بیروت دھماکہ: 78 ہلاکتیں، چار ہزار زخمی، لبنان میں تین روزہ سوگ
لبنان کے دارالحکومت بیروت میں منگل کی شام ہونے والے ایک بڑے دھماکے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 78 تک پہنچ گئی ہے جبکہ حکام نے چار ہزار سے زیادہ افراد کے زخمی ہونے کی بھی تصدیق کی ہے۔
یہ دھماکہ بیروت کی بندرگاہ کے علاقے میں ایک گودام میں مقامی وقت کے مطابق شام چھ بجے کے بعد ہوا اور یہ اتنا شدید تھا کہ پورا شہر ہل کر رہ گیا۔
اس کی شدت اتنی تھی کہ اس کے اثرات 240 کلومیٹر دور مشرقی بحیرۂ روم کے ملک قبرص میں بھی محسوس کیے گئے جہاں لوگوں نے اسے زلزلہ سمجھا۔
دھماکے سے قبل بندرگاہ میں متاثرہ مقام پر آگ لگی دیکھی گئی جس کے بعد ایک بڑا دھماکہ ہوا اور جائے حادثہ پر نارنجی رنگ کے بادل چھا گئے۔
اس دھماکے سے بندرگاہ اور اس کے نواح میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور کاروباری اور رہائشی عمارتیں اور گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔
ملک کے صدر عون مشیل نے اس حادثے پر بدھ سے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ بدھ کو لبنان کی وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی طلب کیا گیا ہے اور صدر نے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں دو ہفتے کے لیے ہنگامی حالت نافذ کی جائے۔
یہ دھماکہ بظاہر ایک گودام میں موجود امونیم نائٹریٹ کے ذخیرے میں ہوا ہے تاہم اس سلسلے میں سرکاری طور پر ابھی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
لبنانی صدر نے کہا ہے کہ یہ امونیم نائٹریٹ ایک گودام میں غیرمحفوظ طریقے سے چھ برس سے موجود تھی۔
لبنانی وزیراعظم حسن دیاب نے کہا ہے کہ یہ ناقابل قبول ہے کہ ویئر ہاؤس میں 2750 ٹن امونیم نائٹریٹ موجود تھی۔ انھوں نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پیغام میں لکھا کہ ’میں تب تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک مجھے اس واقعے کے ذمہ دار کا نہ پتا چل جائے تاکہ اس کا محاسبہ کیا جائے اور بہت سخت سزا دی جائے۔‘
لبنانی صدر نے مزید کہا ہے کہ ان کی حکومت ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے 100 ارب لیرا جاری کر رہی ہے جو کہ ساڑھے چھ کروڑ ڈالر کے مساوی رقم بنتی ہے۔
متاثرہ علاقے میں امدادی کارروائیاں ابھی بھی جاری ہیں اور امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ خدشہ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔
لبنانی ریڈ کراس کے سربراہ جارج قیطانی کا کہنا ہے کہ ’ہم ایک بہت بڑی تباہی دیکھ رہے ہیں۔ ہر طرف زخمی اور لاشیں ہیں۔‘
حکام نے کہا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ دھماکے کی وجہ کیا بنی۔
یہ دھماکہ ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب ملک شدید بحران میں گھرا ہوا ہے۔ ملک میں معاشی حالات انتہائی ابتر ہیں اور ساتھ ساتھ کورونا وائرس کی وبا کا پھیلاؤ بھی ہے۔
اس کے علاوہ ملک میں ایک سیاسی تناؤ کی بھی صورتحال ہے کیونکہ جمعے کو 2005 میں مارے گئے سابق وزیر اعظم رفیق حریری کے مقدمۂ قتل کا فیصلہ بھی آنا ہے۔
بین الاقوامی برادری کی جانب سے افسوس
بین الاقوامی برادری کی جانب سے لبنان میں ہونے والے دھماکے پر تشویش اور افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
عالمی برادری کی جانب سے اس واقعے میں ہونے والے جانی اور مالی نقصان پر لبنانی حکومت اور عوام سے اظہار افسوس کیا گیا ہے۔
برطانیہ، امریکہ، جرمنی، اسرائیل اور ایران کے حکام نے اپنے پیغام میں مدد کی پیشکش بھی کی ہے۔
جرمن سفارتخانے نے اس واقعے میں اپنے عملے کے زخمی ہونے کی تصدیق ٹوئٹر پر کی ہے جبکہ اقوام متحدہ کے امن مشن کے اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔
امونیم نائٹریٹ کیا ہے؟
بظاہر دھماکے کی وجہ بننے والی امونیم نائٹریٹ اطلاعات کے مطابق ایک بحری جہاز سے 2013 میں ضبط کی گئی تھی اور اسے گودام میں ذخیرہ کیا گیا تھا۔
امونیم نائٹریٹ متعدد مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے لیکن زیادہ تر اسے زرعی شعبے میں کھادوں میں استعمال کیا جاتا ہے تاہم یہ آتشیں مواد کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہے۔
جب اسے آگ کے قریب لے جایا جائے تو یہ پھٹ جاتی ہے اور اس مرکب سے زہریلی گیسوں کا اخراج ہوتا ہے جن میں نائٹروجن آکسائڈز اور ایمونیا شامل ہیں۔
چونکہ یہ آگ پکڑتی ہے اس لیے اسے محفوظ رکھنے کے لیے سخت اصول و ضوابط وضع کیے جاتے ہیں۔ اس میں یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ جہاں اسے محفوظ رکھا جائے وہاں آگ لگنے کا خطرہ نہ ہو اس کے علاوہ وہاں کوئی پائپ، اخراج کے لیے راستے نہ ہوں جہاں یہ جمع ہو سکے۔
معاشی بحران اور سیاسی کشیدگی میں گھرا لبنان
لبنان میں اس وقت سیاسی کشیدگی جاری ہے۔ حکومت کے خلاف زبردست عوامی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ عوام موجودہ معاشی بحران سے نمٹنے کے حکومتی فیصلوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
1975 سے 1990 تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے بعد لبنان میں آنے والا یہ بدترین معاشی بحران ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت سرحد پر اسرائیل کے ساتھ جاری کشیدگی سے بھی نمٹ رہی ہے۔
اسرائیل نے گذشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس نے حزب اللہ کی طرف سے لبنان کی جانب سے اسرائیلی سرحدوں میں گھسنے کی کوشش ناکام بنا دی۔
حریری کیس کی تفصیلات کیا ہیں؟
یہ دھماکہ اس مقام کے قریب ہوا ہے جہاں سابق لبنانی وزیراعظم رفیق حریری سمیت 23 افراد فروری دو ہزار پانچ میں ہونے والے ایک بم دھماکے میں اس وقت ہلاک ہوئے جب وہ اپنی گاڑی میں جا رہے تھے۔
رفیق حریری ملک کے نامور سنّی سیاست دانوں میں سے ایک تھے۔ ان کی موت جس وقت ہوئی اس عرصے میں وہ شام کی طرف سے ملک میں 1976 سے تعینات کیے گئے فوجیوں کے انخلا کا مطالبہ کررہے تھے۔
ان دھماکوں کے بعد اس وقت کی شام نواز حکومت کے خلاف زبردست مظاہرے ہوئے اور الزام سرحد پار قوتوں پر لگایا گیا۔ اس واقعے کے دو ہفتے کے اندر اندر حکومت مستعفی ہوگئی اور شام نے اپنی فوج کو واپس بلا لیا۔
2007 میں اقوام ِمتحدہ نے ایک خصوصی ٹرائبیونل تشکیل دیا اور حزب اللہ کے چار اراکین پر قتل، دہشت گردی اور شدت پسندی کی فرد جرم عائد کی گئی۔
حزب اللہ نے اس مقدمے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ یہ سیاسی طور پر غیر جانبدار نہیں۔