منتخب تحریریں

سندھ حکومت کی استقامت

Share

لگتا ہے سندھ میں ان دنوں شاید گرمی زیادہ پڑ رہی ہے جس کی وجہ سے وہاں کی حکومت ہوش و حواس کھو چکی ہے۔ اندازہ لگائیں انہیں ووٹوں سے زیادہ ووٹروں کی جانیں عزیز ہیں ورنہ تراویح میں صرف مسجد کی انتظامیہ کے علاوہ کسی اور کے مسجد آنے پر پابندی عائد نہ ہو۔

انہیں شاید علم نہیں کہ ماہِ رمضان، عیدین اور ایک دو اور مواقع ایسے ہوتے ہیں جب آئمہ مساجد کو ان کے مقتدی وی آئی پی کا درجہ دیتے ہیں، انہیں ہدیہ پیش کرتے ہیں۔مگر حکومت سندھ اتنی احمق ہے کہ اس نے پورے سندھ میں لاکھوں کی تعداد میں موجود نہ صرف ان آئمہ کو تراویح پر پابندی سے اپنے خلاف کرلیا ہے بلکہ وہ بے شمار مسلمان بھی جو تراویح کو نفل کے بجائے فرض نماز سمجھتے ہیں، اس فیصلے کی وجہ سے حکومت کے خلاف ہوگئے ہوں گے۔

 یہ عجیب بات ہے کہ تمام مسالک کے علماء نے برملا یہ بات کہی ہے کہ تراویح کے نوافل اپنے گھر میں ادا کیے جا سکتے ہیں اور یوں ہر گھر کو مسجد کی شکل دی جا سکتی ہے بلکہ مفتی منیب الرحمٰن، مفتی تقی عثمانی اور مولانا فضل الرحمٰن کے علاوہ بہت سے دوسرے جید علماء نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وبا کی موجودہ خطرناک صورتحال میں وہ اپنے گھروں میں نوافل ادا کرینگے۔ 

سندھ حکومت کی نادانیوں کا سلسلہ بہت طویل ہے، جب سے کورونا کا عذاب پوری دنیا کو پریشان کیے ہوئے ہے، سندھ حکومت کو اپنے عوام کی جانوں کی فکر لاحق ہے وہ یہ بات فراموش کئے ہوئے ہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کی نمائندہ ہے اور ان کی جماعت نے آئندہ انتخابات میں حصہ بھی لینا ہے جس کیلئے ووٹروں کو کو کسی بھی مرحلے پر ناراض نہیں کیا جاتا مگر لگتا ہے اسے ووٹوں کے بجائے ووٹروں کی جانیں زیادہ عزیز ہیں۔ 

چنانچہ صرف مذہبی طبقے کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ سندھ کے تاجروں کو بھی ناراض کرنے میں اس نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ تاجر لاک ڈاؤن ختم کرنے کے لیے حکومت پر ہر قسم کا دباؤ ڈال چکے ہیں مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔

تاہم اِس مسئلے کا ایک قابلِ توجہ پہلو دہاڑی دار طبقے کی جائز پریشانی کی صورت میں موجود ہے، انہوں نے روز کنواں کھودنا اور پانی پینا ہوتا ہے مگر اِس میں قدرے اطمینان کی ایک صورت موجود ہے اور وہ یہ کہ بینظیر انکم اسپورٹ پروگرام جسے اب ’’احساس پروگرام‘‘ کا نام دے کر اُس میں مزید فنڈز شامل کر دیے گئے ہیں، کے ذریعے لاکھوں ضرورت مندوں میں رقوم تقسیم کی جا چکی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ بیشمار مخیر حضرات اور فلاحی تنظیمیں بھی میدانِ عمل میں اُتر چکی ہیں اور سفید پوشوں کی نقدی کی صورت میں مدد کر رہی ہیں۔

 دوسرے ملکوں سے کروڑوں ڈالر بلکہ اب تک یہ مقدار اربوں ڈالر تک پہنچ چکی ہے، پاکستان کو مل چکے ہیں، اب یہ وفاقی حکومت کا کام ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کی ضرورتیں پوری کرے۔ اُسکے علاوہ وہ بڑے بڑے تاجر جن کی تجوریوں سے اُنکی دولت باہر پھسلنا شروع ہو گئی ہے، اِس امارت کی بدہضمی دور کرنے کیلئے اِس کی تقسیم شروع کر دیں۔

سندھ حکومت نے لاک ڈائون کرنے میں پہل کی تھی اور اِس میں بہت سختی بھی کی جا رہی ہے جبکہ دوسرے صوبوں میں آنے والے دنوں میں وبا کے انتہائی خطرناک صورت اختیار کرنے کی پیش گوئی بھی کی جا رہی ہے، مگر لاک ڈائون اب کم سے کم رہ گیا ہے۔ میرا یہ کالم نہ کسی کی حمایت اور نہ کسی کی مخالفت میں ہے بلکہ پاکستان اور اِس میں رہنے والے عوام کی زندگیوں کی بقا اور استحکام کے جذبے سے میں یہ سب کچھ لکھ رہا ہوں۔

 مجھے اُن لیڈی ڈاکٹروں کی انسان دوستی اور پاکستان دوستی پر رشک بھی آتا ہے اور اُس وقت میری آنکھیں نم بھی ہو گئی تھیں جب وہ بھیگی آنکھوں کیساتھ حکومت سے ہاتھ جوڑ کر التجا کر رہی تھیں کہ خدا کیلئے اِس وبا کو سنجیدگی سے لیں، مگر حکومتوں کے سینوں میں دل نہیں ہوتا وہ صرف اپنی بقا کے بارے میں سوچتی ہیں۔

کالم کے آخر میں صرف یہ التجا کرنی ہے کہ سیاست اُس وقت تک کیلئے چھوڑ دی جائے جب تک حالات قابو میں نہ آ جائیں، اللہ تعالیٰ عوام اور سب حکومتی نمائندوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے، بادشاہوں کی بادشاہیاں سلامت رہیں مگر فی الحال پاکستان اور اُس کے عوام کی جانوں کی فکر کریں اور اُن انتظامات میں تیزی لائیں جو غریبوں کے گھروں میں چولہا جلتا رکھنے میں مددگار ہیں۔