منتخب تحریریں

نجم الاصغر شاہیا۔ ایک روشن ستارہ… (1)

Share

ساڑھے تین مہینوں سے زیادہ وقت گزر گیا ہے ۔ لاک ڈائون کے دنوں میں بیکار مباش کچھ کیا کر کے مصداق لائبریری کی صفائی‘ سٹور میں سامان کی چھانٹی اور کپڑوں والی الماری کی صورت نکھارنے جیسے کام کیے‘ لیکن کب تک؟ یہ ایسے کام تو ہرگز نہ تھے کہ برسوں چلتے سو ختم ہو گئے ۔ ہاں! کتابیں پڑھنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اب میری طبیعت کے حساب سے نئی کتابیں کم ہی میسر آ رہی ہیں۔ وہی حال ہے جیسا کسی نے گزشتہ دنوں مرحوم طارق عزیز کی رخصت پر طنز کیا کہ طارق عزیز‘ ضیا محی الدین‘ قریش پور‘ افتخار عارف‘ عبید اللہ بیگ‘ مستنصر حسین تارڑ‘ نعیم بخاری‘ انور مقصود اور معین اختر سے عامر لیاقت‘ فہد مصطفی‘ ساحر لودھی‘ بیگم نوازش‘ وقار ذکا تک کا سفر۔ پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے۔ شاعری میں صورتحال بہت بہتر ہے کہ پڑھنے کو تازہ جھونکے جیسے خیالات سے لبریز شاعری مل جاتی ہے‘ مگر نثر کا حال پتلا ہے۔ ممکن ہے یہ میرا خیال ہو کہ منٹو‘ کرشن چندر‘ اوپندر ناتھ اشک‘کرتار سنگھ دُگل‘ احمد ندیم قاسمی‘ غلام عباس‘ مستنصر حسین تارڑ‘ شفیق الرحمان‘ عبداللہ حسین‘ شوکت صدیقی‘ اسد محمد خان‘ شکیل عادل زادہ‘ نسیم حجازی‘ قدرت اللہ شہاب‘ مختار مسعود‘ مسعود مفتی‘ ممتاز مفتی‘ عصمت چغتائی‘ انتظار حسین‘ ابن انشا‘ مشتاق یوسفی‘ فضل کریم فضلی‘ محمد منشا یاد‘ بانو قدسیہ اور اشفاق احمد صاحب کو پڑھنے کے بعد اب دل کسی نثر پارے پر کم ہی ٹکتا ہے ۔ بہت سے نام رہ گئے ہیں۔ چند نئے لکھنے والے ہیں مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔
اپریل کے آغاز میں ایک کالم لکھتے ہوئے مرحوم نجم الاصغر شاہیا کی شاعری کی بات کی تھی۔ وعدہ کیا تھا کہ مرحوم پر کالم لکھوں گا۔ اڑھائی ماہ پیشتر نجم الاصغر شاہیا کی کلیات برادرِ خورد شاکر حسین شاکر نے بھجوائی تھی۔ یہ کتاب تب سے میری میز پر ہے اور گزشتہ اڑھائی ماہ سے مسلسل اسے کھولتا ہوں‘ پڑھتا ہوں اور دیر تک سرشار رہتا ہوں۔ عروض پر انتہائی دسترس رکھنے والے اور بہت ہی منفرد شاعری کرنے والے شاہیا کو اپنی غزل کا مان شاید نظم سے زیادہ تھا‘ لیکن میرے خیال میں جتنی انفرادیت‘ ندرتِ خیال‘ انوکھے موضوعات اور حیران کن ڈکشن شاہیا نے نظم میں استعمال کر کے اسے لازوال بنایا ہے وہ اس کی غزل میں اس طرح نہیں ملتی۔ غالب کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ چچا کو اس فارسی کلام پر جتنا مان اور زعم تھا وہ اپنی اردو شاعری پر نہ تھا مگر ہوا کیا؟ چچا کی فارسی شاعری کا چراغ تو بیدل کے سامنے نہ جل سکا مگر اردو شاعری کی جو شمع روشن کی وہ گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے اس آب و تاب سے جل رہی ہے کہ اس کے سامنے کسی کا چراغ جلنا بھی محال ہے۔
نجم الاصغر شاہیا ان شاعروں میں سے ہیں جن کی شاعری کو نہ صرف ان کی زندگی میں بلکہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی وہ پذیرائی اور مقام نہ مل سکا جس کی وہ حقدار تھی۔ زود رنج شاہیا کو از خود اس بات کا ساری عمر قلق رہا اور اس دوران وہ اسی ناقدری کے رد عمل میں کئی سال تک شاعری سے بھی دور رہے۔ ایف اے کے دوران ہی تعلیم کو خیر باد کہنے والے نجم الاصغر شاہیا نے تعلیم ادھوری چھوڑنے کے بعد ایک وولن ملز میں نوکری کی۔ پھر پرائیویٹ ایف اے کرنے کے بعد مختلف ملازمتوں سے ہوتے ہوئے آرمی میں بطور ٹیکنیشن بھرتی ہوئے اور اسی دوران بی اے کا امتحان پاس کیا۔ جہدِ مسلسل اور محنت ساری زندگی شاہیا کا شعار رہا‘ لیکن ان کی سب سے نمایاں بات ان کا کھرا پن‘ سچائی اور ادب کے معاملے میں بے لاگ رائے تھی۔ ادب کے معاملے پر سمجھوتا کرنا شاہیا کی فطرت میں نہیں تھا اور اسی وجہ سے ملتان کے ادبی منظر نامے کے چودھریوں کو شاہیا سے جو بیر اور بغض تھا اسے انہوں نے اس طرح نکالا کہ ایک شاندار اور بے مثل شاعر کو نہ تو خود تسلیم کیا اور نہ ہی ان کے چمچوں کڑچھوں نے شاہیا کی شاعرانہ حیثیت کو ہی کبھی آگے آنے دیا۔ شاہیا کی ساری زندگی دو طرح کی جدوجہد میں گزری: عملی زندگی کا بیشتر حصہ معاشی تگ و دو اور سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے میں صرف ہو گیااور شاعری میں ادب کے مقامی ٹھیکیداروں نے کبھی دوسرے درجے کا شاعر تسلیم نہ کیا اور یہ وہ لوگ تھے جن کے اپنے دامن میں ادب کی کھرچن بھی بمشکل ہی موجود تھی۔
اچھوتے مضامین اور مشاہدے کی باریک بینی اور سونے پر سہاگہ ان کی ڈکشن‘ اسلوب اور الفاظ پر دسترس تھی۔ وہ اس سے ایک ایسا رنگین منظر نامہ تخلیق کرتے تھے کہ پڑھنے والا حیرت کی دنیا میں گم ہو جاتا ہے ۔ مشکل‘ مشقت ‘جہدِ مسلسل اور خود کو تسلیم کروانے کی خواہش کے چار عشرے ۔ محنت اور لا حاصلی کے ان چالیس سالوں پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن مقصد شاہیا کے حالاتِ زندگی سے زیادہ ان کی شاعری کا تعارف ہے سو شاہیا کی کچھ چیزیں نذرِ قارئین ہیں۔ ایک کالم تو ان کی شاعری کے تعارف کے لیے اتنا ناکافی ہے کہ باقاعدہ نا انصافی کے زمرے میں آتا ہے۔ گزشتہ روز واہ کینٹ عزیزم محمد عارف سے فون پر بات ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ کم از کم دو کالم تو لکھیں۔ سو محمد عارف کا کہنا سر ماتھے پر۔
نعت: طلع البدر علینا
دکھوں کے اندھیرے تھے یثرب پہ چھائے اچانک مسرت کی کرنیں جو پھوٹیں
تو تاریکیوں نے ہوائوں سے پوچھا یہ کیا روشنی ہے
یہ ظلمت میں رشکِ قمر کون آیا
ہوائوں نے شہر اور مضافات کے سارے پت جھڑ کے مارے درختوں سے پوچھا
یہ موسم تو پھولوں کا موسم نہیں پھر یہ خوشبو ہے کیسی
بہاروں کا پیغام بر کون آیا
درختوں نے شاخوں پہ بیٹھے ہوئے موسمی اور مقامی پرندوں سے پوچھا
ہیں لرزہ بر اندام خونی عقاب اور شاہین جس سے
چمن میں یہ بے بال و پر کون آیا
پرندوں نے آ کر مدینے کے سب اونچے نیچے گھروں کی منڈیروں سے پوچھا
یہ آج اِن گھروں کو دُلہن کی طرح کیوں سجایا گیا ہے
ہمیں بھی تو ہو کچھ خبر کون آیا
منڈیروں نے چھت پر کھڑی دف بجاتی ہوئی بچیوں سے کہا تم بتائو
یہ ہنگامۂ شوق و جشنِ پذیرائی کس کے لیے ہے
یہ ناقہ سوار آج ادھر کون آیا
وہ بولیں کہ اس کملی والے بزرگِ مکرّم کے آنے کی سب کو خوشی ہے
مگر کوئی خوش بخت ایوبؓ کے شادماں دل سے پوچھے
کہ مہمان آج اس کے گھر کون آیا
پھر ان سب ہواؤں‘ درختوں‘ پرندوں‘ مکانوں نے اپنے نمائندے بھیجے
جب ان کے نمائندوں کو میزبانِ نبی ؐ نے بتایا
کہ کرکے یہ کوسوں سفر کون آیا
تو ساری ہوائوں نے‘ سارے درختوں نے‘ سارے پرندوں نے‘ سارے گھروں نے
کیا اس کو سجدہ‘ فرشتوں نے آدم کو جیسے کیا تھا
انہیں ہو گئی تھی خبر‘ کون آیا
(جاری)