نظریات پر سودے بازی کے نتائج
یہ پاکستان سے صرف پانچ ماہ بعد برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے والے برما (میانمار) کی ایک آہنی عورت کی کہانی ہے۔ اس کا باپ ملک کا پانچواں وزیراعظم تھا جسے برما کی آزادی سے صرف چھ ماہ قبل قتل کر دیا گیا۔ والد کاقتل ہوا تو وہ بمشکل دو سال کی تھی۔
نئی حکومت نے اس کی ماں کو بھارت میں سفیر نامزد کیا تو وہ اسے اور باقی بچوں کو لے کر دہلی چلی گئی۔ اس نے ابتدا میں دہلی اور بعد میں برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور مغرب میں ہی رہنے لگی۔
یہ کوئی عام عورت نہیں بلکہ دنیا بھر میں کسی زمانے میں میانمار کے مثبت چہرے کے طور پر پہچانی جانے والی آنگ سان سوچی کی کہانی ہے۔ سوچی کے بارے میں مزید بات کرنے سے قبل تھوڑا سا میانمار کا پس منظر ضرور جان لیں۔ میانمار اور پاکستان میں بہت سی مماثلتیں ہیں۔
اول یہ کہ دونوں جنوبی ایشیا کے ایسے ممالک ہیں جنہوں نے برطانوی راج سے آزادی حاصل کی اور دونوں ممالک میں جمہوریت کی جڑیں اس لیے مستحکم نہ ہوسکیں کہ ان کا واسطہ ابتدا ہی میں مارشل لائوں سے پڑ گیا۔
اس پس منظر میں آنگ سان سوچی اسّی کی دہائی میں وطن واپس آئی اور کچھ ریٹائرڈ فوجی افسروں کے ساتھ مل کر نیشنل لیگ فار ڈیمو کریسی یا این ایل ڈی نامی جماعت بنا ڈالی۔ میانمار کے حبس زدہ ماحول میں سوچی کی جماعت کسی تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہ تھی اسی لیے ملک میں اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ ان دنوں اس وقت میانمار کے فوجی ڈکٹیٹر جنرل نی ون کے دن بھی برے چل رہے تھے لہٰذا اسے عوامی دبائو میں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
سوچی کی طرح اس کے ساتھی ریٹائرڈ فوجی جرنیل بھی اقتدار میں فوجی کردار کے ناقد تھے۔ ملک میں نئے دور کی امید تھی کہ صرف پانچ ماہ کے بعد ہی اگلا فوجی دور آگیا۔
انتخابات تو نہ رکے مگر اس کا راستہ روکنے کے لیے انتخابات سے کم و بیش ایک سال قبل ہی اسے گھر پر نظر بند کر دیا گیا۔ اس سب کے باوجود 1990ء میں عام انتخابات ہوئے تو اس کی جماعت این ایل ڈی نے ملک کی 81فیصد نشستیں جیت لیں۔ فوج نے اقتدار پھر بھی حوالے نہ کیا۔
آنگ سان سوچی کی قید نے عالمی دنیا کی توجہ حاصل کی اور اسے 1991ء میں ہی دنیا کے سب سے بڑے امن ایوارڈ یعنی نوبیل انعام کے لیے نامزد کر دیا گیا۔ سوچی کو کم و بیش پندرہ سال تک گھر میں بند رکھا گیا مگر وہ عالمی سطح پر شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئی۔
سال 2012ء کے ضمنی انتخابات ہوئے تو اس کی جماعت نے 45میں سے 43خالی نشستوں پر فتح حاصل کرلی اور وہ ایوان زیریں یا قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوگئی۔ میانمار کا ایوان زیریں بھی دلچسپ ہے۔ 440ارکان کے ایوان میں 330ارکان براہِ راست منتخب ہوتے ہیں جبکہ 110فوجی افسران بھی پارلیمنٹ کے رکن بنتے ہیں۔
تین سال بعد دوبارہ انتخابات ہوئے تو سوچی کی جماعت کو تاریخی فتح ملی۔ اس نے ایک غیر ملکی سے شادی کر رکھی تھی لہٰذا آئینی مجبوریوں کے تحت وہ صدر تو نہ بن سکی لیکن وزیراعظم کے برابر عہدے‘ اسٹیٹ قونصلر پر براجمان ہوگئی۔
عوام کو توقع تھی کہ آنگ سان سوچی اقتدار میں آئے گی تو ملک سے آمریت کی تاریکیاں ختم ہوں گی۔ میڈیا کو آزادی ملے گی۔ بجٹ کا بڑا حصہ فوج کے اللوں تللوں سے نکل کر عوام کی تعلیم، صحت اور ترقی پر خرچ ہوگا۔ روہنگیا مسلم اقلیت پر فوج کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم بند ہوں گے۔
سوچی اقتدار میں آئی تو سب کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ اس نے عالمی عدالت انصاف میں جاکر روہنگیا اقلیت کے بارے میں اپنی فوج کے غیر انسانی مظالم کا دفاع کیا، فوجی بجٹ مزید مستحکم کیا بلکہ فوج کی خواہش پر اس کے بجٹ و تنخواہوں میں تاریخی اضافے کیے۔
آزاد میڈیا کے نمائندوں کو کمزور ترین کیسز میں گرفتار کرکے سزائیں دلائیں۔ ملک میں تاریکی کے بادل مزید گہرے کیے۔ دراصل وہ اقتدار میں رہ کر تبدیلی لانے کے لیے ایک کے بعد دوسرے سمجھوتے کرتی رہی۔
رواں سال کے آغاز تک سمجھوتے کرتی سوچی دو بنیادی چیزیں یعنی عالمی سطح پر حاصل کی گئی عزت اور مقامی سطح پر ملنے والا اعتماد کھو چکی تھی۔ جو بین الاقوامی جریدے سوچی کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے اب آئے دن اس پر تنقید کرتے ہیں۔
اس سب کے باوجود اس نے پارلیمنٹ میں 2008ء کے فوج کی طرف سے بنائے گئے آئین کو تبدیل کرنے کے لیے ایک ایسی تجویز دی کہ جس کے تحت فوجی افسران کا پندرہ سال میں پارلیمینٹ میں آنا بند ہو جاتا مگر اسے رد کر دیا گیا کیونکہ فوج پارلیمنٹ سے کنٹرول کھونا نہیں چاہتی۔ اس واقعے کے بعد بظاہر سوچی کا اقتدار خطرے میں ہے جسے بچانے کے لیے وہ دوبارہ تگ و دو کر رہی ہے۔
سوچی کی کہانی دراصل تیسری دنیا کے ایسے تمام لیڈروں کی کہانی ہے جو یہ سوچ کر اپنے نظریات قربان کر دیتے ہیں کہ شایداِس سمجھوتہ کے بعد کسی موقع پر کوئی بڑی تبدیلی لے آئیں گے۔
اب تک کے واقعات بتاتے ہیں کہ اقتدار میں آنے کے لیے ایک دفعہ کی سودے بازی بار بار کی سودے بازی کا راستہ تو ضرور ہموار کرتی ہے مگر تبدیلی نہیں لاتی۔
سوچی کی کہانی کو بغور پڑھیں تو اس میں تمام پاکستانی سیاستدانوں کے لیے سبق موجود ہیں۔ آپ طاقت اور پروپیگنڈے کے زور پر اقتدار حاصل کر سکتے ہیں یا اپوزیشن میں بیٹھ کر بھی لوگوں کو بیوقوف بنا سکتے ہیں لیکن بار بار کی سودے بازی آپ کی عزت اور ساکھ دونوں کو مستقل بنیادوں پر نقصان پہنچاتی ہے لہٰذا آپ کوئی ٹھوس تبدیلی تو نہیں لا سکتے لیکن جب غیر مقبول ہوں تو اٹھا کر باہر پھینک دیے جاتے ہیں۔