منتخب تحریریں

’’تم نے پکارا‘ ہم چلے آئے‘‘

Share

ہمارے گھر میں جو کمرہ میرے لئے مختص ہوا ہے وہاں ایک دیوار پر میری بیگم نے بہت چائو سے ایک LCDسکرین لگائی تھی۔بستر کے دائیں ہاتھ رکھی میز پر ریموٹ بھی موجود ہے۔ میں نے ٹی وی دیکھنا البتہ کئی مہینوں سے چھوڑ رکھا ہے۔ ’’تازہ ترین‘‘ کے لئے سمارٹ فون پر موجود ٹویٹر ہی سے رجوع کرتا ہوں۔

پیر کی دوپہر سے میرے ٹویٹر اکائونٹ پر سنسنی چھائی ہوئی تھی۔ سپریم کورٹ نے کرونا کے مقابلے کے لئے عمران حکومت کی اپنائی حکمت عملی کا جائزہ لینے کے لئے ازخود نوٹس لے رکھا تھا۔سماعت جاری تھی اور عزت مآب جج صاحبان کے ریمارکس کا چرچہ شروع ہوگیا۔ وزیر اعظم کے مشیر صحت جناب ظفر مرزا صاحب تلخ کلمات کی زد میں آئے محسوس ہوئے۔یوں گماں ہوا کہ جیسے ان کی فراغت کا حکم جاری ہونے والا ہے۔مرزا صاحب مگر خوش نصیب ہیں۔ان دنوں خالد جاوید خان صاحب ہمارے اٹارنی جنرل ہیں۔وہ پیپلز پارٹی کے تاحیات وفادار رہنے والے پروفیسر این ڈی خان صاحب کے فرزند ہیں۔مرحوم بہت کشادہ دل آدمی تھے۔ انہیں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کے زمانے میں وزارت ملی تو پارلیمان میں حکومت کے دفاع میں بہت متحرک ہوگئے۔میں ان دنوں ایک انگریزی اخبار کے لئے پارلیمانی کارروائی کی بابت پریس گیلری لکھتا تھا۔ان کی ضرورت سے زیادہ پھرتی سے اُکتا کر انہیں “Nothing Doing Khan “پکارنا شروع ہوگیا۔ ایک جید سیاسی کارکن ہوتے ہوئے مرحوم نے میری بیہودہ گوئی کو بڑے دل سے نظرانداز کردیا۔اپنے گھر کھانے کے لئے اکثر بلاتے رہے۔ وہاں خالد جاوید صاحب سے بھی ایک دو ملاقاتیں ہوئی تھیں۔بہت کم گو مگر ذہین آدمی نظر آئے۔ حال ہی میں قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وطن لوٹے تھے۔تمامتر توجہ شعبہ وکالت میں نام کمانے پر مبذول کررکھی تھی۔ ان کی محنت بالآخر رنگ لائی۔عمران خان صاحب نے انہیں اٹارنی جنرل تعینات کردیا۔

مجھے کامل اعتماد ہے کہ اپنے مرحوم والد کی طرح خالد خان صاحب بھی اپنے قائد کے ثابت قدم وفادار رہیں گے۔اس وفاداری کا اظہار پیر کے روز سپریم کورٹ کے روبرو بھی ہوا۔عدالت عظمیٰ کو واضح الفاظ میں انہوں نے یاد دلانے کی کوشش کی کہ پاکستان کو آج تک عمران خان صاحب جیسا ایمان دار وزیر اعظم نصیب نہیں ہوا۔ معزز عدالت نے ان کے دعوے سے اتفاق کیا۔یہ وضاحت البتہ فرمادی کہ عمران خان صاحب کی ایمان داری زیر بحث نہیں۔مسائل ان کے مشیروں کی بدولت رونما ہورہے ہیں۔ظفر مرزا صاحب کو لہذا اپنی اصلاح کرنے کی مہلت مل گئی۔معزز عدالت سے جو سرزنشی ریمارکس آرہے تھے انہوں نے مگر ہمارے کئی حق گو اور اصولی صحافیوں کو پریشان کردیا۔اتفاقاََ ان میں سے اکثر خواتین وحضرات جناب افتخار چودھری اور ثاقب نثار صاحب کے زمانے میں فقط سپریم کورٹ ہی سے یہ توقع باندھے ہوئے تھے کہ وہ وطنِ عزیز کو سیاست دانوں کے روپ میں نازل ہوئے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ سے نجات دلائے گی۔وزراء کی سپریم کورٹ میں تضحیک ان کی اُمید جگائے رکھتی۔ یوسف رضا گیلانی کی توہینِ عدالت کی بدولت نااہلی نے انہیں بہت شاداں کیا۔

معاملہ فقط حق گو اور اصولی صحافیوں تک ہی محدود نہیں تھا۔جناب آصف سعید کھوسہ صاحب نے جب ’’سسیلین مافیا ‘‘کے مبینہ سرغنہ نواز شریف کو اقامہ کی بنیاد پر بددیانت ٹھہرایا تو تحریک انصاف نے دادوتحسین کا شور برپا کرنے میں بھرپور توانائی سے حصہ لیا۔نواز شریف کسی عوامی عہدے کے لئے تاحیات نااہل ٹھہراکر بالآخر گھر بھیج دئیے گئے تو تحریک انصاف نے اسلام آباد میں ’’یوم تشکر‘‘ کے عنوان سے ایک عظیم الشان اجتماع کا اہتمام کیا۔اس اجتماع میں سپریم کورٹ کے ان عزت مآب ججوں کی تصاویرنمایاں تھیں جنہوں نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا۔

پیر کے روز عمران خان صاحب کے کئی بے شمار مداحین کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ شاید ان کے رہ نما کے بارے میں بھی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔بے بنیاد خدشات کی وجہ سے فکر مند ہوئے مداحین یہ حقیقت البتہ فراموش کرگئے کہ عمران خان صاحب پاکستان کے واحد سیاست دان ہیں جنہیں عزت مآب ثاقب نثار صاحب نے ٹھوک بجاکر صادق وامین ٹھہرایا تھا۔یہ اعزاز ان کے سوا اس ملک کے کسی اور سیاست دان کو ابھی تک نصیب نہیں ہوا۔پیر کے دن بھی وضاحت ہوگئی کہ سپریم کورٹ کو عمران خان صاحب کی ایمان داری کے بارے میں ہرگز کوئی شبہ نہیں۔معزز عدالت کی کاوش تو بلکہ یہ نظر آئی کہ ایمان داروزیر اعظم کو گڈگورننس قائم کرنے میں معاونت فراہم کی جائے۔عدالت عظمیٰ کی شفقت بھری فکر مندی کو جانے کیوں ہمارے حق گو اور ا صولی صحافیوں نے نظر انداز کردیا۔غالباََ انہیں ان افواہوں نے پریشان کررکھا تھا جو ’’قومی حکومت‘‘ کی توقع باندھے ہوئے ہیں۔افواہیں مگر افواہیں ہوتی ہیں۔انہیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دینا چاہیے۔ ’’مقتدر‘‘ حلقے ہوں یا عدالت عظمیٰ ان دونوں اداروں کو عمران خان صاحب کی ایمان داری پر کامل اعتماد ہے۔اس اعتماد کے ہوتے ہوئے وزیر اعظم سے محض یہ د رخواست ہی کی جاسکتی ہے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ وقتی طورپر ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھیں۔اس کے سرکردہ رہ نمائوں کو ترغیب دیں کہ وہ وباء کے موجودہ موسم میں سیاسی اختلافات بھلاکر ریاست اور حکومت کو کامل یکسوئی سے کرونا کا مقابلہ کرنے کا موقعہ دیں۔

اپنی صفوں میں مبینہ طورپر ’’چور اور لٹیرے‘‘ ٹھہرائے افراد کے باوجود مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پا رٹی نے قومی مفاد میں لچک دکھانے کے لئے کبھی نخرے نہیں دکھائے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب سے ریٹائر ہونے سے چند ہفتے قبل جناب آصف سعید کھوسہ صاحب نے ایک اہم ریاستی عہدے کی معیادِ ملازمت کے بارے میں سوالات اٹھادئیے تھے۔ اس ضمن میں واضح قانون سازی کا تقاضہ ہوا۔

سیاسی مبصرین کی اکثریت نے یہ طے کرلیا تھا کہ عمران حکومت مطلوبہ قانون پارلیمان سے منظور نہیں کرواپائے گی۔شہباز شریف صاحب کی وسیع القلب قیادت میں لیکن نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ نے مطلوبہ قانون کا مسودہ دیکھے بغیر ہی اس قانون کی منظوری کیلئے عمران حکومت کو غیر مشروط حمایت کا یقین دلادیا۔بلاول بھٹو زرداری حمایت کے مذکورہ اظہار کے بعد کچھ دیر کو ہکا بکا یقینا ہوئے۔ بھرپور تعاون کو بالآخر وہ بھی مگر آمادہ ہوگئے۔جس قانون کا تقاضا ہوا تھا وہ قومی اسمبلی اور سینٹ سے تاریخی سرعت اور اتفاق رائے سے منظور ہوا۔دونوں اداروں میں اس قانون کو پاس کرنے میں فقط 12-12منٹ لگے۔مجھے سو فیصد یقین ہے کہ اگر وزیر اعظم صاحب نے کرونا کے مقابلے کے لئے شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری سے براہِ راست نہیں بلکہ اپنے وزراء یا پرنسپل سیکرٹری کے ذریعے بھی رجوع کیا تو وسیع تر مشاورت کے لئے بلائے کسی اجلاس میں شرکت کے لئے یہ دونوں رہ نما بلاحیل وحجت آمادہ ہوجائیں گے۔ ’’تم نے پکارا-ہم چلے آئے‘‘ والا منظر بآسانی رونما ہوجائے گا۔

وزیر اعظم صاحب کو مگر یہ خدشہ لاحق رہتا ہے کہ قوم کو درپیش مسائل سے نبردآزما ہونے کے لئے اپوزیشن جماعتوں سے معاونت طلب کی جائے تو ان جماعتوں کی صفوں میں موجود ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے لئے معافی تلافی کی فریاد شروع ہوجائے گی۔ عمران خان صاحب نے مگر مافیا سے نبردآزما ہونے کا عہد باندھ رکھا ہے۔اسی باعث پیر کے روز انہوں نے علیم خان صاحب کو پنجاب حکومت میں واپس لیا ہے۔انہیں وزارتِ خوراک دی گئی ہے تاکہ آئندہ گندم اور چینی کے دھندے سے وابستہ اجارہ دار حکومت سے Subsidyیا امدادی رقوم کے نام پر اربوں روپے حاصل نہ کرپائیں۔ یہ رقوم حاصل کرنے کے باوجود بازار میں ان اجناس کی مصنوعی قلت پیدا کرکے طلب اور رسد کے فارمولے سے کھیلتے ہوئے منافع کمانے کی ہوس میں مبتلا نہ رہیں۔

یہ بات طے ہے کہ ’’کپتان‘‘ کسی سے بلیک میل نہیں ہوگا۔کڑا احتساب بھی جاری رہے گا اور اپوزیشن بالآخر اسی تنخواہ پر کام کرنے کو ہمہ وقت رضا مند رہے گی۔ایسی اپوزیشن کے ہوتے ہوئے ’’قومی حکومت ‘‘ کے قیام کی ہرگز ضرورت نہیں۔ سپریم کورٹ کا رویہ بھی معاندانہ نہیں بلکہ مشفقانہ ہے۔ عمران حکومت کے تحفظ پر اپنے تئیں مامور حق گو اور اصولی صحافی خوامخواہ پریشان ہورہے ہیں۔خدارا Chillکریں اور سندھ حکومت میں مراد علی شاہ کی قیادت میں جاری نااہلی اور بدعنوانی کو فیصل واوڈا صاحب کو اپنے شوز میں مدعو کرتے ہوئے Ratingsسے مالا مال ہوتے رہیں۔