منتخب تحریریں

Blessing in Disguise

Share

یہ لاک ڈاؤن یقینا نہ تو کوئی موج میلہ ہے اور نہ ہی تفریحی چھٹیاں کہ اس سے ویسے لطف لیا جائے جیسا کہ دنیا بھر میں رواج ہے‘ لیکن اب معاملہ ایسا بھی نہیں کہ بندہ اس میں باقاعدہ ڈیپریشن میں چلا جائے۔ کل فون پر ایک خوش باش دوست سے بات ہوئی تو بات کر کے بڑی پریشانی ہوئی۔ وہ دوست باقاعدہ ڈیپریشن کا شکار ہو چکا تھا اور یہ پہلا کیس نہیں تھا۔ اس سے پہلے بھی اس لاک ڈاؤن کے بڑھتے ہوئے دورانیے کے درمیان تین چار دوستوں کو افسردہ‘ غمگین‘ اداس اور پژمردہ پایا‘ انہیں حوصلہ دیا اور کہا کہ مجھے دیکھیں! میں تو چار دن ٹِک کے نہیں بیٹھ سکتا ‘لیکن بیٹھا ہوا ہوں اور اس دوران کسی ڈیپریشن یا خود ترسی کا شکار بھی نہیں ہوا۔ اس دوران کئی ایسے کام کیے ہیں‘ جو ایک عرصہ سے لٹکائے ہوئے تھے۔ کئی بھولے بسرے کام یاد آئے اور انہیں نمٹایا۔ کئی کام دوبارہ سے شروع کیے اور کئی دیگر کاموں میں دل لگایا۔ ان دنوں میں گھر ضرور بیٹھا رہا‘ مگر فارغ ہرگز نہیں رہا۔ مستقل فراغت دراصل ایک عذاب ہے اور اس کا اندازہ اسے ہوتا ہے‘ جو کبھی فارغ نہ بیٹھا ہو۔ ہاں جو لوگ ایک سرائیکی کہاوت پر یقین رکھتے ہیں کہ ”کم جوان دی موت اے‘‘ (کام جوان کیلئے موت کے مترادف ہے) ان کی بات دوسری ہے۔
میں نے اپنے گزشتہ دنوں لکھے گئے دو‘ تین کالموں میں اس موسم بہار میں پھولوں سے دل لگانے کا ذکر کیا۔ اپنی عرصے سے خراب حال لائبریری کو سنوارنے کا ذکر کیا اور کتابیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس تجربے میں قارئین کو بھی شریک کیا۔ بہت سے لوگوں نے اس کی تحسین کی کہ ان دنوں ایسے کالموں کی ضرورت تھی۔ ویسے بھی ان دنوں سیاست پر گفتگو کرنے پر طبیعت مائل ہی نہ تھی کہ آج کل ”اور بھی غم ہیں زمانے میں سیاست کے سوا‘‘ والا معاملہ ہے‘ لیکن ایک دو قارئین نے میری اس حرکت کا باقاعدہ برا منایا۔ ایک صاحب نے کتاب پڑھنے کے میرے فعل کو باقاعدہ ”امیرانہ‘‘ فعل قرار دیتے ہوئے خاصا مطعون کیا اور کہا کہ لوگوں کو روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور آپ کو کتاب پڑھنے کی عیاشی سوجھ رہی ہے۔ دنیا اس وقت کورونا کے خوف کا شکار ہے اور آپ ہیں کہ کتابوں میں سکون ڈھونڈ رہے ہیں۔ میری اس قاری سے فون پر بات نہیں ہوئی‘ تاہم ان کی میل سے اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں کہ وہ بھی دراصل بری طرح ڈیپریشن کا شکار ہیں اور اس ڈیپریشن کے دوران انہیں اور کچھ نہیں سوجھا تو مجھ کو میل کر کے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کی‘ جو یقینا ہلکا نہیں ہوا ہوگا کہ اتنے دنوں کا ڈیپریشن ایک میل سے تو ختم نہیں ہو سکتا‘ اس کیلئے انہیں باقاعدہ کچھ کرنا پڑے گا‘ مثلاً :وہ کتابیں پڑھیں‘ دو چار گملوں میں پھول لگائیں۔ بہار کا موسم ہے‘ دیکھیں کہ قدرت کے رنگ کیا منظر پیش کرتے ہیں اور کیسی کہکشاں نظر کے سامنے لاکھڑی کرتے ہیں۔
میرے اس ناراض قاری نے کتاب پڑھنے کو عیاشی قرار دیا۔ ویسے ایمانداری کی بات ہے کہ کتاب پڑھنا واقعتاً عیاشی ‘بلکہ عیاشی سے بھی بڑھ کر ہے‘ لیکن اس قاری کی اس عیاشی سے مراد وہ عیاشی نہیں تھی‘ جو کتاب پڑھنے والے کو کتاب پڑھ کر حاصل ہوتی ہے ‘بلکہ اس کی مراد دوسری والی‘ یعنی انہی معانی میں عیاشی تھی‘ جو لغت میں درج ہیں۔ اس مہنگائی کے دور میں روز افزوں مہنگی ہوتی ہوئی کتاب خریدنا ممکن ہے میرے اس مہربان کے نزدیک عیاشی‘ فضول خرچی اور امیرانہ کام ہو‘ لیکن کتاب خریدنا نہ تو اسراف ہے اور نہ ہی فضول خرچی۔ نہ عیاشی ہے اور نہ نوابانہ فعل ہے۔ کتاب خریدنا دراصل ترجیحات کا مسئلہ ہے اور اب تو یہ مسئلہ اور بھی آسان ہو گیا ہے۔ آپ اپنے موبائل پر جو پیکیج لیتے ہیں‘ اس میں انٹرنیٹ کے اپنے کوٹے کو کتاب پڑھنے پر صرف کر سکتے ہیں۔ بے شمار سائٹس ہیں‘ جہاں ”ای بکس‘‘ میسر ہیں۔ بے شمار کتابیں پی ڈی ایف فارمیٹ میں موجود ہیں۔ کمرے والی لائبریری چھوڑیں۔ جیبی لائبریری میں دل لگا لیں۔ اگر دل لگانا ہی ٹھہرا تو اور بہت سے کام ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے‘ ان فارغ دنوں میں مَیں نے صرف لائبریری ہی صاف کی ہے؟ کیا صرف پھولوں کو دیکھ کر لاک ڈاؤن گزار لیا ہے؟ کیا صرف کتابوں میں غرق رہا ہوں؟ کیا یہ سارے دن کالم نویسی کی نذر ہوئے ہیں؟ نہیں جناب! ہرگز نہیں۔
میں نے اس دوران برسوں‘ مہینوں اور ہفتوں سے منتظر کام بھگتائے ہیں‘ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں میں نے لائبریری صاف کی ہے ‘جو کئی برس سے زبانِ حال سے پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ مجھ پر بھی نظر کرم ہو جائے۔ پھر میں نے پنکھے صاف کیے ہیں۔ ساری سردیاں بند رہنے والے پنکھوں پر کافی مٹی چڑھ چکی تھی۔ مٹی یعنی ”گرد‘‘ یکے از چہار تحفہِ ملتان ہے۔ ملتان تو ایسا شہر ہے کہ یہاں ریفریجریٹر کے اندر پڑی ہوئی اشیا پر بھی مٹی کی تہہ جم جاتی ہے‘ پنکھے کیا چیز ہیں‘ سو پنکھے صاف کئے ہیں۔ فالتو کاٹھ کباڑ کو علیحدہ کیا ہے۔ لائبریری سے نکلنے والے فالتو کاغذات کا ایک پورا ڈھیر علیحدہ کروایا ہے۔ کل سے سٹور کی صفائی شروع کروں گا۔ ہم لوگ عجیب بے یقینی کا شکار لوگ ہیں۔ بے شمار چیزیں صرف اس خیال کے تحت سنبھال کر رکھ لیتے ہیں کہ ”کل ضرورت پڑ سکتی ہے‘‘ اس کل کے متوقع استعمال کے نام پر جمع ہونے والی بے شمار چیزیں ساری عمر کام نہیں آتیں‘ لیکن شاید یہ اس علاقے کے رہنے والوں کا صدیوں کے خوف کا ردعمل ہے کہ ہم چیزوں کو بہت سنبھال سنبھال کر اور سینت سینت کر رکھنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ خاص طور پر میرے جیسے لوئر مڈل کلاس کے لوگ جن کے اندر سے یہ بے یقینی اور خوف نسلوں سے منتقل ہو رہا ہے۔ یہ میرا نہیں میری پوری کلاس کا مسئلہ ہے۔ اس خطے پر صدیوں سے شمال کی جانب سے آنے والے حملے آوروں اور ان کی لوٹ مار نے ہمارے دلوں میں چیزوں سے محرومی کا خوف اس حد تک بھر دیا کہ کہاوتیں بن گئیں مثلاً:کھاہدا پیتا لاہے دا‘ تے باقی احمد شاہے دا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ جب شمال کی جانب سے حملہ آور آنے بند ہو گئے ہم نے مال و متاع اور اموال کو سنبھال سنبھال کر رکھنا شروع کر دیا۔ سو‘ میں کل سے سٹور کی صفائی شروع کردوں گا۔ جن جن لوگوں کے گھروں میں سٹور نامی کوئی کمرہ ہے‘ وہ اس دوران اس کی صفائی شروع کر دیں تو ان شاء اللہ وہ بعد میں مجھے اس کارخیر کی تجویز دینے پر دعائیں دیں گے۔ہاں! ایک بات رہ گئی۔ میں گزشتہ دو ہفتے سے باورچی خانے میں کافی وقت گزارتا ہوں؛ حالانکہ یہ مجبوری نہیں تھی‘ گھرمیں کھانا پکانے والی آتی ہے‘ لیکن اسے چھٹی دے دی گئی ہے۔ محض اس لئے کہ اتنا فارغ رہ کر کیا کریں گے؟ میرے گھر میں تو صورتحال یہ ہے کہ بیگم ہے نہیں‘ لیکن وہ جب موجود تھی تب بھی کبھی کبھار میں شوقیہ کوکنگ کر لیتا تھا۔ اب‘ یہ شوقیہ والی کوکنگ دوبارہ کر رہا ہوں‘ جن کے گھروں میں گھر والیاں موجود ہیں انہیں چاہیے کہ وہ ان کیلئے آرام کا باعث بنیں اور ان دنوں فراغت کے دوران کھانا پکانا سیکھ لیں‘ زندگی میں کام آئے گا۔ جاتی سردیوں میں آخری بار دو تین مرتبہ سُوپ بنایا ہے۔ سٹیک بنا کر بچوں کو کھلائی ہے۔ میش پوٹاٹو‘ برگرز‘ پیزا‘ ابلا ہوا لوبیا (رواں) مونگ کی دال‘ اروی گوشت اور چکن ہانڈی۔ یہ سب کچھ پکایا ہے اور کھایا ہے۔ کل رات عربی حمص اور شوارما والی روٹی سے لطف لیا ہے۔ پہلے سادہ طریقے سے حمص بناتا تھا‘ کل ابو سعید جو کہ اسرائیل کے ایک چھوٹے سے قصبے ایکرے میں اپنے حمص کے حوالے سے بڑی شہرت رکھتا ہے کے طریقے سے حمص بنایا۔ واقعی اس کا ذائقہ بڑا شاندار تھا اور پہلے سے تھوڑا مختلف۔
جو لوگ کتاب پڑھنے کو عیاشی اور امیروں کا چونچلا سمجھتے ہیں‘ وہ سٹور صاف کر سکتے ہیں۔ پنکھے بھی آج کل صفائی مانگتے ہیں اور کوکنگ تو روزانہ کی جا سکتی ہے۔ بھلے کتاب نہ پڑھیں‘ لیکن باقی کاموں سے کس نے آپ کو روکا ہے؟ پنجابی کی کہاوت ہے :ویلا گھر شیطان دا۔ ڈیپریشن بھی کم ہو جائے گا اور بیگم سے لڑائی جھگڑے کے امکانات بھی۔ لاک ڈاؤن کی مصیبت کو کسی حد تک کار آمد کیا جاسکتا ہے ‘اسے انگریزی میں Blessing in Disguise کہتے ہیں۔