پاکستان کی سادگی پسند میمن برادری کے لیے ہاتھ روک کر خرچ کرنا قابلِ فخر کیوں ہے؟
کراچی کے پوش علاقے میں جب میں گاڑی پارک کرنے کے لیے جگہ تلاش کرنے کے لیے چکر لگا رہی تھی تو اس شاہانہ کوٹھی کو دیکھ کر میں بہت متاثر ہوئی۔
میری حیرانی دیکھ کر میری نند نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ سڑک کی دوسری جانب موجود اتنا ہی متاثرکن بنگلہ بھی ان کی دوست بلقیس سلیمان دیوان کا ہے جن سے ملنے کے لیے ہم وہاں آئے ہوئے تھے۔ ان کی یہ سابقہ کولیگ میمن برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔
نوآبادیاتی طرزِ تعمیر پر بنا یہ گھر اور نفاست سے تراشے گئے اس کے وسیع باغیچوں کو دیکھ کر گھر والوں کی ثروت کا اندازہ ہو رہا تھا۔
مگر قریب پہنچنے پر ہمیں شاندار مرکزی دروازے کے سامنے سے لے جا کر ایک سادہ سے کمرے میں لے جایا گیا جہاں دروازے کے پاس ایک پرانی سی سلائی مشین، پرانے صوفے اور ایک زمانہ قدیم کے ریفریجریٹر سمیت دیگر ضروریاتِ زندگی کی اشیا موجود تھیں۔
اپنی بہن، ان کے شوہر اور ان کی بالغ ہو چکی بیٹی کے ساتھ رہنے والی بلقیس اور ان کی بہن کا تعلق متمول طبقے سے ہے لیکن بوتل سازی کے کارخانے کی مالک اور اپنے انتقال کر چکے والد کے پھل برآمدات کے کاروبار کی جانشین ہونے کے باوجود وہ اپنا زیادہ تر وقت اس کوٹھی کے پرشکوہ کمروں کے بجائے ایک چھوٹے سے کوارٹر میں گزارتی ہیں۔
باقی کی عمارت ایک اونچے درجے کے نجی سکول کو کرائے پر دی گئی ہے جہاں بلقیس اور میری نند نے دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے تک کام کیا۔
مجھے حیرت ہوئی کہ مال و دولت کی اس قدر فراوانی کے باوجود یہ لوگ اس طرح کیوں رہتے ہیں۔
بلقیس اور ان کا خاندان اکیلے نہیں ہیں۔ مجھے جلد ہی معلوم ہوا کہ سادگی پسند میمن برادری ہاتھ روک کر خرچ کرنے کو قابلِ فخر سمجھتی ہے۔
اپنی آبائی زمین چھوڑنے پر مجبور ہونے والی میمن برادری کے لیے اپنی شناخت کی تلاش میں دولت جمع کرنا اور اسے محفوظ رکھنا کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔
اور ویسے تو مالی استحکام کے ذریعے اپنا تحفظ یقینی بنانا میمن برادری کی فطرت میں شامل ہوچکا ہے، لیکن کراچی کی میمن برادری کی کامیابی کی ایک اور دلچسپ کہانی ہے۔
کراچی کی میمن برادری کو انڈین میمن برادری سے جو چیز ممتاز کرتی ہے وہ 1947 میں تقسیمِ ہند کے خوفناک وقت کی یادیں ہیں۔
موجودہ دور کے انڈیا میں رہ جانے والے میمن افراد کی اپنے آباؤ اجداد کے جمے جمائے کاروبار اور صنعتوں تک رسائی رہی مگر جنھوں نے اپنا کاروبار ختم کر کے ہجرت کی، انھیں صفر سے شروع کرنا پڑا۔
اور اس کی وجہ سے اگر ان خاندانوں کی مالی حیثیت نسلوں پیچھے نہیں تو کئی سال پیچھے ضرور چلی گئی۔
وفات پا چکے میمن صنعتکار اور فلاحی شخصیت احمد داؤد کی پوتی انیلا پاریکھ کہتی ہیں کہ ‘میرے دادا واقعتاً ننگے پیر پاکستان آئے تھے اور لوگوں سے کام مانگتے تھے۔ انھوں نے آہستہ آہستہ اپنا کاروبار کھڑا کیا اور پھیلایا۔ بچپن سے ہی ہمیں محنت سے کمائی گئی دولت کی قدر و قیمت سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ یہ ہماری روز مرّہ کی زندگی کا حصہ ہے۔ یہی ہماری بقا کی وجہ ہے اور ہم اسے ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کا بھی خیال رکھتے ہیں۔’
کراچی کی میمن برادری کے لیے کمایا اور بچایا گیا ہر ‘پیسہ’ ان مشکلات کی یاد دلاتا ہے جس سے گزر کر وہ یہاں تک پہنچے۔ بھلے ہی کراچی کے میمن اب ٹیکسٹائل، تعلیم، کھاد اور مالیاتی اداروں سمیت اکثریتی کاروباری شعبوں کا کنٹرول رکھتے ہیں مگر میمن برادری کی اقدار میں دولت کی قدر گہرائی تک رچی بسی ہوئی ہے۔ اس سے خرچ کرنے میں احتیاط کی وہ روایت جنم لیتی ہے جسے یہ برادری فخر سے محفوظ رکھتی ہے۔
کراچی کے ایک مہنگے سکول اور کال اکیڈمیا سویٹاز اور نکسر کالج کے ڈین ندیم غنی، جو خود بھی میمن ہیں، کہتے ہیں کہ ‘اس کا مطلب ‘خرچ نہ کرو’ نہیں بلکہ ‘ضائع نہ کرو’ ہے۔’
وہ کہتے ہیں کہ ‘کفایت شعاری میں انکساری ہے۔ یہ عزت اور احترام کا مظاہرہ ہے۔ ہم اس سے شرماتے نہیں ہیں۔’
کراچی کے کسی میمن کے بارے میں زیادہ امکان یہی ہے کہ وہ غیر ضروری طور پر خرچ کرنے کے بجائے یا تو کم سے کم پیسوں میں گزارہ کر لے گا یا درمیانہ راستہ اختیار کرے گا۔ یہ ایک طرح سے غیر متوقع سخت حالات سے بچنے کا ایک طریقہ ہے اور اپنی ماضی کی مشکلات کی یاد دہانی ہے۔
چنانچہ وسائل کو عقیدت کے ساتھ استعمال کرنے کا یہی جذبہ ہے کہ اس برادری کے ارکان اپنے پاس موجود دولت کا احترام کرتے ہیں اور اسے جتنا بڑھا سکیں بڑھاتے ہیں۔
کراچی میں رہنے والی ایک میمن حرا کھتری نے بتایا کہ زیادہ تر میمن گھرانوں میں استعمال شدہ کپڑے کئی لوگ استعمال کرتے ہیں جن میں کزنز اور یہاں تک کہ والدین کے بہن بھائی تک بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی گھرانے میں کمرے سے باہر نکلتے وقت لائٹ یا پنکھا کھلا چھوڑ دینا شاید اہمیت کا حامل نہ ہو مگر میمن گھرانوں میں انھیں کھلا چھوڑ دینا ایک ’سنگین جرم‘ سمجھا جاتا ہے۔ میمن بچوں کو احتساب اور حساب کتاب کی اہمیت اچھی طرح سمجھائی جاتی ہے۔
حرا فضول اخراجات کے متعلق اپنے خاندان کی احتیاط کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ‘سودا سلف کے ماہانہ اخراجات میں سنیکس کے لیے بالکل بھی کوئی گنجائش نہیں ہوتی تھی۔ ہمیں ریفریجریٹر اپنے جیب خرچ سے بھرنا پڑتا تھا جبکہ ہم جرم کرنے پر جرمانہ بھی ادا کرتے تھے۔ اگر ہم ٹوائلٹ میں پانی بہانا یا بتیاں بجھانا بھول جاتے تو 15 روپے دینے پڑتے تھے۔ اس پیسے کو جمع کر کے ہمارا انٹرنیٹ کا بِل بھرا جاتا تھا۔’
دلچسپ بات یہ ہے کہ میمن طرزِ زندگی زیرو ویسٹ (زیاں کے خاتمے) کی تحریک سے قریبی مطابقت رکھتا ہے۔
ندیم غنی کہتے ہیں کہ ‘کم خریداری، دوبارہ استعمال، اور دوبارہ کارآمد بنانے کے اصول مرکزی دھارے میں کچھ عرصہ پہلے ہی آئے ہیں مگر یہ صدیوں سے میمن روایات کا حصہ رہے ہیں۔ بس اس میں ایک خوش کن نعرے کی کمی تھی۔’
کئی چیزیں مجھے ہر میمن گھر میں بار بار نظر آئیں مثلاً صرف وہی چیز استعمال کرنا جو موسم میں ہو اور مقامی طور پر اُگائی گئی ہو، یا کھانے کی منصوبہ بندی ایسے کرنا تاکہ کچھ بھی ضائع نہ ہو۔
انیلا پاریکھ بتاتی ہیں کہ ‘کھانے کی میز پر ہمارے پاس ایک سبزی کا سالن اور ایک گوشت کا سالن ہوتا ہے۔ اس سے کچھ بھی زیادہ ہو تو کھانے کے زیاں پر مجھے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔’
ویڈیوگرافر بننے کی خواہشمند مناہل اشفاق کہتی ہیں کہ یہ سبزیوں اور پھلوں کا چھلکا جتنا زیادہ باریک ہوگا، اتنے ہی فخر کی بات ہوگی۔ درحقیقت چھیلنے والے آلے کا استعمال بھی فضول خرچی تصور کیا جاتا ہے اور ممکن ہو تو اس کام کے لیے چھری ہی استعمال کی جاتی ہے۔
فون پر بات کرتے ہوئے ندیم غنی بتاتے ہیں کہ ‘میمن خرچ کرتے وقت حقیقت کو بھلا نہیں دیتے اور چادر سے زیادہ پاؤں نہیں پھیلاتے۔’
غنی ایک ہفتے کے لیے باہر تھے اور اس دوران وہ امریکہ بھر میں ڈرائیو کرتے رہے تاکہ اپنے 18 سالہ بیٹے کو امریکہ کی ٹاپ (آئیوی لیگ) یونیورسٹیاں دکھا سکیں۔ اس دن وہ پرنسٹن گئے تھے مگر انھوں نے بلاجھجھک بتایا کہ انھوں نے والمارٹ کے کپڑے پہن رکھے تھے، قابلِ اعتبار اور کم قیمت میں بہترین چیز۔
کفایت شعاری کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے میمن برادری کی کھانے کی روایات کا تذکرہ کیا: ‘ہمیں اپنا تشخص بنانے سے زیادہ فکر زیاں سے بچنے کی ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ بددیانتی ہے کہ آپ وہ مفت ایپیٹائزر کوپن استعمال نہ کریں، پھر چاہے وہ ہماری پہلی ڈیٹ ہو یا ہماری شادی کو کئی سال ہوچکے ہوں۔’
مگر برادری کی روایات سے اجنبی لوگوں کے نزدیک میمن برادری کی 10 طرح کے کھانوں اور 10 لاکھ روپے سے بھی زیادہ تک کے عروسی جوڑوں والی شاہانہ قسم کی شادیاں برادری کی کفایت شعارانہ روایات سے متصادم ہوسکتی ہیں مگر درحقیقت یہ تقریبات برادری کی مہمانوں کے لیے احترام کی عکاسی کرتی ہیں۔
میمن شادیوں کو ایک چیز جو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ مہمانوں کی فہرست ہے جس میں ہزاروں لوگ شامل ہو سکتے ہیں۔ جب اس تضاد کے بارے میں پوچھا گیا تو فوراً جواب آیا: ‘شادیاں تعلقات قائم کرنے اور لوگوں میں اپنا تشخص قائم کرنے کا بہترین موقع ہوتی ہیں۔’ کیا یہ نپا تلا اقدام ہے؟ ہاں۔ مگر مخلصانہ بھی۔
میمن کفایت شعاری شاید نو ویسٹ تحریک سے مماثلت رکھتی ہو لیکن پیسے اور بچت کے بارے میں کھلے ڈلے انداز میں بات کرنا انھیں دیگر برادریوں سے الگ کرتا ہے۔ انیلا پاریکھ اسے بہترین انداز میں سمجھاتی ہیں۔
‘جب آپ کے مرد کھانے پر بیٹھتے ہیں تو کیا بات کرتے ہیں؟ کرکٹ؟ سیاست؟ شاید موسم کے بارے میں؟’
میں ان کے سوال پر سوچ میں پڑ گئی۔
انیلا نے مسکراتے ہوئے کہا، ‘جب ہمارے مرد کھانے پر بیٹھتے ہیں تو وہ ‘پیسے’ کے بارے میں بات کرتے ہیں۔’
وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتی ہیں کہ ‘مرد کاروبار میں دوبارہ سرمایہ کاری کر کے پیسہ بچاتے ہیں اور خواتین سونے اور سیونگز سرٹیفکیٹس میں۔ مگر ہم سب بچت کرتے ہیں کیونکہ ہمیں نہیں معلوم کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے۔
’میرے بچے 32 اور 27 سال کے ہیں مگر اب بھی میں مہینے کی پہلی تاریخ کو ان کے دروازے پر جاتی ہوں اور ان کی کمائی کا ایک اچھا خاصہ حصہ (ان کے لیے) سرمایہ کاری کرنے کے لیے لے لیتی ہوں۔’
واپس آتے ہیں بلقیس کے گھر، تو اس دن سب سے زیادہ لفظ جو میں نے سنا وہ ‘زیاں’ تھا۔ میری نند حال ہی میں حج سے لوٹی ہیں اس لیے وہ اپنے ساتھ جائے نماز، کھجوریں اور تسبیحیں لائی تھیں۔ بلقیس نے انھیں دیکھتے ہی کہا کہ دو مصلّوں کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
جب ہم سلام دعا سے فارغ ہوئے اور بالوں میں لگائی جانے والی مہندی پر بات چھڑی، تو بلقیس اس وقت حیران رہ گئیں جب میری نند نے ان سے کہا کہ وہ اپنی مہندی کو گہرا رنگ دینے کے لیے تین چمچ پتی ڈالتی ہیں۔
بلقیس حیرانی کے انداز میں بولیں، ‘غیر استعمال شدہ پتی؟ کس قدر زیاں ہے۔’
مگر جب ہم نکلنے لگے تو پروقار میزبان نے اپنے مہمانوں کو خالی ہاتھ نہیں جانے دیا۔ ایک استعمال شدہ سٹائروفوم کے کپ میں انھوں نے اپنے فریزر کی گہرائیوں سے املی کی جڑیں نکال کر دیں (کیونکہ انھیں بڑی تعداد میں خریدنا سستا پڑتا ہے۔)
باقی عمارت کرائے پر دے دینے کے بعد بلقیس کے پاس جو اپنے لیے جگہ بچی ہے، اس میں سے میزیں ہٹا کر اپنے لیے جگہ بناتے ہوئے ہم دروازے تک باہر آئے۔
اور ان کے آخری الفاظ بالکل کھرے کھرے میں تھے: ‘کمرے سے نکلتے ہوئے لائٹ بند کر دینا۔’