نیشنل بینک پاکستان کو برطانیہ سے 19 کروڑ پاؤنڈز موصول
اسلام آباد: اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے تصدیق کی ہے کہ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض حسین کے اہلِخانہ کے ساتھ ہونے والے تصفیے کے نتیجے میں 19 کروڑ پاؤنڈز نیشنل بینک آف پاکستان کو موصول ہوگئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں سوالات کے جوابات دیتے ہوئے ایس بی پی کے ڈپٹی گورنر جمیل احمد نے بتایا کہ ’نیشنل بینک کو رقم موصول ہوگئی ہے لیکن اس رقم کو کس اکاؤنٹ میں رکھا جائے گا یہ فیصلہ حکومت پاکستان کرے گی‘۔
اس اعلان سے قبل کمیٹی اجلاس میں شدید بحث و مباحثہ ہوا، اجلاس کی سربراہی سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کی جنہوں نے کمیٹی اراکین کی جانب سے اٹھائے جانے والے متعدد سولات کے جواب دینے کے لیے گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر کو آئندہ اجلاس میں پیش ہونے کی ہدایت کی۔
تاہم وزارت خزانہ کے ترجمان عمر حمید خان بھی یہ بتانے کے لیے دستیاب نہیں تھے کہ این سی اے سے موصول شدہ فنڈز کس اکاؤنٹ میں رکھے جائیں گے۔
دوسری جانب ایک سینیئر عہدیدار نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وزارت خزانہ کو فنڈز، اس کا ماخذ اور اس کی نوعیت کے بارے میں کچھ علم نہیں سوائے اس بات کے کہ رقم اسلام آباد کی سپریم کورٹ میں موجود نیشنل بینک کی برانچ میں موصول ہوئی ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ مذکورہ رقم سپریم کورٹ کے نیشنل بینک میں موجود اکاؤنٹ میں متقل کی جائے گی اور وفاقی حکومت نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ یہ رقم عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے لیے حکومت کے اکاؤنٹ میں منتقل کی جائے۔
کمیٹی اجلاس میں یہ معاملہ اس وقت زیر بحث آیا کہ جب مسلم لیگ (ن) کے رہنما مشاہداللہ خان نے پوچھا کہ اگر این سی اے سے ’کسی جرم کے تصفیے کی صورت میں‘ رقم موصول ہورہی ہے تو وہ ریاست پاکستان کے اکاؤنٹ نمبر ایک میں جمع کروانے کے بجائے سپریم کورٹ یا ایس بی پی کے پاس کیوں جارہی ہے۔
اس کے جواب میں ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے کا اس رقم سے کوئی لینا دینا نہیں اس معاملے کے بارے میں حکومت سے سوال کرنا چاہیے تاہم انہوں نے اس بات کی تصدیق ضرور کردی کہ رقم براہ راست نیشنل بینک کو موصول ہوئی۔
دوران اجلاس سینیٹر طلحہ محمود نے سوال کیا کہ کیا رقم کا ہر غیر ملکی لین دین مرکزی بینک سے کرنا اور اس کو آگاہ کرنا ضروری نہیں جب اس کا تعلق ریاست پاکستان سے ہو۔
ڈپٹی گورنر ایس بی پی جمیل احمد نے بتایا کہ بینکوں کے ذریعے لین دین ہوسکتا ہے جس کے بارے میں عمومی طور پر مرکزی بینک کو آگاہ کرنا ضروری ہے، تاہم اس قسم کے کیسز میں ایس بی پی کو آگاہ نہیں بھی کیا جاتا کہ رقم کس اکاؤنٹ میں رکھی گئی ہے اور ہم اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتاسکتے۔
اس پر سینیٹرز طلحہ محمود، میاں عتیق شیخ اور دلاور خان نے کہا کہ کسی ادارے کی جانب سے پارلیمنٹ کو معلومات فراہم کرنے سے انکار ناقابل قبول ہے اور اس حوالے سے وہ تحریک استحقاق بھی پیش کرسکتے ہیں کیوں کہ تمام ادارے، محکمے اور ایجنسیاں اس بات کی پابند ہیں کہ ہر بات اور ہر چیز کی تفصیلات پارلیمانی کمیٹیوں کو فراہم کریں۔
اس ضمن میں وزارت قانون کے نمائندے نے بتایا کہ معلومات کے حق کے قانون کے تحت بھی ہر ادارہ، محکمہ کسی حد تک ہر قسم کی تفصیلات عوام کو بتانے کا پابند ہے اور پارلیمنٹ سب سے مقدم ادارہ ہے لہٰذا تمام ادارے پوچھے جانے پر اسے معلومات فراہم کریں گے۔
19 کروڑ پاؤنڈ کا تصفیہ
واضح رہے کہ 3 دسمبر کو برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے خاندان کے ساتھ 19 کروڑ پاؤنڈ کی رقم یا اثاثوں کی فراہمی کے عوض تصفیہ کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
این سی اے نے 19 کروڑ پاؤنڈ کے تصفیے کی پیشکش قبول کی تھی، جس میں برطانیہ کی جائیداد میں لندن کے ون ہائیڈ پارک پلیس نامی عمارت کا ایک اپارٹمنٹ ڈبلیو 22 ایل ایچ شامل ہے جس کی مالیت تقریباً 5 کروڑ پاؤنڈز ہے جبکہ منجمد اکاؤنٹس میں موجود تمام فنڈز شامل ہیں۔
ایجنسی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’19 کروڑ پاؤنڈ کی رقم یا اثاثوں کی فراہمی کے عوض تصفیہ پاکستانی شہری ملک ریاض حسین کے حوالے سے این سی اے کی تحقیقات کے نتیجے میں کیا جائے گا، جو پاکستان کے نجی شعبے کی اہم ترین کاروباری شخصیت ہیں’۔
اس ضمن میں وزیراعظم کے معاون خصوسی شہزاد اکبر نے بھی تصفیے کی شرائط بتانے سے گریز کیا اور کہا تھا کہ حکومت رازداری کے معاہدے کے پابند ہے۔
نیشنل کرائم ایجنسی کے بیان میں کہا تھا گیا کہ ‘اگست 2019 میں لگ بھگ 12 کروڑ پاؤنڈز فنڈز کے حوالے سے ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کی عدالت سے 8 اکاؤنٹس منجمد کرنے کے احکامات حاصل کیے گئے تھے’۔
بیان کے مطابق ‘اکاؤنٹس منجمد کرنے کے یہ احکامات دسمبر 2018 میں 2 کروڑ پاؤنڈز کے حوالے سے اسی تحقیقات سے منسلک احکامات کے بعد حاصل کیے گئے تھے جبکہ اکاؤنٹس منجمد کرنے کے تمام احکامات برطانوی بینک اکاؤنٹس میں موجود رقم سے متعلق تھے’۔