منتخب تحریریں

چچا غالبؔ بنام شبلی فراز

Share

از آسمانِ شعر و ادب

عالمِ بالا

عزیز من شبلی فراز!

ارے بھتیجے یہ نامہ دیکھ کر تم حیران تو ہو گے، سوچو گے کہ یہ کون میرا چچا بن بیٹھا، مان نہ مان میں تیرا مہمان مگر میری سنو گے تو مجھے چچا مان لو گے، ویسے بھی غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں۔ تم میرے لئے بیٹے زین العابدین یا پھر میرے شاگرد منشی ہرگوپال تفتہ کی مانند ہو۔

تمہارا والد فراز جب سے عالمِ بالا میں آیا ہے ہر روز اُس کے ساتھ میری شعر و ادب پر نشست ہوتی ہے، فارسی اور اردو کی بندشوں پر بات ہوتی ہے۔ کبھی کبھار فیض بھی آ جاتا ہے لیکن میں اور تمہارا باپ فراز تو ہم نوالہ و ہم پیالہ ہیں۔

فراز نے مجھے تمہارے بارے میں بتایا کہ تم اطلاعات کے وزیر بن گئے ہو تو میں نے فراز کو کہا کہ میں اس کو نصیحت نامہ لکھوں گا مگر فراز نے مجھے منع کیا اور کہا نوجوان نسل کہاں سنتی ہے، دوسرا آپ کے زمانے میں نہ ٹی وی تھا نہ ریڈیو تھا، نہ چینل تھے نہ سوشل میڈیا تھا اور نہ ٹرولنگ تھی اس لئے آپ اسے کیا سمجھائیں گے۔

میں نے فراز کو کہا کہ جب سرسید احمد خان آئینِ اکبری اور آثار الصنادید لکھ کر اپنے مغلیہ ماضی کو یاد کر رہا تھا میں نے اسے اس وقت سمجھایا تھا کہ دنیا کے آئین دیکھو، انسان نے کس قدر ترقی کر لی ہے، کس قدر آزادی حاصل کر لی ہے اور جب میں کلکتہ گیا تو میں نے آنے والے زمانے کی آہٹ سن لی تھی۔

اس لئے میں ہمیشہ سے جدید زمانے کا آدمی رہا ہوں۔ فراز اس پر چپ ہو گیا اور یوں میں یہ خط تمہیں لکھ رہا ہوں تاکہ تم ہمارے ادبی قبیلے کی عزت اور شان سلامت رکھ سکو۔

شبلی!

سنو کہیں وزارت کی طاقت اور نشے میں نہ بہہ جانا اپنے ضمیر اور آزادانہ منصفانہ سوچ کو برقرار رکھنا۔ مجھے علم ہے کہ تمہارا والد اور چچا بیرسٹر مسعود کوثر سیاست میں بھرپور حصہ لیتے رہے ہیں، مجھے فراز نے پاکستان میں ہونے والی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کی ساری تفصیل بتائی ہے۔

میری تمہیں نصیحت یہ ہے کہ آزادیٔ فکر کو کبھی مت روکنا، اسے روکا تو ترقی رک جائے گی۔ میں فراز کو بتاتا ہوں کہ بہادر شاہ ظفر کے دربار میں خوشامد اور قصیدوں کا دور دورہ رہتا تھا، مجھ سے بھی فرمائش کی جاتی تھی کہ نت نیا قصیدہ لکھوں، بادشاہِ ہندوستان کے استاد اور ملک الشعراء کی حیثیت سے مجھے یہ کام کرنا پڑتا تھا حالانکہ میرا دل اس میں نہیں لگتا تھا۔ فراز مجھے بتاتا ہے کہ ریاستِ پاکستان میں جو بھی حکومت پر تنقید کرے وہ حکومت کا ہدف بن جاتا ہے اور یوں تعمیری تنقید بھی نہیں ہو پاتی۔

مجھے 1857کی آزادی (جنگِ غدر) کے واقعات یاد ہیں کہ کس طرح کانپور سے آنے والے گروہ نے جامع مسجد کے سامنے گائے ذبح کر کے دلی کے ہندو مسلم اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا تھا۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ استاد ابراہیم ذوق کے حوالے سے میں نے کہیں ایک دو فقرے کہہ دیے تو لڑکے بالے میرے پیچھے پڑ گئے، بادشاہ تک نے سرزنش کی۔ ایسے میں معاشرہ زوال کا شکار ہونا ہی تھا۔

نہ سائنس نہ ٹیکنالوجی، نہ اختلاف کا حق، نہ نئی بات کہنے اور سوچ کی اجازت ایسی قوم ترقی کیسے کر سکتی ہے؟

جناب عالی وزیر والا تبار صاحب!

فدوی غالب آپ سے یہ درخواست کرتا ہے کہ آپ اپنے خاندانی رتبے اور پسِ منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے میڈیا اور حکومت میں واقعی پل بنیں۔ حکومت بلکہ پوری قوم کو سمجھائو کہ آزادی اظہار ہی سے ملک آگے بڑھ سکتا ہے۔

آواز دبانے یا گلہ دبانے میں کوئی فرق نہیں، کسی کو چپ کرانا یا قتل کرانا ہم معنی ہیں بس اس بات کو سمجھ لیا جائے تو تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

میں نے فراز کو بتایا کہ کیسے میں نے سر سید احمد خان کو فارسی نظم لکھ کر انگریزی زبان اور جدیدیت کی طرف مائل کیا پھر مولوی میر حسن سیالکوٹی سرسید کے روحانی پیروکار بنے اور پھر میر حسن نے اقبال کو تربیت دی، یوں میں غالبؔ اور اقبال ہی پاکستان کے خواب کی دو کڑیاں ہیں۔

پاکستان ایک شاعر کا خواب ہے مگر یہاں اہلِ قلم، اہلِ ادب اور میڈیا کی جتنی قدر ہونی چاہئے وہ نہیں ہے، ہر آنے والا حکمران نئی سے نئی پابندیاں لگاتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس سے اس کی حکومت سدا قائم رہے گی۔

ایسا نہ کبھی ہوا ہے نہ کبھی ہو گا۔ کوئی حکومت، کوئی وزیر ہمیشہ نہیں رہ سکتا۔ اس لئے میرے بیٹے میری نصیحت یہی ہے کہ جتنے دن اقتدار میں رہو پابندیاں ختم کرو اور لوگوں کو عزت دو، دیکھنا تمہیں بھی جواب میں عزت ملے گی۔

ارے شبلی بیٹا!!

مجھے یاد ہے کہ دلی دربار سو سال تک انگریزوں کے چشمِ ابرو پر چلتا رہا، بادشاہ بس نام کا تھا حکم انگریز ہی کا چلتا تھا۔ بادشاہ کو سال کا گیارہ لاکھ روپیہ ملتا تھا جس سے دربار اور بادشاہ سب کا کام چلتا تھا۔

سو سال ملنے کے باوجود مغلیہ شہزادے طوقِ غلامی نہ اُتار سکے اور یوں 1857میں ان کا رہا سہا اقتدار بھی جاتا رہا، غدر میں بہت سے شرفاء اُجڑ گئے، میں خود کئی دن بھوکا پیاسا رہا۔

خوش قسمتی یہ رہی کہ ہمارے محلے کے باہر مہاراجہ پٹیالہ کے محافظ تعینات تھے سو ہماری جان بچی رہی مگر پھر بھی سازشی شکایتیں کرتے رہے، دو دفعہ سپاہی آ کر میری پوچھ گچھ کر گئے مگر خیر رہی۔

جانِ من!

فراز بتا رہا تھا کہ عمران ایماندار ہے، اچھا بندہ ہے اور یہ بھی کہہ رہا تھا کہ اس کی ٹیم نالائق ہے، اب تو تم اس کی ٹیم کے اوپنر بن گئے ہو، امید ہے کہ اب تم لوگ اردو کے مرکز پاکستان کو خوشحالی اور آزادی کا تحفہ دے جائو گے۔

تم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اہلِ ادب و فن کی سرپرستی کرو۔ میڈیا جن مشکلات کا شکار ہے اس سے اسے نکالنے میں مدد دو۔ مجھے علم ہے کہ تم وزارتِ اطلاعات نہیں لینا چاہتے تھے۔

تمہیں علم تھا کہ اس میں بڑی مشکلات ہیں مگر مجھے امید ہے کہ اگر تم نے مسائل حل کرنا چاہے تو عاصم سلیم باجوہ کے ساتھ مل کر تم کامیاب ہو جائو گے لیکن اگر آپس میں تنازع رہا تو پھر دونوں ہی ناکام ہو جائو گے۔

عالمِ بالا میں کہا جا رہا ہے کہ آپ کی حکومت کے پاس کارکردگی دکھانے کے لئے یہی دو چار ماہ ہیں اگر ناکام ہو گئے تو دوبارہ چانس نہیں ملے گا، محنت کی تو کامیاب رہو گے۔ فی الحال کارکردگی اتنی اچھی نہیں، معیشت خراب اور گورننس بھی خراب، جلدی کچھ کر لو۔

تمہارا چچا غالبؔ