پنجاب کا مینڈیٹ؟
بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب‘ اپنی بے خوابی کا قصہ شامی صاحب اتوار کے ”جلسہ عام‘‘ میں بیان کرچکے ۔ نصف شب کے قریب موبائل پر آنے والی کال ایسی ہیجان انگیز تھی کہ نیند کوسوں دور چلی گئی۔ کالر کوئی اور ہوتا تو شامی صاحب لاحول ولاقوۃ پڑھ کر آنکھیں موند لیتے لیکن ادھر منیر احمد خان تھے۔وہ ان میں سے نہیں جو کمپنی کی مشہوری کے لیے بے پرکی اڑاتے رہتے ہیں۔ اپنے جاننے والوں میں ان کی شہرت ایک باخبر اور ذمہ دار سیاست کار کی ہے جو دور کی کوڑی نہیں‘ دور کی خبر لاتے ہیں۔ اور اس شب وہ جناب عثمان بزدار کی رخصتی کی خبر دے رہے تھے کہ بنی گالہ کی میٹنگز میں فیصلہ ہوچکا‘ چند لمحوں بعد اس کا باقاعدہ اعلان کردیا جائے گا۔
ایک کال کا قصہ مجھ سے بھی سن لیں‘ جو اس سے بھی زیادہ ہیجان خیز تھی اور کالر بھی ایک بزرگ تجزیہ کار /کالم نگار تھے۔ گزشتہ نومبر کے پہلے ہفتے کی سہ پہر ‘میں حفیظ اللہ نیازی کے ساتھ نصراللہ ملک کی والدہ کی رسمِ سوئم کے لیے جارہاتھا۔ گاڑی میں ہم دو ہی تھے کہ حفیظ اللہ کے موبائل کی گھنٹی بجی۔حفیظ اللہ نے مجھے خاموش رہنے کے لیے کہا اور موبائل کا سپیکر آن کردیا۔ حفیظ اللہ ان دنوں شام کے ایک ٹاک شو کا مستقل حصہ تھے۔ آواز ابھری:” ابھی ابھی میٹنگ ختم ہوئی ہے۔ عمران خان کی رخصتی کا فیصلہ ہوچکا۔ اب ان کے جانشین کے لیے تین ناموں پر غور ہورہاہے۔1۔اسد عمر2۔ پرویز خٹک اور تیسرے چودھری پرویز الٰہی۔ جوں ہی نام فائنل ہوگا‘ خبر آجائے گی۔یہ اس سال کی‘ بلکہ آئندہ سال کی بھی سب سے بڑی خبر ہے‘ اسے میری طرف سے اپنے لیے ایک قیمتی تحفہ سمجھو۔یہ ٹاک شو میں‘ تمہاری طرف سے بریکنگ نیوز بھی ہوسکتی ہے‘‘۔”خبر‘‘ واقعی بہت بڑی تھی اور ”مخبر‘‘ بھی ایک سینئر میڈیا پرسن تھا۔مختلف حلقوں (اور طاقتورحلقوں) میں اس کے روابط بھی موجودہیں۔ حفیظ اللہ نے استفسار طلب نظروں سے میری طرف دیکھا۔ میرا کہنا تھا کہ اس میں کئی ”اگر مگر‘‘ (Ifs and buts) ہیں۔ اس کہانی کی سب سے کمزور کڑی چودھری پرویز الٰہی کا عمران خان کے جانشین کے طور پر زیر غور آنا ہے۔ وہ پنجاب اسمبلی کے سپیکر ہیں۔اگر عمران خان واقعی رخصت ہوجاتے ہیں اور ان کے جانشین کے طور پر قرعۂ فال پرویز الٰہی کے نام نکل آتا ہے‘تو ان کے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے تک‘ موجودہ قومی اسمبلی سے ہی کوئی عبوری انتظام کرنا پڑے گا جس طرح مشرف دور میں ظفر اللہ جمالی رخصت ہوئے تو شوکت عزیز کے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے تک چودھری شجاعت حسین دوماہ کے لیے عبوری وزیر اعظم بن گئے۔ اس دوران ہم اپنی منزل مقصود تک پہنچ گئے تھے۔ طے یہی پایا کہ ”سال کی اس سب سے بڑی خبر‘‘ کوفی الحال سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں۔
میڈیا میں ایک بار پھر ”مائنس ون‘‘ کا شور ہے۔ بعض ”باخبروں‘‘ کا کہنا تھا کہ پنجاب کی حد تک تو مائنس ون کا فیصلہ ہوچکا ‘ عثمان بزدار صاحب کے جانشین کے حوالے سے بھی قیاس آرائیوں کے طوطے مینا اُڑنے لگے۔ وزیر اعظم لاہور تشریف لارہے تھے ‘کہاگیا کہ اس موقع پر جناب عثمان بزدار سے ملاقات میں انہیں ان کی رخصتی کے فیصلے سے آگاہ کردیا جائے گا۔ وزیر اعظم کا یہ دن بہت مصروف گزرا۔ انہوں نے قائد اعظم بزنس پارک کے سنگ بنیادکی نقاب کشائی کی۔مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ اس بزنس پارک کا 70فیصد کام تو شہباز شریف مکمل کر گئے تھے۔ وزیر اعظم سے ملاقات میں جنوبی پنجاب کے ارکانِ قومی اسمبلی نے شکایت کی کہ وزیر اعلیٰ بزدار پنجاب اسمبلی کے ارکان سے تو ملتے ہیں لیکن ارکانِ قومی اسمبلی کو وقت نہیں دیتے۔ وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ کو اس شکایت کے ازالے کی ہدایت کی اور ارکان اسمبلی کے لیے دس‘ دس کروڑ کے ترقیاتی فنڈز کی فراہمی کا وعدہ بھی کیاانہوں نے ون ٹو ون ملاقات میں بزدار صاحب سے کہا کہ افواہوں پر کان نہ دھریں۔وہ جب تک وزیر اعظم ہیں ‘بزدار ہی وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ صوبائی وزیر اسد کھوکھر کا ”استعفیٰ‘‘ اور کمشنر لاہور آصف لودھی اور سیکرٹری سروسز شعیب اکبر کی پنجاب بدری بھی اس دوران اہم خبر تھی۔ یہ دونوں حال ہی میں ان مناصب پر فائز ہوئے تھے۔ادھر مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل جناب احسن اقبال نے ”پنجاب بچائو تحریک‘‘ شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ان کے بقول جولائی2018کے الیکشن میں پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی‘ یہاں حکومت سازی ہمارا حق تھالیکن ہمارا مینڈیٹ چرا کر ایک ایسی حکومت مسلط کردی گئی جس نے شہبازشریف کے دس سالہ ترقی کو تباہی وبربادی میں بدل دیا ۔ ”پنجاب بچائو تحریک‘‘ پر پیپلز پارٹی کے چودھری منظور کا تبصرہ مسلم لیگ(ن) کی قیادت کے لیے چشم کشا ہونا چاہیے: ”وہ پنجاب کی جبکہ ہم ”پاکستان بچائو‘‘ کی بات کرتے ہیں‘‘۔ مینڈیٹ کے حوالے سے احسن اقبال کی بات بجا کہ25جولائی 2018کے صوبائی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ(ن) 129نشستوں کے ساتھ صوبے کی سب سے بڑی جماعت کے طورپر سامنے آئی تھی۔ پی ٹی آئی کی 123نشستیں تھیں۔ سات نشستیں قاف لیگ‘ چھ پیپلز پارٹی اور چارایم ایم اے کے حصے میں آئیں۔ 28نشستیں آزاد امید وار لے اڑے تھے۔
یہی کیفیت اکتوبر1993کے انتخابات میں تھی۔ تب صوبائی انتخابات ‘ قومی اسمبلی کے انتخابات کے دود ن بعد ہوتے تھے۔ نوازشریف حکومت سپریم کورٹ سے بحالی کے بعد بھی اپنی باقی ماندہ مدت پوری نہ کرسکی۔ ایوانِ صدر کا پیدا کردہ بحران بالآخر اس سمجھوتے کے ساتھ اختتام کو پہنچا کہ صدر اور وزیر اعظم ‘ دونوں مستعفی ہوجائیں‘صوبائی حکومتیں بھی رخصت ہوں اور ملک نئے انتخابات کی طرف چلا جائے۔نوازشریف اور بے نظیر بھٹو پھر آمنے سامنے تھے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ میں یہ معرکے کارَن تھا۔ پسِ پردہ کچھ ہاتھ بھی کارفرما تھے۔چھ اکتوبر کو قومی اسمبلی کے انتخابات میں مسلم لیگ کو پیپلز پارٹی پر تین فیصد ووٹوں کی برتری حاصل تھی (مسلم لیگ 41اور پیپلز پارٹی 38فیصد) نشستوں کے لحاظ سے پیپلز پارٹی کو16کی برتری حاصل تھی(پیپلز پارٹی 89مسلم لیگ 73)۔جماعت اسلامی نے یہ الیکشن پاکستان اسلامک فرنٹ کے نام سے لڑا۔پروفیسر غفور احمد نے اپنی کتاب میں لکھا کہ پنجاب میں 10نشستیں ایسی تھیں جہاں مسلم لیگ اور فرنٹ میں ووٹوں کی تقسیم پیپلز پارٹی کی کامیابی کا باعث بنی۔ورنہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ کے ارکان کی تعداد 73 سے بڑھ کر 83اور پیپلز پارٹی کی 89سے کم ہو کر 79رہ جاتی ۔
9اکتوبر کے صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ کو پیپلز پارٹی پر 12ارکان کی برتری حاصل ہوگئی(مسلم لیگ106‘ پیپلز پارٹی94)17سیٹوں پر آزاد امید وار جیتے‘ 18نشستیں حامد ناصر چٹھہ کی جونیجو لیگ کے حصے میں آئیں‘دوسیٹوں پر اسلامک فرنٹ جیت گیا۔ آزاد امید واروں کا رجحا ن مسلم لیگ کی طرف تھا لیکن دستِ غیب کی کارفرمائی کے باعث‘ مسلم لیگ کی حکومت نہ بن سکی۔ بے نظیردوسری بار وزیر اعظم بننے جارہی تھیں۔1988-90والے تلخ تجربے کے باعث انہیں پنجاب میں (ایک بار پھر) نوازشریف والی مسلم لیگ کی حکومت کسی صورت قبول نہ تھی؛ چنانچہ انہوں نے18نشستوں والی جونیجو لیگ کو وزارتِ اعلیٰ دے کر اپنی مخلوط حکومت بنا لی۔
کہا جاتا ہے کہ 2018میں پنجاب کی حد تک شہباز شریف کے لیے گنجائش موجود تھی ۔اس سے ملک میں سیاسی توازن کا اہتمام بھی ہو جاتا ۔ اپنی اس پختہ رائے کے باوجود کہ اداروں سے بنا کے رکھنی چاہیے ‘وہ اپنے بھائی سے بے وفائی یا لاتعلقی پر آمادہ نہ ہوئے؛ چنانچہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں مسلم لیگ کے لیے کوئی امکان موجود بھی تھا تو بروئے کا رنہ آسکا۔