پاکستان کرکٹ ٹیم کا دورہ انگلینڈ: کیا فاسٹ بولر محمد عامر پاکستانی ٹیم کے لیے ناگزیر ہیں؟
پاکستان کرکٹ بورڈ کو ایک بار پھر فاسٹ بولر محمد عامر کی یاد آ گئی۔ محمد عامر کو چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ مصباح الحق کی خواھش اور درخواست پر انگلینڈ بھیجا جارہا ہے جہاں وہ ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے دستیاب ہوں گے۔
اس سے قبل جب پاکستانی کرکٹ ٹیم کا دورہ انگلینڈ کے لیے سلیکشن ہو رہا تھا تو محمد عامر نے ذاتی وجوہات کی بنا پر انگلینڈ کے دورے کے لیے عدم دستیابی ظاہر کی تھی تاہم اب بیٹی کی پیدائش کے بعد انھوں نے انگلینڈ جانے کے لیے دستیابی ظاہر کی ہے۔
محمد عامر کو انگلینڈ بھیجنے کے سلسلے میں چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ مصباح الحق کا یہ کہنا ہے کہ چونکہ فاسٹ بولر حارث رؤف کے کورونا ٹیسٹ پانچ مرتبہ مثبت آچکے ہیں لہذا ٹیم کو ایک تجربہ کار بولر کی ضرورت ہے اس لیے محمد عامر کو انگلینڈ طلب کیا گیا ہے۔
یہاں کرکٹ کے حلقوں میں محمد عامر کو انگلینڈ بھیجنے کے فیصلے پر بحث چل پڑی ہے اور اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ ہمیشہ سے محمد عامر کے معاملے میں نرم گوشہ اختیار رکھے ہوئے ہے۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان راشد لطیف کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ اپنے فیصلے کرنے میں ہمیشہ سے ہی کمزور رہا ہے جس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جہاں تک محمد عامر کو انگلینڈ بھیجنے کا تعلق ہے تو اس بارے میں ملے جلے تاثرات ہیں اگر وہ ٹیسٹ میچ کے لیے بھی دستیاب ہوئے تو اسے اچھا فیصلہ کہا جا سکتا ہے۔
سینئر صحافی عبدالماجد بھٹی نے اپنی ٹویٹ میں محمد عامر کو انوکھا لاڈلا کہہ کر پکارا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ محمد عامر نے تین سال میں کونسا میچ جتوایا ہے؟ ہمیں اپنی کرسیاں بچانے کے لیے سٹار ڈوم سے باہر آنا ہو گا۔
ایک اور سینئر صحافی سہیل عمران نے سوال کیا: ’کیا محمد عامر ٹیم کے لیے اتنے ہی ناگزیر ہیں کہ وہ اپنی دستیابی سے آگاہ کریں اور ٹیم منیجمنٹ انھیں ٹیم میں شامل کرنے کے بارے میں سوچنا شروع کردے۔ جو بولرز مشکل حالات میں سکواڈ کا حصہ ہیں انھیں موقع دینے میں کیا حرج ہے نوجوان فاسٹ بولر محمد موسیٰ کا کیا قصور ہے؟‘
سپاٹ فکسنگ سے پہلے اور بعد
محمد عامر کا کریئر دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ کریئر کے آغاز سے سپاٹ فکسنگ سکینڈل تک کا ہے۔ اس دوران وہ ایک انتہائی باصلاحیت اور خطرناک سوئنگ بولر کے طور پر سامنے آئے تھے۔
سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں ملوث ہونے کی وجہ سے محمد عامر کو پانچ سال کرکٹ سے دور رہنا پڑا تھا۔ واپسی کے بعد سے اگرچہ وہ تینوں فارمیٹس میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے ہیں لیکن ان کی کارکردگی میں مستقل مزاجی کا فقدان رہا ہے اور یہ چیز ان کے اعدادوشمار سے بھی واضح ہو جاتی ہے۔
سنہ 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں اگر وہ اپنے خطرناک سپیل کی وجہ سے ہیرو بنے تھے تو صرف ایک سال بعد ایشیا کپ میں ان کی مایوس کن کارکردگی کپتان سرفراز احمد اور کوچ مکی آرتھر کے لیے پریشانی کا سبب بن گئی تھی۔
کپتان سرفراز احمد، محمد عامر کو یہ یاد دلانے پر مجبور ہو گئے تھے کہ آپ ایک سٹرائیک بولر ہیں اور آپ کا کام وکٹیں لینا ہے۔
محمد عامر نے گذشتہ سال ورلڈ کپ میں سترہ وکٹیں حاصل کی تھیں لیکن انڈیا کے خلاف تین اور آسٹریلیا کے خلاف پانچ وکٹیں ٹیم کو جیت سے ہمکنار نہیں کر پائی تھیں۔
محمد عامرپانچ سال کی پابندی کے بعد ٹیسٹ میچوں میں قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے اور ان کی زیادہ تر توجہ محدود اوورز کی کرکٹ پر رہی۔ حالانکہ انھوں نے اس عرصے میں کاؤنٹی کرکٹ میں چار روزہ میچ بھی کھیلے ہیں۔
گزشتہ سال ورلڈ کپ کے اختتام پر انھوں نے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا تھا۔
ان کے ٹیسٹ نہ کھیلنے کے فیصلے کے اثرات اس وقت ظاہر ہوئے جب پاکستانی کرکٹ ٹیم آسٹریلیا کے دورے پر جارہی تھی اور سلیکٹرز کو نوجوان اور ناتجربہ کار فاسٹ بولرز کا انتخاب کرنا پڑا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ مصباح الحق اور وقاریونس نے محمد عامر اور وہاب ریاض پر سخت تنقید کی تھی کہ ان دونوں کو آسٹریلیا کے مشکل دورے کو سامنے رکھتے ہوئے ٹیسٹ کرکٹ کھیلنی چاہیے تھی۔
ایک عام رائے یہ ہے کہ محمد عامر پانچ سال کی پابندی کے بعد اپنے بین الاقوامی کریئر کو اس مقام پر لے جانے میں کامیاب نہیں ہو پائے جس کی توقع کی جارہی تھی۔
حالانکہ وہ اسوقت اٹھائیس برس کے ہیں لیکن سب سے اہم فارمیٹ یعنی ٹیسٹ کرکٹ سے خود کو الگ کر کے اور سینٹرل کنٹریکٹ سے باہر ہو کر انھوں نے اپنا کریئر محدود کرلیا ہے لیکن اس کے باوجود جب بھی ٹیم کسی مشکل میں ہوتی ہے تو اس کی نظر محمد عامر پر ہی جا ٹھہرتی ہے۔