سرمد کھوسٹ کی فلم اور مجھے ’’بکری‘‘ بنانے والا ماحول
ترکی کے صدر نے پندرہ سو برس قبل تعمیر ہوئی ایک عمارت میں خلافتِ عثمانیہ کے دوران بنائی مسجد کی ”بحالی“ کا اعلان کیا تو اس کی بابت کچھ لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔متعلقہ کالم کے آغاز ہی میں نہایت دیانت داری سے اعتراف کیا کہ فیصلہ تاریخی ہے۔اس کا مثبت اور منفی ردعمل بھی شدید ترین ہوگا۔ یہ فیصلہ درست ہے یا غلط اس کے بارے میں ذاتی رائے دینے سے البتہ گریز کیا۔زیادہ توجہ یہ سمجھنے پر مرکوز رکھی کہ کون سے سیاسی تقاضوں کی وجہ سے اردوان یہ فیصلہ لینے کو مجبور ہوا۔
مذکورہ کالم چھپنے کے بعد مجھے کئی پیغامات ملے ہیں۔بیشترلوگوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ میں انتہائی ڈھٹائی سے اپنے ”بکری“ ہوجانے کا اعلان کئے جاتا ہوں۔لکھاری کا بنیادی فریضہ جبکہ حساس ترین موضوعات پر بھی اپنی رائے کا کھل کا اظہار کرنا ہے۔یہ جرا¿ت نہیں دکھاسکتا تو ”دانشوری“ بگھارنے سے اجتناب برتے۔
مجھے تنقید کا نشانہ بنانے والوں کی رائے برحق۔ اس کے باوجود یہ حقیقت یاد دلاتا رہوں گا کہ فی الوقت ہمارے ہاں سنجیدہ موضوعات پر مدلل بحث کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ایسے ہی ماحول کو ذہن میں رکھتے ہوئے کئی برس پہلے ایک شاعر نے ”خوف فسادِ خلق“ سے کئی باتوں کو ”ان کہی“ رکھنے کی ضرورت کو اجاگر کیا تھا۔
ہماری نوجوان نسل ”اظہار رائے“ کو سوشل میڈیا کے ذریعے استعمال کرنے کی روش سے خوب واقف ہے۔اس روش کو ذہن میں رکھتے ہوئے کالم نگاروں سے بھی اپنی بات ”کھل کر“ بیان کرنے کا تقاضہ ہوتا ہے۔اس پہ اصرار کرتے ہوئے مگر یہ حقیقت فراموش کردی جاتی ہے کہ روایتی صحافت چند قوانین کا ہر صورت احترام کرنے کو مجبور ہوتی ہے۔اس کے علاوہ ”ذاتی رائے“ کا اظہار کرتے ہوئے آپ کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ”اخبار“ ایک ”ادارہ“ ہے۔سینکڑوں لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ ہوتا ہے۔ان لوگوں کی بے پناہ اکثریت گمنام ہی رہتی ہے۔ان کی جوانی والی تصویر کے ساتھ کالم شائع نہیں ہوتے۔ نہ ہی ان کی مشقت سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آتی ہے۔”اپنی رائے“ کو کھل کر بیان کرنے کے جنون میں انہیں مصیبت میں ڈالنا غیر ذمہ دارانہ ہی نہیں بلکہ انتہائی خود غرض فعل بھی ہے۔ساری عمر صحافت کی نذر کردینے کے بعد میں خود کو ”ہیرو“ ثابت کرنے کے لئے ایسی خود غرضی کا مرتکب ہو ہی نہیں سکتا۔مجھے ”بکری“ بنانے والا ماحول بھی اپنی جگہ قائم ودائم ہے۔
اس ماحول کو سمجھنا ہو توسرمد کھوسٹ کے سر پر نازل ہوئی پریشانی کا ادراک کیجئے۔میری سرمد سے آج تک ملاقات نہیں ہوئی۔موصوف کے والد عرفان کھوسٹ بہت بڑے اداکار ہیں۔ آج بھی کئی لوگ ان کے پیش کردہ ”ڈائریکٹ حوالدار“ والے کردار کی زبان اور بدن بولی کو یاد رکھے ہوئے ہیں۔سکول کے دنوں میں جب میں ریڈیو پاکستان کے سکول براڈ کاسٹ والے پروگراموں میں شریک ہوتا تو کئی بار عرفان نے بھی ان میں حصہ لیا۔وہ مجھ سے چند ہی سال سینئر ہے۔ان دنوں مگر ”بچہ“ ہی تھا۔ ریڈیو پاکستان لاہورکی عمارت میں داخل ہوتا تو اسے وہاں موجود سٹاف اور فن کاروں سے بہت محبت ملتی۔وہ سلطان کھوسٹ کا فرزند ہے۔سلطان صاحب ریڈیو کی Legendaryآواز تصور ہوتے تھے۔ان کی حسِ مزاح لاثانی تھی۔اپنے والد کے انتقال کے بعد عرفان نے دن رات محنت سے اداکاری کے شعبے میں اپنی پہچان بنائی۔
کئی برسوں سے میں ڈرامے اور فلمیں وغیرہ نہیں دیکھتا۔سرمد کھوسٹ کی فن کارانہ کاوشوں پر جب کبھی سرسری نگاہ ڈالنے کا موقعہ ملا تو وہ مجھے اپنے دادا اور والد کی تخلیقی صلاحیتوں کا محنتی وارث نظر آیا۔چند دن قبل اس نے غالباََ ”زندگی تماشہ“ کے نام سے ایک فلم بنائی۔مجھے کامل یقین ہے کہ یہ فلم بناتے ہوئے اس دیوانے نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونچی خرچ کردی ہوگی۔فلم تیار ہونے کے بعد سنسربورڈ کے روبرو پیش ہوئی۔اس نے اسے سینما گھروں میں نمائش کے لئے پاس کردیا۔اس فلم کی ریلیز سے قبل ہی مگر اس فلم کے حوالے سے ایک قضیہ کھڑا ہوگیا۔ اس قضیے کی بدولت کسی سینما ہاﺅس کو وہ فلم دکھانے کی جرا¿ت نہ ہوئی۔
کتابی گفتگوکریں تو پاکستان ایک جدید ریاست ہے۔اس کا ایک تحریری آئین بھی ہے۔اس آئین پر عملدرآمد کے لئے ادارے بنائے گئے ہیں۔سنسر بورڈ بھی ایسا ہی ایک ادارہ ہے۔اصولی طورپر اگر اس نے سرمد کھوسٹ کی بنائی فلم کو ”قابل اعتراض“ قرار نہیں دیا تو ہماری ریاست کے دیگر اداروں کی یہ بنیادی ذمہ داری تھی کہ وہ اس کی نمائش روکنے والوں کو لگام ڈالتے۔ یہ مگر ہو نہیں پایا۔ عمر بھر کی جمع پونچی اس فلم پر خرچ کرنے کے بعد سرمد یقینا بھونچکاہوگا ۔اپنی زندگی بھی خطرے میں محسوس کررہا ہوگا۔
مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ پیپلز پارٹی کے جواں سال سینیٹر مصطفےٰ نواز کھوکھرنے سینٹ کی انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والی کمیٹی کا سربراہ ہوتے ہوئے سرمد کھوسٹ کی معاونت کا فیصلہ کیا۔ اس کی تیار کردہ فلم کو منگل کے روز اس کمیٹی کے تمام اراکین نے یکجاہوکر دیکھا ہے۔اسے دیکھنے کے بعد سب کی متفقہ رائے یہ تھی کہ مذکورہ فلم میں ”قابلِ اعتراض“ کوئی بات نہیں۔
اس فلم کو دیکھنے والے ایک سینیٹر سے میری منگل کی شام تفصیلی گفتگو ہوئی ہے۔ان صاحب نے مجھے اس فلم کی جو کہانی سنائی مجھے بہت حقیقی لگی۔اس کے مرکزی کردار جیسے بے تحاشہ افراد میں نے لاہور کی گلیوں میں جوان ہوتے ہوئے بہت قریب سے دیکھے ہیں۔ سوشل میڈیا کے طالب علم کی طرح مشاہدے کی بدولت میں اس تلخ حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہوں کہ کسی شخص کی ذاتی زندگی سے متعلق ”چسکہ بھری“ کوئی وڈیو ”وائرل“ ہونے کے بعد کیا قیامت برپا کرتی ہے۔
سرمد کھوسٹ کی بنائی فلم کی کہانی اس کالم میں بیان کرنا زیادتی ہوگی۔بہتر یہی ہے کہ وہ سینما ہی میں دیکھی جائے۔ مجھے گماں ہے کہ سرمد کھوسٹ نے اس فلم کے ذریعے بنیادی طورپر اس دہشت ناک عذاب کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے جس کی زد میں سوشل میڈیا کی بدولت ہم میں سے کوئی بھی شخص کسی بھی وقت آسکتا ہے۔ایوانِ بالا کے جن اراکین نے منگل کے روز یہ فلم دیکھی ہے وہ ہر اعتبار سے معزز ومہذب افراد ہیں۔انہیں یہ دریافت کرنے کے لئے کسی رہ نمائی کی ضرورت نہیں کہ کونسی فلم سینما ہاﺅسز میں دکھائے جانے کے قابل نہیں۔ سنسر بورڈ کے بعد ان کی جانب سے آئی کلیئرنس کے بعد اس فلم کے حوالے سے اُٹھے قضیے کا لہٰذا خاتمہ بالخیر ہوجانا چاہیے۔
فلم کا تذکرہ کرتے ہوئے ہمیں یہ حقیقت بھی نگاہ میں رکھنا ہوگی کہ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں کرونا کی وجہ سے سینما ہاﺅسز بند ہوچکے ہیں۔امریکہ کی وہ ریاستیں بھی جو ٹرمپ کے اتباع میں اپنے ہاں سماجی فاصلے کو یقینی بنانے والے ضوابط لاگو نہیں کر رہیں اپنے ہاں سینما گھروں کو کھولنے سے گریز کررہی ہیں۔اس کی وجہ سے Drive Inسینما بحال ہورہے ہیں۔گھروں میں محصوری سے اُکتائے تماشائی وہاں کثیر تعداد میں جانا شروع ہوگئے ہیں۔فلمی صنعت مکمل طورپر تباہ ہونے سے بچ گئی ہے۔Stay Homeکے ایام میں Netflixجیسے پلیٹ فارم کاکاروبار بھی چمک اٹھا ہے۔پاکستانی متوسط طبقے کی بے پناہ تعداد بھی اس کی عادی ہورہی ہے۔ اس کی وجہ سے مقامی طورپر بنائی فلموں اور ڈراموں کا مستقبل مخدوش تر ہوتا جارہا ہے۔
ایسے حالات میں سرمد کھوسٹ جیسے محنتی اور تخلیقی فلم ساز اور ہدایت کار ہماری شفقت کے مستحق ہیں۔پاکستان کے مقابلے میں ایران میں سنسر کانظام بہت کڑاہے۔اس کے باوجود وہاں کے تخلیقی ہدایت کاروں نے ایسی فلمیں بنائی ہیں جن کے موضوعات حیران کن حد تک ”بولڈ“ ہیں۔ایسی فلموں کی بدولت ایران دنیا بھر میں اپنی ثقافت کی گیرائی اور گہرائی کو مسلسل اجاگر کررہا ہے۔پاکستان کو اپنی ”شناخت“ ڈھونڈنے کے لئے ارطغرل جیسے ڈراموں کی ضرورت نہیں۔ ہم یقینا اس کے موضوع اور کہانی سے اپنا رشتہ کئی حوالوں سے جوڑ سکتے ہیں۔ارطغرل مگر پاکستانی نہیں ترک ہے۔ ہمیں ”پاکستانی شناخت“ کو مقامی طورپر بنائے ڈراموں اور فلموں کے ذریعے ہی دنیا کے سامنے لانا ہوگا۔