انسان اور بندر کے درمیان کی ایک مخلوق!
میں نے آج تک جتنے کالم جانوروں پر لکھے ہیں شاید ہی کسی اور موضوع پر لکھے ہوں یا زیادہ سے زیادہ جانور نما انسانوں پر لکھے ہوں گے۔ شاید اسی لئے جعفر بلوچ مرحوم نے ایک جگہ لکھا تھا کہ عطاء الحق قاسمی کو پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ آپ چڑیا گھر کی سیر کو نکلے ہوئے ہیں مگر آج بیٹھے بٹھائے مجھے اچانک یاد آیا کہ میں نے غالباً بندروں کے بارے میں کچھ نہیں لکھا حالانکہ جانوروں میں مجھے بندر سب سے زیادہ اچھا لگتا ہے۔ شرارتی، ہنس مکھ، آوارہ گرد، ایک ٹہنی سے دوسری ٹہنی تک پھلانگنے میں لگا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں آج بھی کبھی چڑیا گھر جائوں تو بچے اِدھر اُدھر ہو جاتے ہیں اور میں بندروں کے پنجرے کے پاس کھڑا رہتا ہوں۔ اُنہیں دیکھتا رہتا ہوں مگر پتا نہیں کیوں وہ بھی مجھے دیکھتے رہتے ہیں۔ چند ماہ قبل میں بچوں کے ساتھ چڑیا گھر گیا تو ایک بندر کو کیلا کھاتے دیکھا، کیلا کھاتے دیکھا تو کئی دفعہ تھا مگر اس کی نفاست پسندی نے بہت شرمندہ کیا، اس نے پہلے کیلے کا چھلکا اُتارا، خیر یہ کام تو سبھی کرتے ہیں مگر میں نے دیکھا کہ کیلے کے گودے کے ساتھ جو باریک باریک ریشے ہوتے ہیں اس نے ایک ایک کرکے وہ بھی اُتارے اور تب کہیں جا کر اُس لکھنوی بندر کی نزاکت کی تسکین ہوئی اور اس نے یہ گودا نوشِ جاں فرمایا!
بندر شاید واحد جانور ہے جو ہنستا بھی ہے اور یہ ہنستا اپنی کسی شرارت پر یا آپ کی کسی حرکت پر ہے۔ اس کی بعض شرارتیں اتنی ہی شرمناک ہوتی ہیں جو بعض بدتمیز قسم کے دوست اپنے جیسے کسی دوست کے ساتھ کرتے ہیں۔ ایک دفعہ تو ایک بندر نے بلاوجہ نہایت بےہودہ حرکت کی۔ ایک ہونق قسم کا تماشائی بلاوجہ اسے مسلسل چھیڑے جا رہا تھا۔ بندر نے کچھ دیر تک تو تہذیب کے منافی اس شخص کی یہ حرکت برداشت کی، اس کے بعد بندر نے بدتمیزی کا جواب اس سے زیادہ بدتمیزی کے ساتھ دیا، ہندوئوں کے اس بھگوان نے پشت اس کی جانب کی اور پھر بھونپو کی سی آواز نکال کر ہنسنا شروع کر دیا۔ اسکے ساتھ ہی اس ہونق سے شخص نے اگلے پنجرے کا رُخ کیا۔ میری طرح آپ نے بھی ڈارون کا نام ضرور سنا ہوگا۔ موصوف نے اپنی کئی برسوں کی تحقیق کا جو نتیجہ نکالا اس کے بعد اشرف المخلوقات انسان کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہا۔ اس کی تحقیق بلکہ تحقیر کا نچوڑ یہ تھا کہ انسان کے آبائو اجداد بندر تھے، پھر ارتقائی مراحل طے کرتے کرتے وہ انسان بن گئے، اس کے نزدیک بندر کے انسان بننے کا آخری ثبوت بن مانس کی صورت میں سامنے آیا، جس نے دیگر بہت سی انسانی عادات و حرکات کے علاوہ چار پائوں کے بجائے دو پائوں پر کھڑے ہو کر چلنا شروع کردیا۔ ڈارون کی بدقسمتی اور ہماری خوشی قسمتی کہ بن مانس اور انسان کے درمیان مخلوق دریافت نہ ہو سکی۔
میں اگرچہ مفکر نہیں ہوں، آپ مجھے زیادہ سے زیادہ متفکر کہہ سکتے ہیں کیونکہ میں ہر وقت اس فکر میں رہتا ہوں کہ پاکستان کا کیا بنے گا لیکن چونکہ ڈارون کی تھیوری نے میرے دل و دماغ پر بہت زیادہ اثر کیا اور مجھے سخت دکھ ہوا کہ اس بےچارے کی ساری تحقیق محض اس وجہ سے آگے نہ بڑھ سکی کہ اسے بندر اور انسان کے درمیان کی مخلوق نہ مل سکی، چنانچہ میں نے اپنے طور پر اس کام کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا اور الحمدللہ اس میں کامیابی نصیب ہوئی۔ چند برس بیشتر عطا آباد میں مقیم میرا یار محمد منشایاد زندہ تھا، جو صفِ اول کے افسانہ نگاروں میں شمار ہوتا ہے، کے پاس بیٹھے ہوئے میں نے اپنی اس ’’تحقیق‘‘ کا ذکر کیا، اس نے کہا یار تم اتنا عرصہ خواہ مخواہ پریشان رہے۔ میں اس مخلوق سے تمہیں آج ہی ملائے دیتا ہوں، چنانچہ اس نے ایک فون ملایا اور جواباً اس نے ہمیں اپنے گھر رات کے کھانے کی دعوت دی۔ اس کا گھر کیا تھا، کئی ایکڑوں میں پھیلا ہوا ایک محل تھا اور کھانا کیا تھا، بس یوں سمجھیں دنیا کی ہر نعمت وہاں موجود تھی۔ اس شخص کا دوست اسلام آباد میں کیٹرنگ کا بادشاہ سمجھا جاتا تھا چنانچہ کھانا اس کی طرف سے آیا تھا، میں نے اس شخص کو دیکھا، نہایت ہینڈسم، بہت شستہ اور انگریزی ایسی بولتا تھا کہ انگریز ہی لگتا تھا۔ میں نے منشایاد کے کان میں کہا یار یہ تو مکمل انسان ہے، اس میں جانوروں والی تو کوئی بات نہیں۔ میں ابھی یہ بات کر ہی رہا تھا کہ وہ شخص درختوں سے گھرے ہوئے وسیع و عریض لان میں بچھی میزوں پر سے اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے ملکی مسائل پر تقریر شروع کردی مگر اس کا کوئی جملہ ایسا نہیں تھا جو اس سے اگلے جملے کے متضاد نہیں تھا۔ کھانے میں ہمارے علاوہ اس کے پچاس کے قریب مداحین بھی موجود تھے جو اس کے ایک ایک جملے پر قربان ہوئے جاتے تھے۔ اتنے میں اچانک وہ اپنی جگہ سے چند قدم دور درختوں کی طرف گیا اور ایک درخت پر ’’پلاکی‘‘ مار کر چڑھ گیا اور پھر ٹہنیاں پکڑ پکڑ کر ایک درخت سے دوسرے درخت کی طرف چھلانگ لیتا رہا، اس کے بعد وہ درخت سے اُترا اور دوبارہ کھانے کی میز پر بیٹھ گیا۔ رات گئے ہم واپس لوٹے تو منشا نے کہا ’’ڈارون کی تھیوری سچی ثابت ہوگئی نا؟‘‘ میں نے کہا ’’ہاں مگر کاش ایک تو اس کی باتوں میں کوئی سینس ہوتی اور دوسرے درختوں کی ٹہنیاں پکڑ پکڑ کر بندروں جیسی حرکتیں نہ کرتا‘‘۔ یہ سن کر منشا نے کہا ’’تم کسی ایسی ہی مخلوق کی تلاش میں تھے نا جو انسان اور بندر کی درمیانی مخلوق ہونے کی وجہ سے ڈارون کی تھیوری ثابت کردیتا‘‘ میں نے کہا ’’ہاں، بظاہر میں یہی کہتا تھا مگر میری دلی خواہش تھی کہ ہم انسان اشرف المخلوقات ہی سمجھے جاتے، ہمارا شمار بندروں کی نسل سے نہ ہوتا!‘‘