بکرے، دُنبے اور انسان!
میں نے جب سے آنکھ کھولی ہے ہر سال بکروں کی منڈیاں لگتی دیکھتا ہوں اور متعدد بار خود میں بھی بطور سوداگر وہاں گیا ہوں اور متعدد بار ایسا ہوا کہ صرف مول تول کرکے واپس آگئے۔ مثلاً میں تو گزشتہ روز بھی اس نیت سے گھر سے نکلا تھا کہ واپسی پر میرے ساتھ ایک سعادت مند بکرا ہوگا جو عید کے روز قصائی کے سامنے:
سر تسلیمِ خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے
والا مصرعہ ترنم میں گنگناتے ہوئے اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کردے گا مگر اس بار بھی یہی ہوا کہ مول تول کرکے ٹھنڈے ٹھنڈے گھر کو لوٹ آیا۔ بیشتر بکرے تو اتنے لاغر تھے کہ ان کا شجرہ نسب مجنوں سے جا ملنے کا گمان گزرتا تھا۔ اس طرح کے کچھ دُنبے بھی میں نے دیکھے اور لگتا تھا کہ کسی نے انہیں مار مار کر دنبہ بنایا ہے البتہ بکروں کی ایک جوڑی مجھے قدرے صحت مند لگی۔ میں نے ریوڑ کے مالک سے قیمت پوچھی تو اس نے انکی قیمت ایک لاکھ چالیس ہزار روپے بتائی۔ اس پر مجھے بہت دھچکا لگا اورغصہ بھی آیا کہ اس نے آخر مجھے سمجھا کیا ہے تاہم اس وقت میرا غصہ فرو ہوا جب ریوڑ کے مالک نے میرا چہرہ دیکھا تو بولا آپ کیوں ناراض ہو رہے ہیں میں نے یہ قیمت بکروں کی لگائی ہے۔ آپ کی قیمت تو خریدنے والے جانتے ہوں گے۔ بہرحال اس وضاحت کے بعد میں نے جوڑی خریدنے کا ارادہ ترک کیا اور ان میں سےایک بکرے پر انگلی رکھ کرپوچھا ’’اس اکیلے کی کیا قیمت ہے‘‘؟ مالک نے کہا ایک لاکھ روپے یہ سن کر میں خاصا پریشان ہوا اور اسی پریشانی کے عالم میں پوچھا ’’یہ کس گریڈ کا بکرا ہے؟‘‘ اس پر ریوڑ کے مالک نے اپنی توجہ میری بجائے دوسرے گاہکوں کی طرف مبذول کی۔ اسے غالباً میرے بارے میں یہ گمان گزرا کہ میں گاہک نہیں، تھیٹر کا کوئی مخولیہ ہوں اور صرف جگتیں کرنے کے لئے یہاں آیا ہوں۔
یہاں کھڑے کھڑے میں نے ایک بات یہ بھی نوٹ کی کہ جو سچ مچ کے گاہک تھے وہ بکروں کو ٹٹول ٹٹول کر کیا دیکھتے تھے ان کا باقاعدہ میڈیکل چیک اپ کرتے تھے کہ کہیں ان میں سے کوئی بکرا معذور تو نہیں۔ پہلے تو میں ان کی اس حرکت سے پریشان ہوا مگر پھر یاد آیا کہ شرعی نقطہ نظر سے معذور بکروں کی قربانی جائز نہیں ہے۔ قربانی کے لئے جانور کاہر لحاظ سے اعلیٰ و برتر ہونا ضروری ہے۔ گویا معذوروں کا سال منانے کی رسم انسانوں ہی کی نہیں بکروں کی سلامتی کی بھی ضامن ہے تاہم اس معاملے میں بکروں کو انسانوں پر ایک فضیلت حاصل ہے اور وہ یہ کہ بقرعید پر معذور بکروں کی جان تو بچ جاتی ہے مگر ہر سال بجٹ کے موقع پر قربانی کے بکرے اعلیٰ و برتر طبقے نہیں ناتواں طبقے بنتے ہیں اور یوں بر س ہا برس سے ان کی مائوں نے اب ان کی خیر منانا ہی چھوڑ دی ہے۔
اور یہ جو میں نے اس کالم میں کہیں اس بکرے کے بارے میں اس شبے کا اظہار کیا تھا کہ و ہ کہیں اعلیٰ گریڈ کا تو نہیں تو یہ ایسے ہی نہیں تھا؟ کیونکہ اس روز بکروں کی متذکرہ منڈی سے میرا گزر متعدد بار ہوا اور میں نے دیکھا کہ پچیس تیس ہزار روپے تک کی رینج کے بکرے تو دھڑا دھڑ خریدنے والوں کی رینج میں آ رہے ہیں اوروہ ان کے گلے میں رسی ڈالےانہیں کھینچے لئے جارہے ہیں مگر یہ جودوسرے بکرے تھے اسی طرح اپنے کھونٹے سے بندھے تھے۔ ان پرگوٹے ستارے والی چادر پڑی تھی اور انہیں خریدنےوالے کم اور پچکارنے والے زیادہ تھے۔ ان کی قیمت اور شان وشوکت دیکھ کر کسی کو ہمت نہ پڑتی تھی کہ وہ اسےبھی کان سے کھینچتا ہوا لے جائے اور اپنے گھر کی ڈیوڑھی میں باندھ دے بلکہ ان میں سے ایک بکرا تو خاصا نک چڑھا بھی تھا۔ اگر اسے کسی پر یہ شبہ گزرتا کہ اس نے اس کے سر پر ہاتھ پچکار نے کے لئے نہیں بلکہ ٹٹولنے کے لئے رکھا ہے تو وہ دو تین گز الٹے قدم چلتا اور پھر سر نیچے اور سینگ سیدھے کرکے اس پر حملہ آور ہو جاتا، ممکن ہے یہ سطور شائع ہونے تک کوئی مائی کا لال اس کے گلے میں بھی رسی ڈال کر اسے لے گیا ہو مگر ایسا ذرا کم ہی ہوتا ہے کیونکہ یہ بکرے وہ ہیں جن کی قیمتوں کا فیصلہ ہم نہیں کرتے بلکہ ہماری قیمتوں کا فیصلہ وہ کرتے ہیں۔ اور اب آخر میں میرے پسندیدہ شاعر قمر رضا شہزاد کی ایک نہایت خوبصورت غزل:
یہ سانپ اور یہ خزانہ تمام آپ کا ہے
انہیں سنبھالنا صاحب مقام آپ کا ہے
میں یونہی شور مچاتا ہوں اپنے ہونے کا
یہ میرا نام حقیقت میں نام آپ کا ہے
میں اصل میں ہوں یہاں لفظ جوڑنے والا
مجھے پتا ہے یہ سارا کلام آپ کا ہے
یہ بادشاہ تو خود کو فریب دیتے ہیں
یہاں ہے جس کی حکومت غلام آپ کا ہے
یہ حسن و عشق دعا بددعا طلوع و غروب
جہاں بھی غور سے دیکھوں نظام آپ کا ہے