ارسطو نے سکندر کو کیا سکھایا: کہانی انسانی تاریخ کو کیسے بدلتی ہے؟
یونانی بادشاہ الیگزینڈر یا سکندر کو دنیا ‘سکندر اعظم’ کہتی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے بہت ہی کم عمر میں یورپ سے ایشیا تک اپنی سلطنت قائم کر لی تھی۔
محض 32 سال کی عمر میں مرنے سے پہلے سکندر نے یونان کے صدیوں پرانے دشمن فارس کو گھٹنے ٹیکنے کے لیے مجبور کر دیا تھا اور تہذیبوں کا مرکز کہلائے جانے والے مشرق وسطیٰ پر حکومت قائم کر لی تھی۔
سکندر کے عظیم بننے اور کامیابی حاصل کرنے میں ان کے استاد ارسطو کی تعلیم کو کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ ارسطو نے سکندر کو کیا سکھایا؟
ارسطو نے سکندر کو ایک کہانی سنائی تھی اور یہ کہانی حقیقت اور فسانے کے امتزاج سے بنی تھی۔
یہ کہانی ٹرائے کی جنگ کی کہانی تھی جس کا یونانی شاعر ہومر نے اپنی رزمیہ الیڈ میں مفصل ذکر کیا ہے۔
یہ کہانی انسانی جذبات کا نچوڑ ہے۔ اس میں عشق و محبت ہے، نفرت ہے، یہ رزم کی داستان بھی ہے اور بزم کی بھی۔ اس میں انسانوں کے کارناموں کا بیان بھی ہے اور ان کی ناکامیوں کا ماجرا بھی۔
ایلیڈ ایک ایسا رزمیہ ہے جس نے سکندر کو جیت کے جذبے سے سرشار کر دیا۔ انھوں نے ٹرائے کی جنگ سے یونانی بادشاہوں کی یک جہتی اور جنگی حکمت عملی سیکھی اور پھر دنیا پر فتح حاصل کی۔
کہانیاں ہماری تہذیب و ثقافت میں پیوست ہوتی ہیں۔ مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک دنیا کے ہر گوشے میں اور انسانی تہذیب کی ترقی کے ہر دور میں قصہ گوئی موجود رہی ہے۔
بچپن میں ہم نے اپنی دادی نانی سے کہانیاں سنی ہیں۔ بادشاہ اور ملکاؤں کی کہانی، الف لیلہ کی کہانیاں، سات بہنوں کی کہانی، علی بابا چالیس چور کی کہانی، سندباد کی کہانی اور پنچ تنتر یا کلیلہ و دمنہ کی کہانیاں وغیرہ۔
ہر کہانی سے ہمیں ایک سبق ملتا ہے۔ اس کے علاوہ الفاظ کے ذریعہ اس دور کا خاکہ کھینچا جاتا ہے تاکہ اس دور کے رسم و رواج، عادات و اطوار اور ديگر چیزوں کی معلومات ملے۔
قصہ گوئی کا رواج ہر دور میں رہا ہے۔ عرب ممالک میں الف لیلہ کی کہانیاں رہی ہیں تو انڈیا میں پنچ تنتر اور بھی مہا بھارت اور راماین جیسی رزمیہ داستانیں ہیں۔
کہانیاں صرف کتابوں کی زینت نہیں بلکہ ان کی انسانی زندگی میں بھی قدر و قیمت رہی ہے۔
ارسطو کا کہنا تھا کہ ادب اور کہانیاں صرف انسانوں کی تفریح کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کا سبق سکھانے اور قاعدے قانون بنانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
ان کے علاوہ شاعری انسانی جذبات کی عکاسی کرتی ہے اور ہمیں بہتر انسان بنانے میں کردار ادا کرتی ہے۔
یہ نہیں ہے کہ دنیا بھر میں ادب کی ابتدا رزمیہ سے یا اس دور کے بادشاہوں کی شکست و فتح کی کہانیوں سے ہوئی ہے۔ بہت سی جگہوں پر ادب کا آغاز نظم و شعر سے ہوا۔
مثلاً چین میں ادب کی ابتدا میں شعر کہنے کا کام صرف شاعروں تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ اعلیٰ عہدوں کے لیے شعر گوئی کا امتحان دینا ہوتا تھا، اور تمام بڑے حکومتی عہدیداروں کے لیے شعر کہنے اور شعر فہمی کی صلاحیت لازمی تصور کی جاتی تھی۔
چین سے متاثر ہو کر جاپان میں بھی شاعری کو خوب عروج حاصل ہوا۔
قدیم زمانے میں جاپان میں خواتین کو ادب پڑھنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن یہاں ‘جہاں چاہ وہاں راہ’ کے مصداق پابندی کے باوجود دنیا کا سب سے پہلا ناول ‘ٹیل آف گینجی’ وہیں لکھا گیا اور اس کی ناول نگار مراساکی شیکیبو ایک خاتون تھیں۔
اس خاتون نے اپنے بھائی کو پڑھتے دیکھ کر لکھنا سیکھا تھا، پھر انھوں نے تقریباً ایک ہزار صفحات کا شاہکار ناول لکھا۔ اسے کلاسیکی ادب بنانے کے لیے انھوں نے اپنے ناول میں 800 کے لگ بھگ نظمیں بھی شامل کیں۔
ادب یا قصے کہانیوں کی دنیا میں انقلاب لانے کا سہرا عرب ممالک کو جاتا ہے جنھوں نے چین سے کاغذ بنانے کی تکنیک سیکھ کر اسے ایک بہت کامیاب کاروبار کے طور پر آگے بڑھایا۔
کاغذ کی ایجاد سے پہلے کہانیاں نسل در نسل زبانی ادب کے روپ میں پہنچ رہی تھی۔
جب انسان نے لکھنا شروع کیا تو اس نے اپنے خیالات درختوں کی چھالوں اور پتوں پر درج کرنے شروع کیے، پتھروں پر کندہ کیے۔ کاغذ کی دریافت کے بعد سارا منظر ہی بدل گيا اور عرب میں الف لیلہ کی کہانیاں اسی طرح یکجا کی گئيں۔
کہانیاں ہوں یا نظمیں یا پھر رزمیہ داستان یہ سب انسانی تاریخ کا اہم حصہ ہیں۔ بہشت اور جہنم کا تصور بالکل مذہبی ہے۔ لیکن اطالوی شاعر دانتے نے اسے بہت ہی خوبصورت انداز میں اپنی تصنیف ‘ڈیوائن کامیڈی’ میں پیش کیا ہے۔
کاغذ کی ایجاد نے ادب کو تحفظ فراہم کیا اور اسے یکجا کرنے کا کام کیا۔ پرنٹنگ کی ایجاد اسے گھر گھر پہنچایا۔ پرنٹنگ کے بعد ناول لکھنے کا رواج پروان چڑھا۔
خاص طور پر خواتین کے لیے ناول بڑے پیمانے پر لکھے جانے لگے۔
نئے ابھرتے ہوئے ممالک نے اپنی آزادی کے لیے جدید ناول کا استعمال کیا۔ دراصل سیاسی آزادی کے لیے ثقافتی آزادی بہت اہم ہے اور ناول اس کی مکمل آزادی دیتا ہے۔
جوں جوں ٹیکنالوجی میں ترقی ہوئی، لوگوں تک ادب تک رسائی بھی بڑھ گئی۔ اس میں تعلیم کی بڑھتی ہوئی سطح نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ زیادہ قارئین پیدا ہونے لگے تو زیادہ کہانیاں لکھنے والے بھی آنے لگے۔ آج مختلف قسم کی کہانیاں لکھنے اور پڑھنے والے موجود ہیں۔
آج ہم انٹرنیٹ دور میں رہ رہے ہیں۔ ایک کلک پر دنیا بھر کا ادب ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ اگرچہ تمام چیزوں کی آن لائن دستیابی کا کتابوں کی اشاعت پر برا اثر پڑا ہے لیکن اس سے کہانیاں سننے اور سنانے والوں کے جنون میں کوئی کمی نہیں آئی۔
خواہ کوئی ہاتھ میں کتاب لیے پڑھتا نظر نہ آتا ہو لیکن سب کے پاس ایسے گیجٹس ہیں جس کے ذریعے جب چاہے پڑھ سن سکتا ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈیجیٹل ورلڈ میں ہم ادب لکھنے کا ایک نئی آغاز کر رہے ہیں۔
زمانہ خواہ کتنا ہی کیوں نہ بدل گیا ہو، راجہ رانی تبدیل ہو گئے ہوں لیکن قصے کہانی کا دور جاری ہے اور کہانی کی حکومت ہمارے دلوں پر قائم ہے۔