موت دکھا کر بخار قبول کروانا
جھوٹ کی تین اقسام ہیں۔ جھوٹ، سفید جھوٹ اور بجٹ؛ تاہم بجٹ نامی صریح جھوٹ کے اثرات زیادہ وسیع اور دیرپا ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بجٹ کے بارے میں دو تین باتیں بڑی صاف اور پختہ ہیں۔ پہلی یہ کہ پاکستان کا ہر بجٹ حکومت کے اعتبار سے نہایت ہی عمدہ، غریب دوست اور کم از کم ٹیکس کا حامل ہوتا ہے۔ اس سے عام آدمی کی زندگی پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا اور اس سے بہتر بجٹ پیش کرنا کم از کم جنوبی ایشیا میں تو ممکن ہی نہیں ہوتا۔ دوسری یہ کہ اپوزیشن کے حوالے سے یہ غریب دشمن بجٹ ہوتا ہے اور اس کے ملکی معیشت پر نہایت ہی تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ملکی ترقی کی نمو کے لیے یہ بجٹ زہر قاتل ہوتا ہے اور دنیا میں اس سے زیادہ واہیات اور خراب بجٹ کبھی بھی پیش نہیں ہوا ہوتا۔ اب آپ بتائیں الفاظ کے اس گورکھ دھندے پر اس قسم کی دو واضح متضاد آرا پر عام آدمی کیا فیصلہ کرے کہ بجٹ کیسا ہے؟
کوئی زمانہ تھا کہ بجٹ سال بھر کے لیے پیش ہوتا تھا۔ آٹے دال کا بھائو طے ہو جاتا تھا۔ پٹرول کی قیمت پورا سال چلتی تھی۔ ضروریات زندگی کی بیشتر اشیا پر ٹیکس اور قیمت کا فیصلہ ہو جاتا تھا۔ شریف اور سفید پوش لوگ اس بجٹ کی روشنی میں اپنا سال بھر کا بجٹ بناتے تھے اور تنگی ترشی سے ہی سہی، مگر اپنی آمدنی یا تنخواہ کے حساب سے اپنی زندگی کی گاڑی کسی نہ کسی طرح کھینچ لیتے تھے، لیکن اب تو حال ہی الٹا ہو گیا ہے۔ پٹرول کی قیمت ہر ماہ تبدیل ہوتی ہے۔ چینی کی قیمت ہر روز تبدیل ہو سکتی ہے کہ کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں۔ آٹے کی قیمت کا کیا کہیں؟ سب کو علم ہے کہ یہ قیمت حکومت نہیں بلکہ فلور ملز مالکان، آڑھتی اور بیوپاری ملی بھگت سے طے کرتے ہیں۔ نانبائی روٹی کی قیمت اسی نسبت سے از خود بڑھا دیتے ہیں۔ کوئی کسی سے پوچھنے کا روادار نہیں۔ نہ قیمت بڑھانے والے حکومت سے پوچھتے ہیں اور جوابی طور پر حکومت بھی کسی قیمت بڑھانے والے سے کچھ نہیں پوچھتی۔ اسی باہمی بھائی چارے میں عوام کا بیڑہ غرق ہو جاتا ہے۔ یقین کریں میں نے تو ایک عرصے سے بجٹ سننا اور پڑھنا بند کر دیا ہے۔
ڈاکوئوں نے بینک میں ڈاکہ ڈالا اور نوٹوں کا ایک ڈھیر دو چار بڑے بڑے تھیلوں میں ڈال کر اپنے ساتھ لے گئے۔ جائے پناہ پر پہنچ کر ان میں سے ایک ڈاکو نے کہا کہ آئو مل کر نوٹ گن لیتے ہیں کہ کتنی رقم ہے؟ ڈاکوئوں کے سردار نے اسے کہا کہ آرام سے بیٹھو اور چائے سے لطف اندوز ہو۔ تھوڑی دیر بعد خبر نامے میں ساری تفصیل آ جائے گی کہ ہم نے کتنے پیسے لوٹے ہیں۔ خواہ مخواہ نوٹ گننے کے چکر میں نہ پڑو۔ اسی طرح میں بھی بجٹ تقریر سننے کے چکر میں نہیں پڑتا۔ اگلے روز سے بازار کی صورتحال از خود بتا دیتی ہے کہ بجٹ کیسا تھا؟ کتنا غریب دوست تھا اور کتنا امیر دشمن تھا۔
اس ملک میں اعلان کے مطابق دیکھیں تو ہر بجٹ ہی، جی ہاں! ہر بجٹ… خواہ وہ پیپلز پارٹی کا ہو، جنرل پرویز مشرف کے زیر سایہ ق لیگ کا ہو یا مسلم لیگ ن اور اب پی ٹی آئی کا‘ سب کے سب بجٹ انتہائی غریب دوست ہوتے ہیں اور یہ غریب دوست بجٹ اپنی غریب سے دوستی نبھانے کے لیے اس کے ہاں ڈیرے ڈال لیتا ہے اور اسے بھوکا ننگا کر کے دم لیتا ہے۔ یہ ایسا دوست ہے کہ جس سے دوستی لگاتا ہے اسے برباد کر کے دم لیتا ہے۔ ہمارے دوست مختار پارس کے والد صاحب مرحوم باقر شاہ صاحب نے اپنے بیٹے کے دوست کے بارے میں مذاق اور محبت سے ایک بڑی شاندار بات کی۔ وہ کہنے لگے‘ ایک بزرگ ہستی کا قول ہے کہ وہ شخص غریب ہے جس کا کوئی دوست نہیں۔ پھر تھوڑا توقف کرتے ہوئے مسکرائے اور کہنے لگے: لیکن جس کا دوست یہ بچہ ہو گا وہ بھی غریب ہو جائے گا۔ یہی حال اپنے بجٹ کا ہے۔ یہ جس کا بھی دوست ہوتا ہے اسی کو خوار و خستہ کر کے دم لیتا ہے۔
فی الحال تو ساری خرابیوں کا ملبہ کورونا پر ڈال کر حکومت اپنی جان چھڑوانے کے چکر میں ہے، لیکن گزشتہ سال تو کورونا کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا، تب کیا ہوا تھا؟ بلکہ اس کے بعد پورا سال کیا ہوتا رہا ہے؟ چینی کہاں سے کہاں چلی گئی۔ کوکنگ آئل کا کیا بتائیں؟ گزشتہ سال کے آغاز میں دس لٹر کا کین ایک ہزار نو سو روپے کا تھا۔ اس سال کے آغاز میں یعنی سال 2019-20ء کے بجٹ کے دورانیے میںہی اس کی قیمت اڑھائی ہزار روپے ہو گئی‘ یعنی ایک سال کے اندر اندر اور نیا بجٹ آنے سے پیشتر ہی کوکنگ آئل ساٹھ روپے فی لٹر بڑھ گیا۔ بجلی کی اوسط قیمت تیرہ روپے دو پیسے فی یونٹ سے بڑھ کر اٹھارہ روپے انیس پیسے فی یونٹ ہو گئی ہے‘ یعنی بجلی بغیر بتائے ایک سال کے اندر اندر چالیس فیصد کے قریب مہنگی ہو گئی ہے۔ اس کلہاڑے کا کسی بجٹ میں کوئی ذکر نہیں تھا، اور یہی حال گیس کی قیمت کا ہے۔
گیس کی قیمت تو اتنی نہیں بڑھائی گئی لیکن اس سلیب سسٹم کے تحت جو ڈکیتی کی جا رہی ہے اس کا کسی کو ٹھیک طریقے سے اندازہ ہی نہیں۔ سلیب نمبر ایک کے تحت آپ کی استعمال کردہ گیس کا جزو ضربی 272 روپے ہے جبکہ جونہی آپ اس سلیب سے نکل کر اگلی سلیب میں جاتے ہیں جزو ضربی ایک دم سے 1257 روپے ہو جاتا ہے۔ تیسرے سلیب میں آپ کے استعمال کردہ ایم ایم بی ٹی یو کو 4570 سے ضرب دے کر آپ کا بل بنایا جاتا ہے۔ چوتھی سلیب میں یہ جزو ضربی 9125 ہو جاتا ہے اور اسی طرح پانچویں سلیب میں یہ 18227 ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ کسی ایک سلیب سے محض ایک ایم ایم بی ٹی یو زیادہ صرف کریں تو آپ کا بل 272 روپے سے 1257 روپے ہو جائے گا‘1257 روپے سے 4570 روپے اور اسی طرح 4570 سے 9125 روپے اور 9125 روپے سے 18227 روپے ہو جائے گا۔ یہ لوٹ مار کا وہ طریقہ ہے جس پر عقل حیران و پریشان ہے کہ دنیا بھر میں کسی چیز کے زیادہ استعمال پر صارف کو رعایت ملتی ہے مگر یہاں صارف کو زیادہ خرچ کرنے پر زیادہ جرمانہ ٹھوک دیا جاتا ہے۔
یہ اس حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ ہر بار کوئی نہ کوئی قدرتی آفت اس کی مدد کو آ جاتی ہے۔ جہاں یہ آفت باقی قوم کے لیے باعث مشکل اور مصیبت بنتی ہے حکومت کے لیے باعث رعایت اور آسانی بن جاتی ہے جیسے یہ کورونا۔ اس کے طفیل قرضے مؤخر ہو گئے ہیں۔ خراب حکومتی پالیسیاں اور نا لائقی سے بھرپور معاشی اقدامات کو اس کورونا نے اپنے پروں تلے چھپا لیا ہے۔ کورونا کی صورت حال اتنی خراب ہے کہ لوگ اب حکومتی اعلانات اور وزیر اعظم کی تقاریر سے زیادہ سنا مکی پر بھروسہ کرنے لگ پڑے ہیں۔ ویسے عوام کیا کریں؟ جہاں وزیر اعظم پہلے اپریل کے مہینے کو کورونا کے لیے بد ترین قرار دے، پھر جون میں کورونا کے انتہا پر پہنچنے کی خوشخبری سنائے۔ پھر یہ تاریخ بڑھا کر جون جولائی کر دے‘ اور اموات کے کم ہونے پر اپنی تقریر میں فرمائے کہ حالانکہ اتنی اموات ہونی چاہئیں تھیں لیکن اموات کم ہو رہی ہیں بھلا وہاں وزیر اعظم کی باتیں سننے کی باقی کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟
اس صدی کے سب سے بڑے ماہر معاشیات نے کل پرسوں پہ فرمایا ہے کہ جولائی میں بارہ لاکھ افراد کو کورونا ہو سکتا ہے۔ یہ خبر سنتے ہی لوگوں کو بجٹ بھول گیا ہے۔ اسے کہتے ہیں موت دکھا کر بخار قبول کروانا۔ ویسے لگتا یہ ہے کہ جولائی میں صورتحال اس سے کہیں زیادہ خراب ہو گی جتنی اسد عمر صاحب فرما رہے ہیں۔