کالم

حکومت سندھ، ڈاکٹرزاور میڈیا کارکنان شابا ش کے مستحق ہیں

Share

آج کالم میں کچھ لائق تحسین کرداروں کا ذکر کرنا چاہتی ہوں، جو اکثر و بیشتر ہماری تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔
حکومت سندھ کی کارکردگی کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کبھی نااہلی، کبھی کچرے کے ڈھیر، کبھی کرپشن، کبھی بد انتظامی اور کبھی کسی اور بہانے یا جواز پر۔ ان باتوں میں جزوی یا کلی صداقت بھی ہو سکتی ہے۔تاہم کرونا وائرس سے جنم لینے والی صورتحال کے ہنگام، سندھ حکومت نے جس عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا وہ انتہائی قابل تحسین ہے۔ ایک وقت تھا جب بطور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا ڈنکا بجا کرتا تھا۔ صوبوں کی کارکردگی کا ذکر ہوتا تو پنجاب حکومت تمام صوبائی حکومتوں میں نمایاں نظر آتی تھی۔ تاہم اس وقت حکومت سندھ اور وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے چرچے ہیں۔ اگرچہ سندھ حکومت کو دوست میڈیا بھی میسر نہیں۔ لیکن کہا یہ جاتا ہے کہ” جادو وہ،جو سر چڑھ کر بولے”۔ سو کرونا کا بروقت اور پوری مستعدی کے ساتھ مقابلہ کرنے کے حوالے سے سندھ سب پر بازی لے گیا ہے۔ بجائے اسکے کہ وفاق اپنی اکائیوں کے لئے مثال بنتا، حکومت سندھ، وفاق اور دوسرے صوبوں کیلئے ایک نمونہ بن گئی۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے حقیقی معنوں میں چیف ایگزیکٹو کا کردار نبھاتے ہوئے پہل کی اور ہر موقع پر بروقت فیصلے کیے۔ ایک نہایت مثبت اقدام مراد علی شاہ نے یہ اٹھایا کہ اپوزیشن جماعتوں کیساتھ ایک میز پر جا بیٹھے۔یعنی فوری طور پر اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں کیساتھ ایک خصوصی ملاقات کا اہتمام کیا اور انہیں اعتماد میں لیا۔ اس سارے معاملے کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ یہ تمام ذمہ داریاں خاموشی سے سر انجام دے رہے ہیں۔ ایک آدھ بار میڈیا پر آئے بھی تو نپی تلی بات کی۔ نہ بلند آہنگ دعوے۔نہ فلسفیانہ تقریر۔ نہ لمبے چوڑے سیاسی بھاشن۔ نہ دوسرے سیاست دانوں اور صوبوں کی کارکردگی پر تنقید۔ اگرچہ اس مشکل وقت میں بھی وفاق اور صوبوں میں بہت سوں کو اپنی تشہیر کی فکر کھائے جا رہی ہے۔اس مقصد کے حصول کیلئے انہیں گھنٹوں میڈیا کے سامنے آکر تقاریر بگھارنا پڑتی ہیں۔ مگرمحسوس یہ ہو رہا ہے کہ سندھ حکومت کو فی الحال تشہیر سے کوئی غرض نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی مبارکباد کی مستحق ہے کہ اس مشکل صورتحال میں اسکی حکومت نے ایسا کردار نبھایا جو قابل تعریف ہے اور قابل تقلید بھی۔ کم از کم کرونا کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ سندھ اس وقت ایک رول ماڈل بن چکا ہے۔

ایک وقت تھا کہ ڈاکٹر کاذکر سنتے ہی ہمارے ذہن میں مسیحا کا تصور ابھر تا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ پاکستا ن میں “ینگ ڈاکٹرز “نامی تنظیم نے جنم لیا۔ نوجوان ڈاکٹروں سے متعلق خبریں تسلسل کیساتھ میڈیا کی زینت بننے لگیں۔ عمومی طور پر یہ خبریں احتجاج، ہڑتال، تالہ بندی، اور مار پیٹ سے متعلق ہوا کر تی تھیں۔ رفتہ رفتہ مسیحائی کا تصور ہمارے ذہنوں میں مدھم پڑتا گیا۔ جب کبھی شعبہ طب اور ڈاکٹر وں کا ذکر ہوتا تو ہمیں فوری طور پر ینگ ڈاکٹر ز یاد آجاتے۔ انکی جانب سے ہونے والی ہسپتالوں کی تالہ بندی اور سینئر ڈاکٹروں کی مار پیٹ کی خبریں اور مناظر ذہن میں گردش کرنے لگتے۔ اس وبائی صورتحال نے ایک بار پھر ڈاکٹر وں کو مسیحاوں کے روپ میں ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ ڈاکٹر، نرسیں اور معاون طبی عملہ کرونا کیخلاف لڑنے والا ہر اول دستہ ہے۔ اس وقت ہم سب اپنی اپنی جان بچانے کی غرض سے گھروں میں مقید ہیں، لیکن شعبہ طب سے وابستہ افراد اپنے فرائض بخوبی سر انجام دے رہے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس ہر اول دستے کو اس عالم میں ایک موذی وائرس کا مقابلہ کرنا پڑا کہ وہ ضروری ہتھیاروں سے لیس نہ تھا۔ نہ انکے پاس حفاظتی سامان تھا، نہ ماسک، نہ دیگر تحفظاتی اسباب۔ تاہم ان حالات میں بھی ڈاکٹروں، نرسوں اور معاون طبی عملے نے تاریخی کردار نبھایا اور اب بھی نبھا رہے ہیں۔ اس جہاد میں ڈاکٹروں کی جانیں بھی گئیں۔ لیکن وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اپنے مقدس مشن میں مگن ہیں۔

پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ڈاکٹر اور طبی عملہ کسی ہیرو کی صورت ہمارے سامنے ہے۔ انکی تحسین ہو رہی ہے۔ انکے لئے تعریفی نغمے گائے جا رہے ہیں اور جھنڈے لہرائے جا رہے ہیں۔ عوام الناس کیطرف سے ملنے والے اس خراج تحسین پر یقینا شعبہ طب سے وابستہ افراد کا حوصلہ مزید بڑھے گا۔ بزدار حکومت نے شعبہ طب سے وابستہ افراد کو رسک الاونس (risk allowance) کے نام پر ایک اضافی تنخواہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ یقینا اچھا فیصلہ ہے۔اس مشکل صورتحال میں ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کی عمدہ کارکردگی کو عملی طور پر سراہا جانا چاہیے۔ لازم ہے کہ انہیں حفاظتی سامان فراہم کیا جائے اور مزید مراعات بھی دی جائیں۔
اس مشکل صورتحال میں میڈیا کا کردار بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستانی میڈیا اگرچہ کسی بھی حکومت کو پسند نہیں آتا لیکن اس نے امتحان کی اس گھڑی میں بڑی حد تک مثبت کردار ادا کیا ہے۔ عوام کو حفاظتی تدابیر کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنے میں میڈیا نے کو تاہی کا مظاہرہ نہیں کیا۔حکومتی اقدامات اور ہدایات کی بھی مناسب تشہیر کی گئی۔ معلومات افزاء ٹاک شوز ہوئے اور یہ سلسلہ ابھی چل رہا ہے۔ مفاد عامہ سے متعلق پیغامات (public service messages) رضاکارانہ طور پر بنائے اور چلائے جا رہے ہیں۔خصوصی طور پر میڈیا رپورٹرز اور کیمرہ مین کرونا کی کوریج کے حوالے سے صف اول میں رہے اور اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالا۔ وہ اس وقت بھی ہسپتالوں میں فرائض سر انجام دے رہے ہیں اور دیگر خبریں بھی ہم تک پہنچا رہے ہیں۔ انہیں ضرور شاباش دی جانی چاہیے۔لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہم تک دنیا بھر کی خبریں پہنچانے والے میڈیا کارکنان کی حالت اچھی نہیں ہے۔ بہت سے رپورٹر اور دیگر کارکنان بتاتے ہیں کہ وبائی صورتحال سے بچاو کے لئے انہیں حفاظتی اسباب مہیا نہیں ہیں۔ چند ایک صحافتی اداروں نے کچھ اہتمام ضرور کر رکھا ہے، تاہم بیشتر ادارے معمول کیمطابق کا م کر رہے ہیں۔ وزارت اطلاعات اور میڈیا مالکان کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔ اس سے بھی تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ بہت سے صحافتی اداروں نے اپنے کارکنا ن کو کئی ماہ کی تنخواہیں ادا نہیں کی ہیں۔ مالکان کو ضرور سوچنا چاہیے کہ ان حالات میں کارکنان کس مشکل سے گزر بسر کرتے ہونگے۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ کچھ ٹی وی چینل عملہ کم کرنے کی غرض سے کارکنوں کو نوکریوں سے نکال رہے ہیں۔ جنہیں فارغ نہیں کیا جا رہا انکی تنخواہوں میں کٹوتی کا اعلان کر دیا گیاہے۔ یہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہے۔ مالکان کا موقف ہے کہ حکومتی پالیسوں کی وجہ سے انہیں شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے۔کئی ماہ سے میڈیا مالکان اور صحافتی تنظیمیں وزیر اعظم عمران خان سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ میڈیا پر چلنے والے حکومتی اشتہارات کے واجبات ادا کیے جائیں۔ لیکن اس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ ان ادائیگیوں کا تخمینہ غالبا چھ ارب روپے بنتا ہے۔ حکومتوں کیلئے یہ رقم مونگ پھلی کے دانوں جتنی اہمیت رکھتی ہے۔ اس قصے کیساتھ اس خبر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ سرکاری ٹی۔وی کو مزید مالی مراعات دینے کیلئے وفاقی حکومت نے منظوری دی ہے کہ بجلی کے بلوں میں شامل ٹی۔وی کی فیس 35 سے بڑھا کر 100 روپے کر دی جائے۔ یعنی پی ٹی وی جو عوام کے بجلی بلوں سے اکھٹی ہونے والی رقوم سے سالانہ 7 ارب روپے وصول کرتا تھا، اب 21 ارب روپے وصول کیا کرئے گا۔ ایک طرف پی ٹی وی اشتہارات کی مد میں کمائی کرتا ہے۔ دوسری طرف اربوں روپے صارفین کی جیبوں سے وصول کرتا ہے۔ ا یسے میں پرائیویٹ میڈیا کا کیا قصور ہے؟ تمام پرائیویٹ میڈیا کو 6 ارب روپے کی ادائیگی سے محروم رکھنا ذیادتی ہے۔ لازم ہے کہ میڈیا اداروں کو ادائیگیاں کی جائیں۔ اسکے ساتھ ساتھ میڈیا کارکنان کی جان اور نوکری کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے بھی حکومت اور مالکان کو ضروری اقدامات کرنے چاہییں۔
موجودہ صورتحال میں دیگر طبقات، ادارے اور شخصیات بھی قابل ستائش کردار نبھا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر علماء کرام نے اس افتاد کے بارے میں جزوی اختلاف رائے کے با وجود حکومتی اقدامات کا ساتھ دینے کی تلقین کی جو اچھی بات ہے۔بہت سے فلاحی ادارے اور تنظیمیں بھی کسی نمائش اور ستائش کے بغیر خدمت خلق میں جتی ہوئی ہیں۔ خصوصی طور پرجماعت اسلامی کی الخدمت فاونڈیشن اس کار خیر میں پیش پیش ہے۔ بے شمار متمول شخصیات ہیں جو کسی تشہیر کے بغیر، متحرک ہیں۔انکا تفصیلی تذکرہ پھر کبھی سہی۔