حکومت کی حرکتیں
سپریم کورٹ میں وزیراعظم کے معاون ِخصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے حوالے سے کافی سخت ریمارکس دیئے گئے۔ وہ تو شکر ہوا کہ اپنے تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ نے ڈاکٹر ظفر مرزا کے بارے میں کوئی حکم جاری نہ کیا‘ وگرنہ حکومت کے لیے بہت سبکی کا باعث بنتا‘ مگر سپریم کورٹ نے حکومت میں وفاقی وزیر کے عہدے کے مساوی انیس عدد غیر منتخب مشیروں اور معاونین ِخصوصی کے بارے میں جو سوال اٹھایا ہے‘ وہ بلا شبہ قابل ِغور ہے۔ اس وقت حکومت میں وفاقی وزرا کی فوج ظفر موج کے علاوہ پانچ عدد مشیر جن کے نام ملک امین اسلم خان‘ عبدالرزاق دائود‘ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ‘ ڈاکٹر عشرت حسین اور ظہیر الدین بابر اعوان ہیں اور چودہ عدد معاونین خصوصی جن میں ڈاکٹر ثانیہ نشتر‘ مرزا شہزاد اکبر‘ محمد شہزاد ارباب‘ سید ذوالفقار عباس بخاری‘ شہزاد قاسم‘ علی نواز اعوان‘ عثمان ڈار‘ ندیم افضل گوندل (چن) ‘ سردار یار محمد رند‘ ڈاکٹر ظفر مرزا‘ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان‘ ندیم بابر‘ معید یوسف اور تانیہ ایڈروس شامل ہیں‘ تاہم حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان میں سے بھی اکثر لوگ محض ”درشنی پہلوان‘‘ ہیں اور ذاتی تعلقات کو حکومتی خرچے پر نبھائے جانے کی اعلیٰ مثال ہیں۔ملک میں اس وقت دو آفتیں بیک وقت چل رہی ہیں‘ ایک اقتصادی اور دوسری وبا کی۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اقتصادی آفت سے نمٹنے کے لیے ملک میں کوئی فل ٹائم وزیر نہیں ہے اور کورونا کی وبا سے نبرد آزما ہونے کے لیے کوئی کل وقتی وفاقی وزیر صحت موجود نہیں ہے۔ سارے کا سارا نظام غیر منتخب مشیروں اور معاونین ِ خصوصی کے بل پر چلائے جانے کی تگ و دو کی جا رہی ہے۔ اس وقت ملک میں اور کچھ ہو یا نہ ہو ایک عدد وزیر خزانہ اور ایک عدد وزیر صحت ہونا چاہیے تھا‘ لیکن خان صاحب کے نزدیک دونوں آفتوں سے نمٹنے کیلئے ان کے مشیر اور معاونین ہی کافی ہیں۔ صورتحال جو ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ سپریم کورٹ اس مسئلے پر سوال کرتی ہے تو سوشل میڈیا پر طوفان کھڑا ہو جاتا ہے۔ جنہیں یہ نہیں پتا کہ بیر کا سر کدھر ہوتا ہے اور پیر کدھر ہوتے ہیں وہ بھی قانونی موشگافیوں کا سیلاب بہانے پر لگے ہوئے ہیں۔ کئی مرتبہ کا دہرایا ہوا جملہ ایک بار پھر عرض کر رہا ہوں کہ سوشل میڈیا کا یہ حال ہے کہ ”بندر کے ہاتھ میں بندوق آ گئی ہے‘‘۔
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا پوری تحریک انصاف کے ارکانِ اسمبلی میں دو لوگ بھی ایسے نہیں جنہیں صحت اور خزانہ کے وزیر کے عہدے پر فائز کیا جاتا؟ قحط الرجالی کا یہ عالم ہے؟ کیا ساری کی ساری لاٹ نالائق اور نااہل ارکان پر مشتمل ہے؟ اگر ایسا ہے تو سوچنے کا مقام ہے کہ ہماری اسمبلیوں میں کس قسم کے لوگ منتخب ہو کر آ رہے ہیں۔ایسی صورت میں ہم یہ بات سوچنے پر مجبور ہیں کہ یہ سارا سیاسی نظام ملک کی حکومت چلانے سے عاری ہے اور اسے مکمل اوور ہالنگ کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا عمران خان صاحب کو اپنے منتخب نمائندوں پر اعتماد اور اعتبار نہیں؟ یہ پہلے سے بھی زیادہ خراب صورتحال کی عکاسی کرتا ہے کہ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی پونے دو سو سے زائد ارکانِ اسمبلی میں سے دو فرد بھی ایسے نہیں جن پر اعتبار اور اعتماد کیا جا سکے؟ اگر حکومت کو باہر سے لائے گئے لوگوں سے ہی چلوانا ہے تو پھر اس سارے سیاسی نظام کا کیا جواز ہے؟ اس سارے انتخابی کھڑاک کا کیا فائدہ ہے؟
ملک خالد سے فون پر لندن بات ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ آپ میری بات پر غور کریں۔ دراصل اس ملک پر گزشتہ چار عشرں سے زائد عرصہ سے صرف دو جماعتیں حکمران رہی ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی یا انہی سے مانگے تانگے والے افراد پر مشتمل‘ درمیان میں پرویز مشرف والی حکومت۔ اس سارے عرصے کے دوران ان کے لوگوں کی تربیت ہو گئی تھی۔ تم خود دیکھو یہ جو اسحاق ڈار تھا یہ کیا تھا؟ یہ محض میاں صاحبان کا ذاتی ملازم تھا۔ ایک فنکار قسم کا اکائونٹنٹ تھا اور بس۔ اس کا کام میاں صاحبان کی فیکٹریوں کے حساب کتاب کو اس طرح سیدھا رکھنا تھا کہ ممکنہ حد تک ٹیکس بچایا جا سکے۔ بینکوں سے آسان ترین شرائط پر قرضے لیے جائیں۔ قرضوں کو مرضی کے مطابق ری شیڈول کروایا جائے اور سرکاری اداروں سے غتربود کیا گیا ٹیکس ملز مالکان یعنی میاں صاحبان کی جیب میں ڈالا جائے۔ وہ ان تمام کاموں میں تاک تھا اور اس کے علاوہ اس کے پاس اور کوئی قابل ذکر تجربہ نہیں تھا۔ اسے ذاتی وفاداری اور بعد ازاں رشتے داری کے طفیل کاروباری دنیا سے نکال کر اقتدار کی گلیوں میں بھیج دیا گیا۔ اپنی فیکٹریوں کے حساب کتاب کے نگران اعلیٰ اور فنانشل معاملات ے انچارج کو سینیٹر بنا کر خزانہ جیسی اہم وزارت سونپ دی۔ اس کے پاس بھلا وزارت چلانے کا کونسا تجربہ تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ وہ کام سیکھ گیا۔ بندہ ہوشیار اور کائیاں تھا۔ دو چار سال میں ایسا پالش ہوا کہ پہلے صرف اپنے صنعتی اداروں کوفنانشل ہیلتھ کو جعلی طریقے سے زیرو زبر کر کے بینکوں کو الو بناتا تھا ‘ بعد ازاں ملکی فنانشل ہیلتھ کے بارے عالمی معاشی اداروں کو چونا لگا کر کام چلانے کا فن سیکھ گیا اور کئی سال تک سرکلر ڈیٹ کو دائیں بائیں کر کے‘ ڈالر کو مارکیٹ سے خرید کر خزانہ بھرنے کا مظاہرہ کر کے‘ ریاستی اداروں اور جائیداد کو گروی رکھ کر قرضے لینے میں کامیاب ہو کر پورے ملک کی معیشت کو ”جگاڑ‘‘ پر چلاتا رہا۔ اس نے بھی وقت اور تجربے سے سیکھ کر وزارت چلائی تھی‘ آپ پی ٹی آئی کا اب ان حکومتوں سے تو فوری موازنہ نہ کریں۔ انہوں نے تو برسوں کے تجربے سے سیکھ لیا تھا۔ اب آپ ان سے فوری طور پر اسی پرفارمنس کی امید نہ رکھیں ‘بلکہ انہیں موقع دیں۔
میں نے کہا :تم توو ہی بات الٹے طریقے سے کہہ رہے ہو جو میں سیدھے طریقے سے کہہ رہا ہوں۔ میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ حکومت اپنے منتخب نمائندوں کو ذمہ داریاں سونپے‘ کام پر لگائے‘ سیکھنے کا موقعہ دے تاکہ مستقبل میں یہی لوگ تجربے کی بنیاد پر بہتر کام سرانجام دیں گے اگر ان منتخب نمائندوں کو کام کا موقع ہی نہیں ملے گا تو وہ سیکھیں گے ”کھیہہ اور سواہ‘‘؟ اگر انہیں اپنے منتخب نمائندوں پر پورا بھروسہ نہیں تو کم از کم ان دونوں وزارتوں پر دو کُل وقتی وزیر فائز کریں اور انہیں تجربہ کار حفیظ شیخ اور ڈاکٹر ظفر مرزا کے ساتھ کام سیکھنے پر لگا دیں۔ کل کلاں اگر یہ مانگے تانگے والے لوگوں کی چھٹی کروانی پڑ گئی تو ان کے پاس اپنے تجربہ کار لوگ موجود ہوں گے۔ ناتجربہ کاروں کو اگر کام پر نہیں لگایا جائے گا تو تجربہ کیسے حاصل ہوگا؟ ناتجربہ کار کسی تجربہ کار کے ساتھ کام پر لگا کر اسے سکھایا جاتا ہے۔ اداروں میں ٹرینی اور جونیئر لوگوں کو تجربہ کار لوگوں کے ساتھ کام پر لگا کر مستقبل کے تجربہ کار افراد تیار کئے جاتے ہیں۔
حالت یہ ہے کہ منتخب ارکان میں سے چنے گئے سارے کے سارے وزیر اپنی وزارت کے علاوہ ادھر ادھر کے کاموں میں مصروف ہیں۔ فیصل واوڈا کو بحری امور کے علاوہ باقی ہر کام میں مہارت ِتامہ حاصل ہے۔ شیخ رشید نے ریلوے میں بہتری کے علاوہ ہر کام میں اپنی مہارت کا زبانی ثبوت فراہم کرنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اعظم سواتی کو غریب پڑوسیوں کو اندر کروانے سے جتنی شہرت ملی وزارت سے متعلقہ کاموں میں اس کا عشرِ عشیر بھی حاصل نہیں ہوتی تھی۔ خسرو بختیار کی چینی کی سبسڈی کا قصہ ابھی بالکل تازہ ہے۔ علی امین گنڈاپور کو شہد بنانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں آتا۔ صاحبزادہ محبوب سلطان نے آٹے کے بحران میں اپنا جو حصہ ڈالا وہ سب کے سامنے ہے۔ دو چار وزیروں کے علاوہ کسی نے اپنی وزارت سے متعلقہ آج تک تنکا توڑ کر دوہرا نہیں کیا۔ وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے اپنی وزارت کا بنیادی نکتہ یہ بنایا ہے کہ کام کریں یا نہ کریں مولویوں سے مسلسل ”اِٹ کھڑکا‘‘ کرتے رہنا ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ اپنے وزیروں کی کارکردگی دیکھیں اور انہیں کام کرنے پر لگائیں۔ اگر کام کرنے کی کوشش نہیں کریں گے تو سیکھیں گے کیسے؟ ملک خالد کہنے لگا: آہستہ آہستہ سیکھ لیں گے‘ ایسی چیزیں فوراً ہی تو نہیں آ جاتیں۔
میں نے کہا: اگر کام ہی نہیں کریں گے تو سیکھیں گے کیسے؟میں نے ہنس کر کہا: ملک خالد! تم نے دیکھا ہوگا کہ بعض اوقات گدھا ریڑھی پر تجربہ کار گدھے کے ساتھ باہر کی طرف ایک چھوٹا ٹرینی گدھا باندھ دیا جاتا ہے۔ یہ ناتجربہ کار گدھا ٹریفک کے اصول‘ رکنا‘ چلنا‘ دائیں بائیں مڑنا اور خواہ مخواہ کی مستی نہ کرنا اسی ”پروبیشن‘‘ کے دوران سیکھتا ہے۔ یہ بات گدھا گاڑی والے والے کو بھی معلوم ہے آخر حکمرانوں کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی؟ کیا پی ٹی آئی نے سوچ رکھا ہے کہ انہوں نے اس کے بعد دوبارہ کبھی حکومت میں نہیں آنا؟ ویسے ان کی حرکتوں سے تو یہی لگتا ہے‘ لیکن گورنمنٹ دسی نئیں پئی۔