بابوں کی اندھیر نگری!
میں نے گزشتہ دنوں ایک کالم ’’بابوں کو ڈرانا بند کریں‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا، جس میں ڈاکٹروں کے حوالے سے بتایا تھا کہ ساٹھ سال سے اوپر کے معمر افراد کو کورونا کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے، بعد میں پتا چلا کہ ساٹھ نہیں بلکہ پچاس برس کے لوگوں کے بارے میں بھی یہی کہا گیا ہے، گویا اب پچاس برس والے بھی بزرگوں میں شمار ہوں گے۔ شکر ہے میں پچاس کا نہیں ہوں ورنہ اس الہڑ جوانی کی عمر کو بھی بزرگی قرار دینے کا صدمہ برداشت نہ کر پاتا بلکہ یہ بھی کہ اس کے بعد کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتا۔
گزشتہ چند روز سے میں اپنے بعض دوستوں کے بدلتے بیانات پر حیران ہوتا تھا اور اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی تھی، مثلاً گزشتہ روز ہم تین چار دوست ایک جگہ چھ چھ فٹ کے فاصلے پر بیٹھے، چہرے پر ماسک چڑھائے، جیب میں صابن اور سینی ٹائزر رکھے گپ شپ میں مشغول تھے، ایک دوست کو پرفیوم سے الرجی تھی، چنانچہ اگر بھرے مجمع میں بھی اس کے پاس سے کوئی ایسا شخص گزر جاتا جس نے پرفیوم لگایا ہوتا تو پندرہ بیس منٹ تک اس کی چھینکیں نہیں رکتی تھیں، اس روز میں نے پرفیوم لگایا کیا، پورے جسم پر اس کا چھڑکائو کیا ہوا تھا کیونکہ ان پچاس سالہ بزرگوں کے بدبو دار خیالات کا یہی علاج تھا، مگر مجال ہے میرے اس دوست نے ایک بار بھی چھینکا ہو، بس تھوڑی تھوڑی دیر بعد ذرا سا منہ کھولتا تھا اور پھر چھینکے بغیر بند کر لیتا تھا۔ اسے علم تھا کہ اگر اس نے ایک چھینک بھی ماری تو ہم میں سے کسی نے اسے کورونا کا مریض قرار دے کر پولیس کو فون کر دینا تھا، چنانچہ اس کی ہر چھینک:
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
کی صورتحال پیش کر رہی تھی، مگر جو بات میں بتانے جا رہا تھا وہ یہ تھی کہ یہ دوست جن کی عمریں پچاس اور ساٹھ برس کے درمیان تھیں، اچانک کوئی بےموقع بات کر دیتے۔ اب بات کسی اور موضوع پر ہو رہی تھی کہ اچانک ایک نے ہمیں مخاطب کیا اور کہا ’’یار! کیسا زمانہ آگیا ہے کہ کسی روز ذرا سا زیادہ کام کر لوں تو تھکن محسوس ہونے لگتی ہے۔ اب چالیس سال بھی کوئی عمر ہوتی ہے کہ انسان تھکاوٹ محسوس کرے؟‘‘ جب اس نے اپنی عمر میں سے اکٹھے بیس برس کم کیے تو میں نے اس کی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا ’’یار! تم چالیس کی بات کرتے ہو، میں تو تیس برس کی عمر میں یہی محسوس کرنے لگا ہوں‘‘۔ یہ سن کر تیسرے دوست نے لقمہ دیا ’’بات یہ ہے کہ ہماری اشیائے خور و نوش میں ملاوٹ نے ہمیں وقت سے پہلے نڈھال کر دیا ہے، تم تو جانتے ہو میں ابھی پچیس سال کا ہوں، پانچ سال پہلے تک میں سارا دن گھوڑےکی طرح دوڑتا تھا مگر اب لگتا ہے جسم میں جان ہی نہیں رہی‘‘۔
کمرے میں بیسن بھی لگا تھا، ہم میں سے ہر کوئی تھوڑی دیر بعد اٹھتا، اپنی جیب سے صابن نکالتا اور بیس سیکنڈ تک ہاتھ پر صابن لگا کر اسے مل مل کر دھوتا، اس کے بعد جیب سے ٹشو پیپر نکالتا ہاتھوں کو خشک کرکے ایک اور جیب سے سینی ٹائزر نکالتا اور یوں سب جراثیم کو کیفر کردار تک پہنچا کر واپس اپنی جگہ پر آ کر بیٹھ جاتا، مگر ہماری بدقسمتی کہ محفل میں ہمارا ایک ایسا دوست بھی موجود تھا جسے ہم کالی زبان والا کہتے ہیں۔ اس کے منہ سے کبھی خیر کی کوئی خبر سننے کو نہیں ملتی، اس نے ہمیں مخاطب کیا اور کہا ’’پچاس سے نوے سال تک کے لوگوں کے بارے میں ڈاکٹر حضرات بری بری باتیں کرتے ہیں مگر اب پتا چلا ہے کہ ضروری نہیں جوان کورونا سے بالکل محفوظ ہوں چنانچہ ابھی تک ہونے والی اموات میں نوجوانوں کی بھی ایک معقول تعداد موجود ہے، اس پر یہ خود ساختہ پچیس، تیس اور چالیس سال کی عمر کے چہروں پر مردنی چھا گئی۔ اس پر مجھے خدشہ محسوس ہوا کہ ابھی کسی بچے کی رونے کی آواز آئے گی اور یہ ’’نوزائیدہ‘‘ زمین پر ٹانگیں چلاتے ہوئے کہے گا ’’میں نے امی کے پاس جانا ہے، میں نے امی کے پاس جانا ہے‘‘ مگر شکر ہے کہ اس کی نوبت نہیں آئی، بلکہ مزید اللہ کا شکر یہ کہ کمرے میں اس گھر کے اسی سالہ بزرگ داخل ہوئے، ہم سب ان کے احترام میں کھڑے ہوگئے، انہوں نے ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پھر خود ایک خالی کرسی پر بیٹھ گئے۔ بولے ’’آپ لوگوں کی گپ شپ کی آوازیں اندر سنائی دے رہی تھیں، میرے تین چار قریبی عزیز بابے ملنے آئے ہوئے تھے، میں بزرگوں کے ساتھ زیادہ دیر تک نہیں بیٹھ سکتا، اپنے ہم عمروں کے ساتھ گپ شپ کا مزا ہی کچھ اور ہے، چنانچہ انہیں بڑی مشکل سے ٹالا ہے۔ اور سنائو کیسی گزر رہی ہے، آج کل تو تم اپنی گرل فرینڈز سے بھی نہیں مل رہے ہو گے، یہ احتیاط اچھی ہے، ابھی بڑی عمر پڑی ہے، ساری عمر ملنا ہی ہے، خود میں بھی گریز کر رہا ہوں‘‘۔
اس پر مجھے میر تقی میرؔ سے منسوب مہاراج بہادر ورما برقؔ کا ایک شعر یاد آیا:
وہ آئے بزم میں اتنا تو برقؔ نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
چنانچہ اتنے اندھیرے بلکہ اندھیر نگری میں ہم نے زیادہ دیر بیٹھنا مناسب نہ سمجھا اور ایک ایک کرکے وہاں سے غائب ہوتے چلے گئے۔