سپریم کورٹ میں قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر سماعت: ’ہاتھ دھونے کی تاکید کے علاوہ کچھ نہیں ہو رہا‘
پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ ملک میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے صرف ٹی وی پر 20 سیکنڈ تک عوام کو ہاتھ دھونے کی تاکید کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو رہا۔
انھوں نے یہ بات کورونا وائرس کے ممکنہ پھیلاؤ کے پیش نظر ملک کی ہائی کورٹس کی طرف سے انڈر ٹرائل قیدیوں کی رہائی کے فیصلے کے خلاف پیر کے روز درخواست کی سماعت کے دوران کی۔
عدالتِ عظمیٰ کا پانچ رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس کی سربراہی میں ان درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے۔
عدالت نے کورونا وائرس کے انسداد کے لیے کیے گئے اقدامات پر وفاق سمیت چاروں صوبوں کی طرف سے پیش کی جانے والی رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمام حکومتی اقدامات صرف کاغذوں میں ہی ہیں جبکہ عملی طور پر کچھ نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں یہ کس طرح کی ایمرجنسی ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کی او پی ڈیز بند کر دی گئیں اور عارضہ قلب اور شوگر کے مریضوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اُنھیں اپنی اہلیہ کے طبی معائنے کے لیے ایک بہت بڑا ہسپتال کھلوانا پڑا۔
انھوں نے کہا کہ وزارت صحت کی طرف سے خط لکھا گیا کہ سپریم کورٹ میں جو ڈسپنسری ہے اس کو بند کردیا جائے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ’کیا اس طرح اس وبا سے نمٹا جا رہا ہے؟‘
چیف جسٹس نے کہا کہ وفاق اس معاملے میں کچھ بھی نہیں کر رہا اور حکومت کی طرف سے جو رپورٹ جمع کروائی گئی ہے وہ اس بات کا واضح ثبوت ہے۔
اٹارنی جنرل خالد محمود نے عدالت کو بتایا کہ ایک رپورٹ پیر کے روز بھی جمع کروائی گئی ہے جس میں اس وبا سے نمٹنے کے لیے کیے جا رہے اقدامات کا ذکر ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر عدالت مناسب سمجھے تو وہ اس معاملے میں چیمبر میں بریفنگ دینے کو تیار ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ زمین پر جو کچھ ہو رہا ہے اس سے بادی النظر میں یہ تاثر مل رہا ہے کہ کچھ نہیں ہو رہا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کیمرہ کیا بریفنگ دیں گے عدالت کو سب معلوم ہے۔
واضح رہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے چند روز قبل ایک رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی تھی جس میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھا کہ اپریل کے اخر تک پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد 20 ہزار سے زیادہ تک پہنچ سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اب تک ہزار ہزار بستروں پر مشتمل 10 ہسپتال بن کر فعال ہو جانے چاہیے تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ قرنطینہ مراکز کے ایک ایک کمرے میں دس دس لوگ رہ رہے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے اربوں روپے مختص کیے گئے ہیں مگر یہ رقم کہاں خرچ ہو رہی ہے کچھ معلوم نہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا اور سندھ کی حکومتیں صرف پیسہ مانگ رہی ہیں لیکن کام نہیں کر رہیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اس وبا پر قابو پانے کے لیے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ گھروں سے ہی احکامات جاری کر رہے ہیں۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ٹی وی پر ڈاکٹر ظفر مرزا کی روزانہ کی بنیاد پر پروجیکشن ہو رہی ہے۔
سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا کہ کیا وزارت وفاع کی طرف سے بھی کوئی پیش ہوا ہے، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالت نے وزارت دفاع میں سے کسی کو طلب نہیں کیا تھا۔
بینچ میں موجود جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا عملی طور پر اقدامات نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی نے کرنے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ این ڈی ایم اے کے ذمے چیزوں کا حصول اور اس کی تقسیم ہے، جس پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہویے کہا کہ ’آپ لوگوں کو پیسے لینے کا عادی بنا رہے ہیں۔‘
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان سٹیل ملز میں گذشتہ 15 سال سے لوگ بغیر کام کیے ہوئے تنخواہیں اور دیگر مراعات لے رہے ہیں جبکہ شپ یارڈ بھی ایک کشتی تک نہیں بنا رہا لیکن تنخواہیں سب لے رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ایک چھوٹی سی کشتی بھی درکار ہو تو چین سے مدد لی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی بندہ کام نہیں کر رہا اور سب فنڈ حاصل کرنے کی بات کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ صوبائی حکومتیں پیسے بانٹ دو اور راشن بانٹ دو کی باتیں کر رہی ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سب کا زور مفت راشن تقسیم کرنے پر ہے کیونکہ عوام کے کاروبار تو پہلے ہی بند کر دیے گئے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ صوبے کہہ رہے ہیں کہ اربوں روپے دے دو کیونکہ دستانے اور ماسک خریدنے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان کے اراکین اسمبلی پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے ڈرتے ہیں جبکہ اس کے برعکس یورپ اور امریکہ نے اس وبا سے نمٹنے کے لیے قوانین بھی بنا دیے ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی شروع کر دیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ لوگوں کے کورونا ٹیسٹ کے لیے صوبائی حکومتوں کے پاس کٹس موجود ہی نہیں ہیں۔
بینچ میں موجود جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ بنیادی حقوق اہم نہیں ہیں تو یہ سوچ غلط ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ بنیادی حقوق کی فراہمی اور تحفظ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونی چاہیے۔
سماعت کے دوران وزارت انسانی حقوق کی طرف سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا کہ پشاور ہائی کورٹ نے 3200 قیدیوں کی رہائی کے احکامات دیے جس پر صوبہ خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل نے اس رپورٹ کی نفی کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ حقائق پر مبنی نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایسے ملزمان کو بھی رہا کر دیا ہے جن پر بدعنوانی کے الزامات تھے۔
انھوں نے سوال اٹھایا کہ رہا کیے گئے ملزمان کو کیسے واپس لایا جائے گا؟
اس پر اڈیالہ جیل راولپنڈی کے سپرنٹینڈنٹ نے عدالت کو بتایا کہ قیدیوں کی رہائی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کا کوئی حکم نامہ نہیں ملا تھا۔
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات کے مطابق اب تک اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر 300 کے قریب قیدیوں کو رہا کیا جا چکا ہے۔
اس درخواست کی سماعت سات اپریل یعنی کل تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔