محمد عارف‘ میں اور محمد عارف
اللہ کا لاکھ لاکھ کرم ہے کہ بندہ اس حبس کے موسم میں بھی پرسوں ملتان میں چلنے والے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں پر لکھ سکتا ہے۔ ایک آدھ مقدس گائے کو چھوڑ کر ڈھیروں بھیڑ بکریوں پر لکھ سکتا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کو چھوڑ کر ادب پر لکھ سکتا ہے سوآج بھی ادب پر ہی کچھ ہو جائے۔
کافی عرصے سے سوچ رہا تھا کہ برادر ِخوردمحمد عارف (واہ کینٹ) کی کتاب پر کچھ لکھوں مگر ہر بار یوں ہوا کہ جب بھی لکھنے کیلئے قلم اٹھایا لگا کہ عارف کے بارے میں لکھنا بہرحال اتنا آسان نہیں کہ قلم اٹھایا اور لکھ لیا۔ اور مشکل کیا ہے؟ مشکل اور کچھ نہیں بس اتنی سی ہے کہ جب میں اس پر لکھنے کا سوچتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں اس پر نہیں بلکہ شاید خود اپنے آپ پر لکھنے لگا ہوں۔ مجھے اس میں اپنا آپ دکھائی دیتا ہے اور جب ایسی صورتحال ہو تو مجھے خلیل جبران کا ایک قول یاد آ جاتا ہے کہ ”میں کبھی کسی کے سامنے لاجواب نہیں ہوا‘ مگر اس کے سامنے جس نے مجھ سے پوچھا تو کون ہے؟‘‘ تاکیداً عرض ہے کہ قول واقعتاً خلیل جبران کا ہی ہے۔ کم از کم بھی چار عشرے ہوئے ہوں گے جب لاہور سے خلیل جبران کی اردو میں ترجمہ شدہ تین چار کتابیں لے کر آیا۔ پتلی پتلی مجلد کتابیں۔ آئینہ ادب سے خریدی تھیں۔ مسلم مسجد کے نیچے واقع یہ دوکان اب تو عرصہ ہوا بند ہو چکی ہے۔ یہاں اب میڈیسن سپلائیز وغیرہ کی دوکان ہے۔ آئینہ ادب‘ امپیریل بک ڈپو‘ آئیڈیل بک ڈپو اور پھر فیروز سنز۔ سب ایسے غائب ہوئے کہ لگتا ہے کبھی تھے ہی نہیں۔ کلاسیک موجود ہے مگر صرف نام کی حد تک۔ سستا روسی ادب اب کہیں نہیں ملتا۔ٹالسٹائی‘ میکسم گورکی ‘ چیخوف الیگزینڈر پوشکن اور دوستو فسکی کی اردو ترجمہ شدہ کتابیں۔ پھرسستی کتاب تو غائب ہی ہوگئی۔
بات محمد عارف کی ہو رہی تھی۔ مجھے اس میں اپنی جوانی کی جھلک دکھائی دیتی ہے اور بس پھر اس پر لکھنے کاارادہ ترک کر دیتا ہوں۔ بھلاخود پر کیا لکھا جا سکتا ہے؟پھر سوچا کہ اس پر کیا لکھوں؟ خود پر ہی کچھ لکھ لوں۔ سو اس کی کتاب”خواتین و حضرات‘‘ میں سے خود پر لکھے گئے خاکے سے کچھ اقتباسات نذرِ قارئین کر دیتا ہوں۔ یہ خاکہ پڑھ کرمجھے اپنی بہت سی عادتوں اور خرابیوں کا پتا چلا۔ ہم اپنی عادتوں سے ‘خواہ وہ بری ہی کیوں نہ ہوں‘ محبت کرتے ہیں‘ان کو گلیمرس سا محسوس کرتے ہیں تاہم بے شمار عادتیں تو ایسی ہوتی ہیں جنہیں آپ سرے سے محسوس ہی نہیں کرتے کہ وہ آپ میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ اس قابل ہیں کہ ان کی تصحیح کی جائے‘ ان کا علاج کیا جائے اور انہیں ٹھیک کیا جائے۔ محمد عارف کا یہ خاکہ ایسا ہے کہ اس میں بیان کی گئی کئی عادتیں اب میں چھوڑ چکا ہوں۔ کئی چھوڑنے کے مرحلے میں ہوں اور دیگر بہت سے دوستوں کے علاوہ محمد عارف کے اس خاکے کا مشکور ہوں کہ اس کے طفیل میں اپنی مرمت کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوا ہوں۔ تاہم ابھی بہت کچھ قابل ِمرمت ہے۔
اس کتاب میں محمد عارف نے سترہ خاکے تحریر کئے ہیں۔ ان میں انور مسعود‘ سرفراز شاہد‘ امان اللہ خان‘ بشیراں بیگم (اماں) محبوب ظفر‘ طالب انصاری‘ عصمت حنیف‘ اختر رضا سلیمی‘ ضیاء المصطفیٰ ترک‘ محمود ساجد‘ مظہر حسین سید‘ شاہ جہاں سالف‘ زوہیب حسن نقوی‘ سعید شارق‘ روزینہ اور یہ خاکسار شامل ہے۔ میرے خاکے کا نام ” خانہ بدوش‘‘ ہے۔ خدا جانے اسے یہ بات کیسے معلوم ہوئی کہ میں صرف باہر سے ہی نہیں اندر سے بھی خانہ بدوش ہوں۔ میرا خیال ہے اب اس خاکے سے کچھ ہو جائے۔
محمد عارف لکھتا ہے ” چہرہ بھرا بھرا بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ۔ سرسفید‘ داڑھی سیاہ(اب یہ بھی سفید ہے)‘ مونچھیں گاماپہلوان مارکہ (اب تھوڑی چھوٹی کروالی ہیں) داڑھی کے بال گالوں تک آجانے سے چہرے کے رعب میں اضافہ ہوگیا ہے۔ کشادہ ہوتی پیشانی پر نماز کا گٹا‘ ناک موٹی اور چوڑی‘ آنکھیں سوئی سوئی سی لیکن روشن جن پر بائی فوکل چشمہ‘ چہرے پر بلوچ ساربانوں جیسی سختی اور درشتی (اب کوشش کر کے تھوڑی کم تو کی ہے مگر بات بن نہیں پا رہی) رنگ خاص پاکستانی یعنی نہ چٹا نہ کالا‘ دیکھنے میں گم سم سا‘ پہلی ملاقات پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ بہت کم گو ہو گا‘ قد درمیانہ جو توند اور فربہی کے باعث چھوٹا لگتا ہے۔ ہر ”چال‘‘ اور ”حال‘‘ میں خوش اور مصروف نظر آنے والا یہ شخص ان لوگوں میں سے ہے جن کی شخصیت اور خوب صورتی عمر کے ساتھ ساتھ نکھرتی جاتی ہے( سرائیکی کی ایک کہاوت ہے کہ ”بھاندے دی ہرشے بھاندی اے‘تے اَن بھاندے دی کئی شے نیئں بھاندی‘‘ یعنی جو آپ کو پسند ہو اس کی ہر چیز اچھی لگتی ہے جو شخص نا پسند ہو اس کی کوئی چیز بھی اچھی نہیں لگتی۔ یاد رہے کہ میں عارف کو اچھا لگتا ہوں)۔
سر کے بال سفید اور داڑھی کالی سیاہ (پرانی بات ہے) چہرے پر یہ دن رات کا منظر…کچھ سمجھ نہیں آتا؟ ٹی وی پروگرام میں خاتون اینکر نے بڑی ادا سے خالد مسعود سے پوچھا۔ اپنے مخصوص انداز میں بولے ”بی بی! اس میں پریشانی کی کیا بات ہے‘ داڑھی سر کے بالوں سے پورے سترہ سال چھوٹی ہے‘‘۔
چائے سے بیزار‘ کافی کا طلب گار‘ سافٹ ڈرنکس میں ماسوائے لیمن کے کچھ پسند نہیں‘ ہاں جوس ہر قسم کا مرغوب ہے۔ کھانا ہمیشہ اچھا اور سیر ہوکر کھاتا ہے۔ جسم مضبوط اور پھر پتلا جبکہ ڈیل ڈول بہ حیثیت مجموعی پہلوانوں جیسا‘ آپ اسے انوکی پہلوان کا سمال ورژن بھی کہہ سکتے ہیں۔ ویسے اگر پہلوان ہوتا تب بھی دنگل گفتگو کے زور سے ہی جیتتا‘ چال ڈھال اور حرکات و سکنات سے تیزی جھلکتی ہے۔ بیٹھے ہونے کے بجائے چلتے پھرتے زیادہ خوبصورت اور بھلا لگتا ہے۔ بارعب اور انٹلیکچول لیکن خاص قسم کی سست اور کاہل طبیعت کا مالک بھی جس پر کبھی کبھی موڈ کا غلبہ بھی ہو جاتا ہے۔
پاؤں میں جوتے ہمیشہ اچھے برانڈ کے لیکن سادہ اور آرام دہ‘ شنید ہے ایک زمانے میں دو چار تھری پیس سوٹ بھی تھے۔ لباس کے معاملے میں اس قدر لاپروا کہ بسا اوقات ایک ہی ڈریس یعنی جین اور شرٹ میں ٹی وی کے کئی مشاعرے بھگتا دیئے۔ سوتے وقت پتا نہیں کہاں سے ”دھوتی مارکہ‘‘ شاٹس برآمد کر کے پہن لئے۔ پینٹ شرٹ کھونٹی پر لٹکا دی جسے صبح جھاڑ کر پہن لیا۔ دوران سفراپنے ساتھ اپنے علاوہ کچھ رکھنے کا قائل نہیں۔ بیرون ملک مہینے سوا مہینے کا سفر دو تین شرٹس اور ایک آدھ جین میں گزار کے آجاتا ہے۔ گرم ملبوس کی ضرورت پڑی تو وہیں سے کسی کی جیکٹ وغیرہ ادھار پکڑی‘ ٹورگزارا اور واپسی پر اس کے متھے مار آئے۔مشاعرہ پڑھنے کا انداز ی بظاہر روکھا پھیکا لیکن درحقیقت بہت جاندار ہے کہ اسی بھولے بھالے انداز سے مشاعرہ لوٹ لیتا ہے‘ پڑھتے ہوئے کبھی چہرے پر مسکان نہیں ابھری‘ ہاں سنجیدگی ایسی ہوتی ہے جیسے مرثیہ پڑھ رہا ہو۔ کبھی مکرر نہیں ہوا‘ جو پڑھ دیا سو پڑھ دیا۔ نہ داد دی اور نہ کبھی شعرا کے عام دستور کے مطابق آداب کہہ کر یا ماتھے پر ہاتھ لے جا کر وصول کی۔ چناب کلب فیصل آباد کا مشاعرہ بیٹھ بلکہ لیٹ چکا تھا۔ ناظم مشاعرہ نے موصوف کو دعوت سخن دی کہ آئیں اور مشاعرے کو اٹھائیں۔ خالد مسعود ڈائس پر آئے اور آتے ہی صرف اتنا کہا ”ایہہ مشاعرہ تے ہن اللہ ہی چکے تے چکے‘‘…اور مشاعرہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہوگیا‘‘۔ خاکہ تو خاصا طویل ہے مگر فی الحال اتناہی کافی ہے۔
قارئین میں نے کہا ہے نا کہ محمد عارف مجھے اپنے جیسا لگتا ہے۔ بس اس کا حلیہ مجھ جیسا نہیں ہے۔ ممکن ہے وہ بھی کبھی میرے جیسا ہو جائے۔ آخر میں بھی تو کبھی اسی جیسا تھا۔