جمالیات

پانی پت: اٹھارویں صدی کی جنگ پر بالی وُڈ میں لڑائی

Share

اٹھاریوں صدی کی پانی پت میں لڑی جانے والی جنگ پر اب لڑائی کا آغاز جدید انداز سے ہوا، یعنی ٹویٹر پر۔

بالی وُڈ کے معروف اور سینئیر اداکار سنجے دت جو فلم پانی پت میں احمد شاہ ابدالی کا کردار ادا کر رہے ہیں، انھوں نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ ‘وہ جہاں بھی جاتے ہیں موت ان کا پیچھا کر رہی ہے۔’

گذشتہ جمعے کو ریلیز ہونے والی فلم کی وجہ سے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جوش و جذبہ پیدا ہوتا۔ لیکن اس کے بجائے ایک بین الاقوامی تنازع پیدا ہو گیا: ایک پورا ملک جو اب تک بالی وُڈ کا وفادار پرستار تھا وہ اس کے خلاف غصے کا اظہار کررہا ہے۔

لیکن ایسا اس فلم میں کیا ہے جس نے افغانوں کو اتنا خفا کردیا ہے؟

فلم پانی پت میں سن 1761 کی ایک جنگ کی کہانی بیان کی گئی ہے جو ایک انڈین سلطنت اور احمد شاہ ابدالی کی زیرِ قیادت ایک افغان حملہ آور فوج کے درمیان لڑی گئی تھی۔ اس فلم کے ٹریلر نے فلم بینوں کے دل میں رتی بھر بھی شک نہیں چھوڑا کہ اس فلم میں شروع سے لے کر آخر تک زبرست معرکے دکھائے جائیں گے۔

پانی پت سنجے دت افغانستان ابدالی
’پانی پت‘ فلم ریلیز ہونے کے موقعے پر اداکارہ کریتی سانون۔

اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ اس فلم سے ایک تنازع تو پیدا ہوگا: آخر ابدالی افغانستان کا بانی ہے اور انڈیا کے ایک لیے ایک بیرونی حملہ آور جس نے اٹھارویں صدی میں دلی کے شمال میں واقع پانی پت کے میدان میں ہزاروں مرہٹہ جنگجوؤں کا قتل عام کیا۔

جب اس فلم کے بنانے کا اعلان کیا گیا تھا اُسی وقت سے اس کے متنازع ہونے کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا۔ سنہ دو ہزار سترہ میں ممبئی میں افغانستان کے قونصل خانے نے انڈیا کی وزارتِ اطلاعات و نشریات سے رابطہ کیا۔

ممبئی میں افغان قونصل جنرل نسیم شریفی نے کہا ‘احمد شاہ ابدالی کا افغانوں کے دلوں میں بہت احترام ہے۔ جب یہ فلم بن رہی تھی تو ہم نے ان سے درخواست کی تھی کہ وہ ہمیں پلاٹ بتائے بغیر اسے ایک مرتبہ دیکھنے دیں۔ ہماری کئی کوششوں کے باوجود ہمیں فلم بنانے والوں کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔’

تاہم پھر ہمیں سنجے دت کی ایک ٹویٹ نظر آئی جس میں اس نے فلم کے کردار کا پورا لباس زیبِ تن کیا ہوا تھا، اور یہ کردار احمد شاہ بابا کا تھا۔ اور اس کے فوراً بعد ایک شور و غوغا مچ گیا۔

پانی پت سنجے دت افغانستان ابدالی
ساٹھ برس کے سنجے دت نے فلم ’پانی پت‘ میں چھتیس برس کے احمد شاہ ابدالی کا کردار ادا کیا ہے۔ افغان ناقدین کہتے ہیں کہ فلم میں ابدالی افغان کی بجائے ایک عرب نظر آتا ہے۔

ایک افغان بلاگر الٰہے ولی زادے لکھتے ہیں کہ ‘وہ تو بہت ہی ہیبت ناک نظر آتا ہے۔ اس نے آنکھوں میں گہرا کاجل لگایا ہوا ہے۔ ابدالی تو ایسا نہیں تھا۔ جس انداز سے وہ چلتا پھرتا ہے اور جس انداز سے وہ گفتگو کرتا ہے، وہ تو ایک افغان بھی نہیں لگتا ہے۔ وہ تو ایک عرب لگتا ہے۔’

افغان کئی نسلوں سے بالی وُڈ فلمیں دیکھتے چلے آرہے ہیں، جن میں امیتابھ بچن والی فلم ‘خدا گواہ’ بھی مقبول رہی ہے۔ اس فلم کا ہیرو ایک محبِ وطن افغان کو دکھایا گیا ہے۔ یہ فلم طالبان کے تاریک دنوں میں افغان مہاجرین میں ایک حوصلہ اور ولولہ پیدا کرتی تھی۔ وہ اس فلم کے گانے اپنی شادی بیاہ کی تقاریب میں گایا کرتے تھے، اس کی موسیقی کی دھنوں پر رقص کرتے تھے، کئی مشہور ڈائیلاگ زبانی یاد تھے اور اس فلم سے ہندی بھی سیکھتے تھے۔

پھر سنہ 2018 میں ایک رزمیہ فلم ‘پدماوتی’ ریلیز ہوئی جس میں انڈیا کے ایک ترک-افغان بادشاہ علاالدین خلجی کا کردار رنویر سنگھ نے ادا کیا۔ خلجی نے بارہویں صدی عیسوی میں دلی پر حملہ کیا تھا۔ اگرچہ اس فلم کی بہت تعریف ہوئی تھی، لیکن خلجی کے کردار کو ایک سفاک بادشاہ بنا کر پیش کیے جانے سے کئی افغان ناراض ہوئے، لیکن اس فلم سے صرف افغان ہی ناراض نہیں ہوئے تھے۔

پانی پت سنجے دت افغانستان ابدالی
فلم ’پدماوتی‘ نے انڈیا کے اندر تنازعہ پیدا کردیا تھا۔

اسی طرح سنہ 2019 میں ریلیز ہونے والا ڈرامہ ‘کیسری’ جس میں برٹش فوج کے اکیس سکھوں اور دس ہزار سے زیادہ افغانوں کے درمیان جنگ دکھائی گئی ہے، پھر بھی تنقید ہوئی کہ اس میں بھی بہت ہی دقیانوسی انداز میں افغانوں کو بیرونی حملہ آور کے طور پر پیش کیا گیا جو انڈیا کی زمین پر زبردستی قبضہ کرتے ہیں۔

ٹویٹر اور فیس بک جیسے پلیٹ فارمز پر ایسی فلموں سے ناراض ہونے والے باآسانی دوسرے لوگوں کی ناراضی دیکھ سکتے ہیں۔

بلاگر ولی زادے کہتے ہیں کہ ‘سوشل میڈیا کی وجہ سے لوگ اس معاملے پر ایک غیر متناسب نمائندگی دیکھتے ہیں۔ مزید نوجوان افغان اس رجحان کو دیکھ رہے ہیں اور اور اس پر آپس میں بات چیت بھی کررہے ہیں۔’

‘جہاں وہ پہلے کسی ہندی فلم میں کسی افغان کا چھوٹا سا ذکر سن کر بہت خوش ہوتے تھے، وہاں اب وہ ایک معمولی سے غلطی پر سخت ناقدانہ ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اگرچے غیر متناسب نمائندگی ایک عالمی مسئلہ ہے، تاہم افغانوں سے انڈیا کے ساتھ بہتر تعلقات کی وجہ سے وہ ایک اچھے سلوک کی توقع کرتے ہیں۔’

پانی پت سنجے دت افغانستان ابدالی
افغانستان میں بالی وڈ کے وفادار پرستار بھی فلم ’پانی پت‘ کی وجہ سے ناراض ہیں۔

لیکن کچھ فلمی ناقدین کہتے ہیں کہ افغان ہیروز کو افغان فلموں میں فلم بینوں کی بڑھتی ہوئی توقعات سے مختلف پیش کیا جاسکتا ہے۔

اس کی بجائے وہ اس رجحان کو اس بات سے جوڑتے ہیں کہ انڈیا کی اپنی مارکیٹ میں مسلمان ہیروز کے کرداروں کو منفی بنا کر پیش کرنے سے وہ اپنی فلم انڈسٹری کو وزیرِ اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرست حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے نظریات کے زیادہ قریب لانے کی کوشش کرتے ہیں۔

آن لائن اخبار ہفنگٹن پوسٹ کے انٹرٹینمنٹ ایڈیٹر، انکُر پاتھک کہتے ہیں کہ ‘ہمارے ہاں ایک ہندو جماعت کی اکثریت ہے جو بالی وُڈ کے سوفٹ امیج کو استعمال کرنا جانتی ہے۔’

‘چاہے یہ وزیر اعظم ہے جو بالی وُڈ کے بڑے ستاروں کے ساتھ اپنی تصویریں بنوا رہا ہے، یا بالی وُڈ کے رہنماؤں کے ساتھ مختلف تقاریب کا اہتمام کیا جا رہا ہے تاکہ وہ قومی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں، ان سب کے پیچھے ایک غیر مرئی پالیسی نظر آرہی ہے وہ یہ کہ انڈیا کی ایک مثبت تصویر بنائی جائے، اور اس وقت انڈیا سے مراد مودی کا انڈیا یا بی جے پی کا انڈیا جو کہ ہندو پرست ہے۔’

پاتھک اسے ایک خطرناک رجحان کہتے ہیں۔

پانی پت سنجے دت افغانستان ابدالی
انڈیا میں ہندو قوم پرستی کی ایک بڑی مارکیٹ بن چکی ہے۔

‘کسی بھی ایک کمیونٹی کی غیر متناسب نمائندگی اس کو بے انتہا نقصان پہنچاتی ہے۔ موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ہمیں اس رجحان سے گریز کرکے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔’

انکُر پاتھک نے آن لائین چینلز کو بتایا ہے کہ ‘یہ فلم ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک جنگ نہیں ہے۔ یہ ایک حملہ آور کو روکنے کی جنگ ہے۔ یہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کی جنگ ہے، فلم میں ایک قوم پرستی کی تھیم ہے۔ اس فلم کی ضرورت کے مطابق ہمیں ابدالی کو ایک بیرونی حملہ آور دکھانا پڑا ہے لیکن اس میں اس کے کردار کی تعظیم کو برقرار رکھا گیا ہے۔’

سنجے دت کی تمام یقین دہانیوں کے باوجود کہ وہ یہ کردار ہی نہ لیتے اگر ابدالی کو منفی بنا کر پیش کیا گیا ہوتا، افغان قونصل جرنل شریفی کی ‘پانی پت’ سے پیدا ہونے والے اثرات کی وجہ سے پریشانی برقرار ہے۔

افغان قونصل جنرل جو افغان صدر کے مشیر بھی ہیں، کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے ماہرین پر مشتمل ایک پینل اس فلم کو ریلیز کرنے سے پہلے اس کا ریویو کرے۔

پانی پت سنجے دت افغانستان ابدالی
مودی سرکار بالی وُڈ کے سوفٹ امیج کو اپنے نظریات کے فروغ کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

بی بی سی نے سنجے دت سے ان کا ردعمل جاننے کی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔

وہ چند لوگ جو بالی وُڈ کے وفا دار پرستار ہیں انھیں یہ فلم مایوس کرسکتی ہے۔

‘انڈیا میں افغانستان کے ایک سابق سفیر ڈاکٹر شیدا ابدالی نے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا ہے کہ ‘تاریخی طور پر انڈین سینما نے انڈیا اور افغانستان کے تعلقات میں مضبوطی پیدا کی ہے۔’

‘مجھے قوی امید ہے کہ فلم پانی پت بنانے والوں نے ہمارے مشترکہ تاریخی ورثے کو فلم بناتے وقت ذہن میں رکھا ہوگا۔’

پانی پت سنجے دت افغانستان ابدالی
فلم ’پانی ہت‘ نے افغانوں کو ناراض کردیا ہے۔