ماورائے عقل ایک واقعہ!
میں نے یہ کالم دس مارچ 2012کو لکھا تھا اور کئی دن حیران پریشان رہا تھا چنانچہ اس حیرانی کا اندازہ آپ کو کالم کے آغاز میں ہو جائے گا۔ بہت غور و فکر کے بعد میں یہ کالم لکھ رہا ہوں بلکہ یہ جملہ لکھتے وقت بھی سوچ رہا ہوں کہ کیا مجھے یہ کالم لکھنا چاہئے کہ نہیں، اس کالم کے حوالے سے اتنے تامل کی وجہ صرف یہ ہے کہ حسن نثار کی طرح میں بھی فرد کی بھول بھلیوں میں گم ہوں اور یوں ماورائے عقل جو کچھ ہے اس پر یقین کرنے سے پہلے کم از کم مجھے بہت سی ٹھوس شہادتوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ میں اس احتیاط سے اس لئے بھی کام لے رہا ہوں کہ ہماری قوم پہلے ہی سے ڈبہ پیروں اور عاملوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے اور یوں میں نہیں چاہتا کہ میرا یہ کالم انہیں ان کے واہموں میں مزید پختہ کر دے۔
جو واقعہ میں بیان کرنے والا ہوں اس کا راوی میرا ایک بچپن کا دوست سعید ہے اور یوں میں اسے ساٹھ سال سے جانتا ہوں۔ وہ لاہور کی خوبصورت بستی ماڈل ٹائون کے اے بلاک میں رہتا ہے اور خود میں نے بھی اس بستی میں اپنی زندگی کے 25سال گزارے ہیں۔ جب میں یہاں سے ایک دوسری بستی میں منتقل ہو گیا تو اس سے میری ملاقاتیں بہت کم ہو گئیں۔ گزشتہ روز اس کا فون آیا وہ مجھ سے کسی کام کے سلسلے میں ملنا چاہتا تھا۔ میں نے اسے اپنے دفتر میں بلا لیا اور پھر ہم بہت دیر تک اپنے بچپن اور جوانی کی حماقتوں کا ذکر کرکے ہنستے رہے۔ اس دوران اس نے یونہی برسبیل تذکرہ بتایا کہ اسے گنٹھیا کا مرض لاحق ہو گیا تھا، اس کے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں مڑ گئی تھیں اور جسم سکڑنا شروع ہو گیا تھا حتیٰ کہ ایک وقت آیا کہ اس کی کمر دوہری ہونا شروع ہوئی اور پھر وہ آہستہ آہستہ بستر سے لگ گیا، یہ اس کی زندگی کے مشکل ترین دن تھے۔ وہ اپاہج ہو گیا تھا اور اللہ تعالیٰ سے ہمہ وقت موت کی دعائیں کرنے لگا تھا۔ اس نے بڑے سے بڑے ڈاکٹر سے علاج کرایا لیکن صورتحال ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق تھی، اس دوران ایلوپیتھک ڈاکٹروں کے علاوہ حکیموں، ہومیوپیتھی اور دم درود اور تعویز گنڈوں کو بھی آزمایا لیکن افاقے کے بجائے مرض کی شدت میں اضافہ ہوتا چلا گیا حتیٰ کہ ایک وقت آیا کہ ڈاکٹروں نے اسے جواب دے دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ اس مرض کا تاحال کوئی علاج دریافت نہیں ہوا۔ پھر ایک دن یوں ہوا کہ اس کا ایک جاننے والا اس کے پاس آیا اور کہا لاہور کے علاقہ ملتان چونگی میں ایک اللہ والا رہتا ہے تم میرے ساتھ اس کے پاس چلو، اس کے ہاتھوں بہت سے مریضوں کو شفا ہوئی ہے، اللہ تمہیں بھی شفا دے گا۔ سعید اس کے ساتھ ملتان چونگی کی ایک گلی میں واقع ایک گھر میں داخل ہوا جس کے ایک کمرے میں ایک ہیجڑا بیٹھا تھا جس نے مردانہ لباس پہنا ہوا تھا اور اس کا کمرہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ سعید کو اس کے جاننے والے نے بتایا تھا کہ اسے صرف یہ کہنا ہے کہ ’’میری بیماری کی کتاب کھول دو‘‘ اس کے علاوہ کچھ نہیں بولنا، چنانچہ جب سعید کی باری آئی تو اس نے یہی جملہ دہرایا اور پھر سامنے دھری کتاب میں ایک سو روپے کا نوٹ رکھ دیا۔ وہ ہیجڑا یہ کتاب ملحقہ کمرے میں چھوڑ آیا اور تھوڑی دیر بعد اپنی جگہ سے اٹھا اور وہ کتاب واپس اٹھا لایا، اس کے بعد اس نے سعید کو اس کی بیماری کے آغاز سے اس کے پاس پہنچنے تک کے واقعات کتاب میں سے پڑھ کر سنانا شروع کردیے۔ سعید حیرت سے اس کی طرف دیکھتا رہ گیا کیونکہ اس کا ایک ایک لفظ صحیح تھا۔ مگر یہ طلسماتی کہانی یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اس اللہ والے نے اسے ایک تعویز دیا اور کہا اسے پانی کی بوتل میں ڈال دو اور پندرہ دن یہ پانی پینے کے بعد دوبارہ میری طرف آنا۔ سعید نے ایسا ہی کیا۔ یہ عمل وہ تین ماہ تک دہراتا رہا اور اس کی بیماری آہستہ آہستہ کم ہوتی ہوئی تیسرے مہینے کے وسط میں بالکل ختم ہو گئی، اس کی مڑی ہوئی انگلیاں سیدھی ہو گئی تھیں اور اب وہ بالکل سیدھا کھڑا ہو سکتا تھا، یوں لگتا تھا جیسے اسے یہ موذی مرض کبھی لاحق ہی نہیں ہوا تھا۔
یہ کہانی سناتے ہوئے سعید نے زار و قطار رونا شروع کردیا اس کا یہ گریہ اظہار تشکر کا گریہ تھا۔ میں نے اس سے پوچھا یہ اللہ والا ان دنوں کہاں ہے؟ سعید نے بتایا کہ میں نے صحت یابی کے بعد اور مریضوں کو بھی اس کی طرف بھیجا اور وہ سب اللہ کے فضل و کرم سے صحت یاب ہو گئے مگر کچھ عرصے بعد وہ شخص وہاں سے غائب ہو گیا، وہ کہا کرتا تھا کہ وہ یہ جگہ چھوڑ جائے گا کیونکہ محلے کے لڑکے اسے تنگ کرتے ہیں، سو اب وہ اللہ جانے کہاں ہے اور یہ بھی اللہ ہی جانتا ہے کہ جو کچھ میں نے یہاں کہا ہے اس کا کوئی عقلی جواز ہے کہ نہیں۔ بظاہر کوئی نہیں اور اگر کوئی نہیں تو پھر کیا یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ صرف وہی سچ نہیں جو ہمیں نظر آتا ہے بلکہ وہ بھی سچ ہے جو ہمیں نظر نہیں آتا۔ میری ڈاکٹر سعید ملک اور ڈاکٹر ریاض بھٹی سے گزارش ہے کہ سائیکاٹرسٹ انسانی ذہن کی کارفرمائیوں کا احوال بیان کرتے رہتے ہیں، کیا وہ اس حوالے سے بھی رہنمائی کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔