کی تعطیلات میں 31 مئی تک توسیع کردی گئی ہے۔ وزارت تعلیم کے نوٹیفیکیشن کے مطابق تعلیمی اداروں کی بندش موسم گرما کی چھٹیوں کے طور پر ہو گی۔
تاہم متعدد طلبا کے مطابق ابھی تک تعلیمی اداروں کی جانب سے حکومتی فیصلے پر باقاعدہ اطلاع نہیں دی گئی نہ ہی جامعات آن لائن کلاسز میں درپیش نقائص دور کر پا رہی ہیں جبکہ متعدد طالب علموں کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان کی یونیورسٹیز سالانہ فیس کی سہہ ماہی قسط ادا کرنے کا تقاضہ کر رہی ہیں۔
طلبا کو آن لائن کلاسز کے اجرا پر کن مسائل کا سامنا
بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کے نواحی گاؤں کے رہائشی محمد اعظم بلوچ نے بی بی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ لاہور کی یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے طالب علم ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’انتظامیہ کی جانب سے دیے گئے شیڈول کے مطابق روزانہ صبح دس بجے سے شام چھ بجے کے دوران تین سے چار مضامین کی آن لائن کلاسز رکھی گئی ہیں لیکن گذشتہ ایک ہفتے میں طالب علم ایک بھی مضمون کا لیکچر مناسب انداز میں نہیں لے سکے۔‘
محمد اعظم بلوچ نے بتایا ’میں اپنی کلاسز میں حاضری یقینی بنانے کے لیے انٹرنیٹ کی بہتر سروس کھوجتے ہوئے روازنہ گاؤں سے پچیس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے جعفرآباد جاتا ہوں اور وہاں بھی ویڈیو لیکچر میں اساتذہ کی آواز تک صحیح نہیں سن پاتا۔‘
گلگت کی رہائشی علیزہ خان فورمین کرسچن کالج میں میڈیا سائنسز کی طالبہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے حکومتی فیصلے کے پیش نظر یونیورسٹی بند کرتے ہوئے انھیں مارچ کے تیسرے ہفتے میں ایک ہی دن میں ہاسٹل خالی کرنے کا کہا، جس کے بعد سے وہ گلگت شہر میں مقیم ہیں۔
علیزہ کا کہنا ہے ’گذشتہ ہفتے انھیں ایک ای میل کے ذریعے آن لائن کلاسز کا شیڈول موصول ہوا جبکہ انٹرنیٹ کی غیر موزوں سروس والے علاقوں کے طالب علموں کو یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدیدار کو آگاہ کرنے کا کہا گیا تھا۔‘
علیزہ خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گلگت شہر میں رہتی ہیں جہاں انٹرنیٹ کی سہولت قریبی علاقوں سے بہتر ہے لیکن بجلی کی شدید لوڈشیڈنگ کی وجہ سے انھیں آن لائن کلاسز میں مشکلات کا سامنا ہے۔
وہ کہتی ہیں ’ہماری آن لائن کلاس میں ایک بھی ایسا دن نہیں رہا جس میں سٹوڈنٹس نے لیکچر سمجھ نہ آنے کی شکایت نہ کی ہو۔ میں نے اور میری کلاس کے متعدد طالب علموں نے یونیورسٹی انتظامیہ کو اس پریشانی سے آگاہ کیا ہے، جس کا تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا ’یونیورسٹی انتظامیہ نے سینئیر طالب علم کے ذریعے بتایا ہے کہ ان کے مڈ ٹرم امتحانات اسائنمنٹس کی بنیاد پر لیے جائیں گے، جو کہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ انتظامیہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اسائنمنٹس کی تکمیل بھی ان حالات میں انٹرنیٹ کے بغیر ممکن نہیں اور یہ سٹوڈنٹس کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔‘
اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن سائنسز کے متعدد طالب علموں نے بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے اسی قسم کی مشکلات سے آگاہ کیا ہے تاہم ان میں کوئی بھی نام واضح کرنے پر رضامند نہیں، جس کی وجہ طالب علموں کی جانب سے یونیورسٹی انتظامیہ کا میڈیا پر یونیورسٹی سے متعلق خبر آنے پر سخت رویے کا اظہار کرنا بتایا گیا ہے۔
صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم ہونے والے باجوڑ ضلع کے رہائشی ایک طالب علم نے بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے علاقے میں 20 گھنٹے سے زائد لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے نہ تو موبائل چارج ہو پاتا ہے اور نہ ہی لیپ ٹاپ۔
وہ کہتے ہیں کہ باجوڑ میں صرف ایک موبائل کمپنی کے نیٹ ورک پر ٹو جی انٹرنیٹ سروس مہیا کی جاتی ہے، جس کی مدد سے آن لائن کلاس میں شامل ہونا تو دور کی بات، واٹس ایپ میسجز موصول ہونے میں بھی دو سے تین دن لگ جاتے ہیں۔
سندھ کے ضلع لاڑکانہ کے ایک گاؤں کے رہائشی نمل یونیورسٹی کے ہی ایک طالب علم کا کہنا ہے کہ کورونا کی وبا سے درپیش حالات میں میرے لیے ایزی لوڈ یا انٹرنیٹ پیکج کرانا بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔
’سندھ میں کورونا کی صورتحال کی وجہ سے مقامی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے پاکستان کے دیگر حصوں کی نسبت بہت زیادہ سختی ہے، ایک جانب گھر سے باہر نکلنا مشکل اور خطرناک ہے تو دوسری جانب تمام تجارتی مراکز مکمل طور پر بند ہیں، اور جو اکا دکا دکانیں کھلتی ہیں وہاں موبائل کارڈز یا ایزی لوڈ میسر نہیں ہے۔‘
پنجاب یونیورسٹی لاھور کی طالبہ زینب اورنگزیب کہتی ہیں کہ آن لائن کلاسز کے حوالے سے ان کی یونیورسٹی انتظامیہ غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
’طلبا اور اساتذہ دونوں ہی ٹیکنالوجی کی زیادہ سمجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ کورونا وائرس نے سٹوڈنٹس کو نفسیاتی طور پر شدید متاثر کیا ہے اور ان حالات میں ایسے تعلیم حاصل کرنا کہ جب آپ ٹیچر کی نہ آواز سمجھ پا رہے ہوں اور نہ ہی ان سے دوبارہ پوچھنا ممکن ہو، یہ جہاں تعلیمی اعتبار سے نقصان دہ ہے وہیں نفسیاتی طور پر بھی انتہائی تکلیف دہ عمل ہے۔‘
طلبا تنظیموں کا کیا کہنا ہے
ملک بھر کے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے آن لائن کلاسز کے اجرا، امتحانات اور فیسوں کے مسئلے پر طلبا کی تنظیم پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو سوشل میڈیا پر آواز اٹھا رہی ہے۔
تنظیم کی سنٹرل کمیٹی کے رکن علی بہرام نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی بحرانی کیفیت میں حکومت کی جانب سے آن لائن کلاسز کا جو منصوبہ پیش کیا گیا ہے، اس پر ملک کے چند بڑے شہروں کی حد تک ہی عملدرآمد ہو سکتا ہے۔
علی بہرام کا کہنا ہے ’پاکستان میں ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی کہ بلوچستان یا کسی اور دور دراز کے علاقے میں بیٹھے طالب علم کو آن لائن تعلیم دی جا سکے۔‘
انھوں نے کہا ’پورا ملک لاک ڈاؤن میں ہے، کاروبار بند ہیں، انسانی جانیں نظر نہ آنے والے خطرے سے دوچار ہیں اور تعلیمی اداروں خصوصاً نجی یونیورسٹیوں کی جانب سے طلبا سے فیس کی قسط ادا کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ یہ سہولت غریب والدین نے حاصل ہی اس لیے کی تھی کہ ان کے لیے اپنے بچوں کی فیس یکمشت ادا کرنا ممکن نہ تھا۔‘
علی بہرام کا کہنا تھا کہ نجی یونیورسٹیوں کے طالب علم ان حالات میں سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
’ایک جانب ان کی تعلیم کا نقصان ہو رہا ہے اور والدین کی معاشی حالت مزید کمزور ہو رہی ہے تو دوسری جانب نفسیاتی دباؤ میں آن لائن کلاس لینا ہے جس سے وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہے۔‘
تاہم نجی تعلیمی ادارے جو اپنے اساتذہ اور ملازمین کی تنخواہیں طالب علموں کی فیس سے ادا کرتے ہیں، کے لیے حکومتی مداخلت کے بغیر طلبا کو ریلیف دینا ممکن نظر نہیں آتا۔
حکومتی مؤقف کیا ہے؟
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن ایک خود مختار ادارہ ہے اور طلبا کی جانب سے آن لائن کلاسز کے حوالے سے سامنے آنے والی شکایات دور کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرسکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ وفاق نے صوبوں کے ساتھ مسلسل رابطوں کے ذریعے سکول، کالجز اور امتحانات سے متعلق کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل اختیار کیا ہے۔
‘لیکن ہم سب کو یہ بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ اگر یہی صورتحال آئندہ چند ماہ تک جاری رہی تو دیگر شعبہ جات کی طرح تعلیمی میدان میں بھی بہت نقصان ہو سکتا ہے لہذا آن لائن کلاسز کے علاوہ دوسرا کوئی ایسا حل پیش نظر نہیں ہے جس کے ذریعے جامع انداز میں تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھا جا سکے۔ ہو سکتا ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن بھی مستقبل کو دیکھتے ہوئے آن لائن کلاسز کے سلسلے کو جاری رکھنا چاہتا ہو۔‘
نجی تعلیمی اداروں کے طلبا کو فیسوں سے متعلق سامنے آنے والے مسائل پر بات کرتے ہوئے شفقت محمود کا کہنا تھا کہ نجی ادارے اس کی وجہ اپنے ملازمین اور دیگر اخراجات کی ادائیگی قرار دیتے ہیں۔
’ہم نے صوبہ سندھ میں دیکھا کہ مکمل لاک ڈاؤن کے بعد ایسے واقعات سامنے آئے جس میں ریستورانوں نے اخراجات کم کرنے کے لیے اپنے ملازمین کو نوکریوں سے نکال دیا۔‘
وفاقی وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ اتوار کو بنی گالا اسلام آباد میں وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں کورونا وائرس کے حوالے کیے جانے والے حکومتی اقدامات پر اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا۔ اجلاس میں نجی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے والدین کے موجودہ حالات کی وجہ سے فیس نہ وصول کرنے کے مطالبے اور تعلیمی اداروں کے مؤقف پر بات بھی ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اس مسئلے پر غور کر رہی ہے اور آئندہ دنوں میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ ہم اس کے حل میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔