کالم

کرونا، الہام اور الحاد!!

Share

مجھے کالم لکھنے کی تحریک اپنے قارئین کے سوالات سے ملتی ہے۔ دیپالبور سے ایک طالبعلم یاسین نے پوسٹ بھیجی اور اس پر تبصرے کا طالب ہوا۔ کرونا وائرس کی وبا کے حوالے سے پھیلنے والا یہ پیراگراف بغیر کسی قطع برید کے من و عن اپنے قارئین کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ “کرونا وائرس نے بت کدوں کو ویران کردیا، کعبہ بھی سنسان ہے، دیوار گریہ اور کربلا میں اتنا ویرانہ ہے کہ وہ خود پہ نوحہ کناں ہیں، ویٹی کن سٹی کے کلیساؤں میں ہْو کا عالم ہے، یروشلم کی عبادت گاہیں سائیں سائیں کررہی ہیں۔ وضو کو کرونا کا علاج بتانے والے مذہبیوں نے کعبے کو زم زم کے بجائے جراثیم کش ادویات سے دھویا ہے، گئوموتر کو ہر بیماری کی دوا بتانے والے پنڈت کہیں منہ چھپائے بیٹھے ہیں، کلیساؤں کی گھنٹیاں پیروکاروں کے درد کا مداوا نہیں کررہیں۔ کرونا وائرس نے عقیدت کا جنازہ نکال دیا ہے، شراب کو حرام بتانے والے الکحول سواب کی مدد لے رہے ہیں، ارتقائے حیات اور بگ بینگ تھیوری کی بنیاد پر سائنس کو تماشہ کہنے والے لیبارٹریوں کی جانب تک رہے ہیں کہ یہیں سے وہ نسخہ کیمیا نکلے گا جو دنیا کے کروڑوں انسانوں کی زندگیاں بچاسکتا ہے۔ کرونا نے انسانوں کو illusion سے نکال کر ایک حقیقی دنیا کا چہرہ دکھایا ہے، اپنی بقا کی سوچ نے انسانیت کو مجبور کردیا کہ وہ سچ کا سامنا کرے اور سچ یہی ہے کہ مذہبی عقیدے کی بنیاد پر تو شاید مکالمہ ہوسکتا ہے مگر مذہبی عقیدت کی بنیاد پر کبھی دنیا کے فیصلے نہیں ہوسکتے”
بادی ٔ النظر میںیہ پیراگراف اردو ادب کا ایک شاہکار ہے۔ لکھنے والا کتنا باادب ہے‘ یہ الگ بحث ہے۔ لطف کی بات یہ ہے اہلِ الہام کے ہاں فصاحت و بلاغت کو اہل الحاد علم الکلام کہہ کر بے اعتنائی کی راہ لیتے ہیں جبکہ اپنے ہاں لفظوں کی چاشنی سے تیار کیے گئے حلوے کو ایک شیریں دلیل تصور کرتے ہیں۔ اس پر تبصرے کیلئے حسب ِ دستورایک تمہید باندھنا ہوگی‘ تمہید طولانی ہوگئی تو برداشت کرنا ہو گی۔
آدم تا ایں دم ‘اَبنائے آدم دو قسم کے فکری گروہوں میں منقسم ہیں، ایک فکری قبیلہ اہل الہام کا ہے ،اور دوسرا اہلِ الحاد کا۔ ہابیل اہلِ الہام کا نمائیندہ ہے، وہ قتل ہو جاتا ہے، ظالم کی بجائے مظلوم بننا پسند کر لیتا ہے لیکن اپنے ظالم، قاتل اور گوشت کے رسیا بھائی کے ساتھ اس کا آخری مکالمہ یہی ہوتا ہے کہ اگر تم مجھ پر ہاتھ اٹھاؤ گے تو اس کے جواب میں میرا ہاتھ قتل کی نیت سے تم پر نہیں اٹھے گا۔ قابیل اہلِ الحاد کا نمائندہ ہے۔ وہ اس دنیا میں راہنمائی کیلئے کسی آسمانی ہدایت کا قائل نہیں، وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی حیوانی جبلتوں کے زیر اثر بسر کرنے کو “حقیقی دنیا” تصور کرتا ہے۔ اس کے برعکس اہل الہام قدم قدم پر اپنی ذاتی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی تک انبیا و صحف سے راہنمائی کے طالب ہوتے ہیں۔ فکری گروہوں کی یہ تقسیم ازل سے جاری ہے اور جب تک غیب کا پردہ اٹھ نہیں جاتا اور موت یا قیامت کی حجت قائم نہیں ہو جاتی، یہ تقسیم یونہی جاری رہے گی۔
یہاں خرقۂ سالوس میں چھپے مہاجن اور شاہیں کے نشیمن پر متصرف کسی زاغ کا دفاع ہرگز مقصود نہیں۔ یہاں مقصد ان فکری مغالطوں کو دُور کرنا ہے جو اہل الہام اور الحاد کے مابین مکالمے میں سد راہ ہیں۔ ایک ملحد اگر مخلص ہے تو میرے نزدیک قیمتی روح ہے، میں اسے متلاشی ذہن اور متجسس روح سمجھتا ہوں۔ اگر ملحد ضد پر اُتر آئے تو کٹھ ملا سے بدتر ہے۔ دین کا مدعی اگرمفاد پرست ہے‘ راہِ عدل سے دورہے تو میرے نزدیک وہ دشمن ِ دین و ایمان ہے۔
اہلِ الہام اور الحاد دونوں ایک جگہ فکری غلطی کرتے ہیں، دونوں ہی ایمان کی دلیل عالمِ شہود میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سچا ہونے کیلئے جس طرح طاقت کا ہونا یا نہ ہونا دلیل نہیں، اس طرح ماورائے زمان و مکاں حق کیلئے کسی دلیل کا طاقتور ہونا بھی کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ دراصل ہردلیل ایک مخصوص دائرۂ کار کے اندر ہی وزن رکھتی ہے، فزکس کے اصولوں پر کیمسٹر ی نہیں پڑھی جا سکتی، اکنامکس کے کلیے طب میں بطور دلیل کام نہیں آتے۔ انسانی دنیا میں بہت سے علوم ایسے ہیں جو دلیل اور منطق کے بغیر مانے اور منوائے جاتے ہیں، یہ علوم صرف اساتذہ کے ہونے سے پائے جاتے ہیں… معجزۂ فن رنگ کا ہو یا خشت و سنگ کا یا پھر کوئی نغمۂ حرف و صوت ‘ ان کی نمو اور نمود کسی دلیل کی محتاج نہیں … کسی جوہرِ قابل کا خونِ جگر اس کے ظہور کاسبب ہے۔تمام فنون لطیفہ کسی دلیل اور مفادکے محتاج نہیں بلکہ ان کی دلیل فن کار کی اپنی ذات ہے۔ کیا ہم مذہب کو اپنی زندگی میں وہ اہمیت بھی دینے کیلئے تیار نہیں جو کسی جمالیاتی علم کو دیتے ہیں؟ یہ شوق کا سودا ہوتا ہے میاں! یہ ذوق کا سامان ہے، یہ تسکینِ قلب و جاں کا بندوبست ہے۔ ایمان دلیل کا نہیں دل کا سودا ہے… دل کی دلیل ظاہر میں تلاش کرنا ‘زندگی کو بدمزہ کرنے کی ترکیب ہے۔
ایک دلیلِ کم نظری یہ بھی ہے کہ ہم دین اور سائینس کا تقابل پیش کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں، اگر سائینس سے دلیل مل گئی تو تالیاں پیٹ لی جائیں، اگر سائینس سے عدم تطابق نظر آیا تو سر پیٹ لیا۔ خدا کی تلاش سائینس کا دعو ٰی ہی نہیں، اور اسباب کی دنیا میں اپنے ماننے والوں کو اسباب سے بے نیاز کر دینا مذہب کا دعویٰ نہیں۔ دیگر مذاہب کے بارے میں تو مجھے کچھ اتنا درک نہیں لیکن میرا دین ‘دین ِ فطرت ہے… میرے دین میں دشمن کے مقابلے میں گھوڑے تیار رکھتے کا حکم ہے، یہاں دوا کو سنت بتایا گیا ہے، یہاں بتایا گیا ہے لاتبدیل لسنت اللہ …قوانین ِ فطرت اللہ کی سنت ہیں۔ یہاں مجھے بتایا گیا ہے کہ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔ یہاں مجھے حکم ہے کہ جس جگہ وہا پھیل چکی ہو‘ وہاں مت جاؤ اور اگر کسی وبا زدہ علاقے میں پہلے سے موجود ہو تو وہاں سے باہر مت نکلو۔ میرے دین میں مفاد عامہ کا اتنا اہتمام ہے کہ اگر بارش ہو رہی ہو تو حکم ہے کہ نماز گھر میں پڑھ لو۔ نماز باجماعت میں شامل ہونے کیلئے دوڑ کر شامل ہونے سے منع کر دیا گیا کہ دوڑتا ہوا اِنسان اپنی تکریم سے دُور ہو جاتا ہے۔یہاں تکریم ِ انسانی کا یہ عالم ہے کہ ہادیٔ عالم ﷺ کے فرمان کے مطابق مومن کی جان، مال اور عزت کی حرمت کعبے کی حرمت سے بھی زیادہ ہے۔ میرا دین تو مجھے تفکر و تدبر کی دعوت دیتا ہے۔ وہ صرف صفائی ہی نہیں بلکہ طہارت کے تصور سے بھی مجھے روشناس کرواتا ہے۔ طہارت سے آشنا جسمانی صفائی سے کبھی غافل رہ نہیں سکتا۔ میرا دین مجھے جرم سے بھی پہلے گناہ کے تصور سے آشنا کرتا ہے۔ جو گناہ سے بدک گیا وہ جرم کی دنیا میں کبھی داخل نہ ہو گا۔
ٍفلسفے کو سائینس کی دنیا سے کوئی دلیل میسر آ جائے تو پھولے نہیں سماتا، کرونا وائرس نے گویا الحاد کو coronate کر دیا ہے۔ اس کے برعکس دین کسی سائینسی دلیل سے بے نیاز ہے۔ دین کا دعو ٰی ہے کہ ہم تمہیں ایک ایسی دنیا کی خبر دیتے ہیں جو مادے سے ماورا ہے، جہاں تمہاری مادی عقل کی رسائی نہیں…اور یہ کہ تم صرف جسم ہی نہیں روح بھی ہو، تماری روح کے بھی کچھ تقاضے ہیں، تمہاری روح کی ربوبیت کیلئے ہم تمہیں اپنے انبیا کے ذریعے تعلیم و تربیت دیں گے۔ تم صرف ظاہر ہی نہیں ‘ باطن بھی ہو۔ تمہارے مرنے کے بعد تمہارا باطن ظاہر ہو جائے گا۔
دین کا ماخذ باطن ہے، اور یہ بنیادی طور پر ہمارے باطن کو خطاب کرتا ہے،دین ظاہر میں تبدیلی بزورِقوت نہیں چاہتا بلکہ بذریہ ترغیب و تفکر کرتا ہے۔ میرا دین مجھے جبر نہیں سکھاتا۔ نہ ماننے والوں کے ساتھ میرے مکالمے کے آداب “وجادلھم بالتی ھی احسن” سے شروع ہوتے ہیں اور کسی لڑائی جھگڑے میں شامل ہوئے بغیر “لااکرہ فی الدین” اور “لکم دینکم ولی دین” پر میرا ان کے ساتھ مکالمہ ختم ہو جاتا ہے۔ میں دینِ فطرت پر کاربند ہوں۔
ایمان ہوتا ہی ایمان بالغیب ہے… یعنی ایسی دنیا کی اطلاع پر یقین جہاں ہمارے حواسِ خمسہ اور عقل کی رسائی نہ ہو۔ ایمان کی دلیل عالمِ شہود ( ٹائم اینڈ اسپیس ) میں میسر نہیں آسکے گی۔ اگر ایمان کی دلیل عالمِ ظاہر میں ظاہر ہوگئی تو انبیا کی حجت ہی باقی نہ رہے گی۔ایمان صفات پر نہیں بلکہ ذات پر ہوتا ہے… ایمان ذات سے ذات کا سفر ہے۔ ایمان کی حقیقت رسولﷺ کی ذات پر ایمان ہے۔ جسے اس ذاتؐ سے قلبی تعلق و باطنی تمسک میسر نہیں‘ اس کیلئے ایمان کا لفظ ایک ڈکشنری میں درج کسی متروک لفظ زیادہ کچھ نہیں۔ اس لیے اے صاحبان غور و فکر! ایمان کی دلیل باہر کی دنیا میں تلاش کرنے کا دھندا نہ پکڑیں، اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع نہ کریں۔ ایمان کی تلاش ہے تو اپنے دل میں جھانکیں، دل سے جواب آئے گا…اور ضرور آئے گا۔ ہاں! مگر دلِ زندہ سے!!
ہر صاحب ِ دل جانتا ہے کہ انسان محض جسم اور دماغ کا مجموعہ ہی نہیں، انسان کی زندگی محض جبلتوں کے تعامل، عمل اور ردِ عمل اور سبب اور نتیجے تک محدود نہیں، اسے رہنے کیلیے صرف روٹی اور مکان ہی کی ضرورت نہیں بلکہ ایک خوبصورت احساس اور خیال کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ بڑا ظلم ہے ، اے مبلغِ الحاد!… یہ بڑا ظلم ہے ‘ تم عالم ِ انسانیت کو اپنے پاس سے کوئی بہتر خیال نہیں دے سکے… اور جو سرمایۂ خیال اسے پہلے سے میسر ہے ‘ اسے تم چھیننے کے درپے ہو ۔ اس سے بڑھ کوئی تخریب کاری نہیں… فکری تخریب کاری خود کش حملوں سے زیادہ مہلک ہوتی ہے۔ فکری تخریب کاری کی تباہ کاری کسی تابکاری کی طرح صدیوں تک انسانی روح و بدن کو گھائل کرتی رہتی ہے۔
اللہ کی عبادت جس گھر سے شروع ہوتی ہے وہ انسان کا اپنا دل ہے، اس کی اطاعت اور بغاوت کے سارے مرحلے اسی گھر میں طے ہو جاتے ہیں۔ سجدہ دراصل سجدۂ تسلیم ہے اور یہ تسلیم ہماری اپنی ہے۔ ہماری ہی پیشانی سجدہ گاہ ڈھونڈتی ہے۔ اللہ الصمد ذات اپنی ذات میں خود غنی اور حمید ہے، اسے عبادت کی حاجت ہے نہ کسی عبادت گاہ کی۔ عبادت اور عبادت گاہیں انسان کی اپنی ضرورت ہیں۔
علاج اور شفا میں فرق ہوتا ہے… علاج تو لیبارٹری سے دریافت ہو جائے گا ‘ شفا اور شفاعت کیلئے انسان کو انسان کے پاس جانا ہوگا… انسانِ کاملﷺکے پاس!